ڈاکٹر عبدلمجید بھدرواہی
نیلما کی شادی کو پانچ سال ہو گئے تھے مگر اس کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔ کئی ڈاکٹروں کو دکھایا۔ شہر کے سارے ہسپتال چھان مارے۔ نہ خاوند میں کوئی نقص تھا اور نہ ہی بیوی میں کوئی خرابی۔ آخر کار پیروں، فقیروں ، درگاہوں اور مندروں سے رجوع کیا مگر کوئی فائیدہ نہ ہوا۔ غرض کہ ہر طرح کا علاج بے کار ثابت ہوا۔ اب نا امیدی ہوگئی جو کہ لازمی بھی تھی۔ پھر کسی نے کسی کا بچہ گود لینے کی صلاح دی مگر یہ صلاح فوراً مسترد کر دی گئی کہ اس طرح ہر کسی کو پتہ چل جائے گا کہ بہو بانجھ ہے۔ آخر کار کسی نے ایک بہت ہی ذلیل حرکت کرنے کی صلاح دی، جس کو بھی فورا ہی نکار دیا گیا۔ صلاح یہ دی کہ کسی کا بچہ ہسپتال سے اٹھالاؤ، اس حرکت کے لئے کسی ہسپتال کے خدمت گار یا صفائی کرم چاری کی مدد لو۔ کچھ دنوں شور شرابا ہو گا، انکوائری ہو گی، تھانے میں رپورٹ کی جائے گی اور پھر تھوڑے ہی دنوں بعد معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔
جب ساس نے اپنے بیٹے کو دوسری شادی کے لئے کہا تو نیلما سو چنے پر مجبور ہوگئی اور اس سنگین جرم کے لئے حامی بھر لی، مگر یہ خیال آیا کہ یہ ایک سنگین جرم ہے۔ انتہائی اخلاقی گراوٹ ہے۔ انسانیت سوز حرکت ہے۔ یہ خیال اس کو سانپ کے ڈنک کی طرح ہر وقت ہر لمحہ تڑپا تا رہا۔ شدید نفسیاتی دباؤ اور بیماری نے pseudocyesis سائیکولوجیکل بیماری کو جنم دیا۔ اس بیماری میں مریضہ کو پیٹ کا بڑھنا، بچے کی حرکت اور باقی حاملہ عورت کی نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں۔
اب صرف مناسب موقعے کی تلاش تھی۔ ایک دن بہو نے اپنے ساس کو کہہ دیا کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، سب میکے اور سسرال والے خوش ہو گئے۔ اس نے اپنی ساس کو یہ بھی بتایا کہ کل ڈاکٹر نے چیک اپ کے لئے پھر بلایا ہے۔ نفسیاتی علاج کے طور پر ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ یہ حاملہ ہے اور چار ماہ تک بالکل آرام کی ضرورت ہے۔ یہ قیمتی بچہ ہے ، بڑی مشکل سے حمل ٹھہرا ہے۔ اس نے یہ بھی کہہ دیا کہ مکمل آرام کے لئے میکے جانا بہتر رہے گا۔ وہاں زیادہ احتیاط ہو گی۔ اس طرح اس نے اور بھی باقی احتیاط بتائی۔ یہ سن کر اس کا چہرا کھل اٹھا۔
بہت اچھا! ساس نے کہا۔ ’’ہمیں کیوں کر اعتراض ہو سکتا ہے۔ ‘‘ واقعی ڈاکٹر نے سچ کہا۔ ’’ماں آخر ماں ہی ہوتی ہے ، ہم بھی احتیاط کریں گے مگر وہاں اور زیادہ احتیاط ملے گی۔‘‘
ڈاکٹر کے پاس جاتے جاتے اس کی ملاقات ایک صفائی کرمچاری سے ہوئی۔ لڑکی نے اپنی بپتا سنائی ۔ یہ بات دو تین بار ہوئی، اس طرح اس کو لڑکی کی درد بھری داستاں سن کر ہمدردی ہوئی مگر ساتھ ہی اس گناہ عظیم کا خیال بھی ساتھ ساتھ رہا، جس کو روپیوں کی لالچ نے گرہن لگا دیا۔
باتوں باتوں میں موزوں وقت حاصل ہونے پر بچہ اٹھانے کی بات بھی ہوئی ۔
ایک دن لڑکی نے اس کو ایک نامعلوم جگہ پر بلایا، پوری بات ہوئی، ایک لاکھ روپے کا لین دین طے ہوا۔ پورا پلان بنایا گیا۔
قریباً نو ماہ بعد ایک غریب طبقہ کی عورت کے یہاں بچہ پیدا ہوا جس کے پاس مشکل سے ہی کوئی دوسرا رشته دار آتا تھا ۔ سوئپر کی نظر اس عورت کے بچے پر پڑی۔ جب یہ عورت باتھ روم گئی تو اس نے موقعہ پاکر پھرتی سے بچے کو اٹھا لیا۔
ادھر پہلے ہی سے اس لڑکی کو تیار رکھا گیا تھا۔
وہ لڑکی دراصل روزانہ ہسپتال کے ارد گرد رہتی تھی اور موت کا انتظار کرتی رہتی تھی۔ آج جوں ہی سگنل ملا وہ گیٹ پر آئی اور بچے کو گود میں لے کر پھرتی سے ہسپتال سے باہر نکل گئی۔ اس لڑکی نے اپنی ماں کو بھی اس گھناؤنی حرکت کے پلان کا نہیں بتایا تھا۔ وہ جب روزانہ چیک اپ کے بہانے ہسپتال جاتی تو ماں کہتی کہ بیٹی کیا سب ٹھیک ہے۔
آج اتنے ہفتے ہوئے ۔۔۔ کسی بھی دن ڈلیوری ہو سکتی ہے ، بیٹی جواب دیتی۔
اب پریشانی یہ تھی کہ ڈلیوری کس طرح والدین کے بغیر ممکن ہے ۔ قدرت کا کرشمہ ایسا ہوا اور پھر ایسے موقعوں پر شیطان بھی مدد کرتا ہے۔ لڑکی کا ماموں اچانک ایک حادثے میں جاں بحق ہوا۔ گھر کے سبھی لوگ ادھر چلے گئے، جب پانچ چھ دن بعد واپس آئے تو لڑکی نے بتایا کہ جس دن آپ گئے ، اسی دن شدید پیٹ درد ہوا اور ہم ہسپتال چلے گئے۔ نارمل ڈلیوری ہوئی ۔ شام کو ہی ڈسچارج ہو کر گھر آئے۔
اب میکے اور سسرال والے سب بہت خوش ہوئے کسی نے کہا کہ ناک باپ جیسی ہے اور ہونٹ ماں کی طرح ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ کچھ دنوں بعد لڑکی واپس اپنے سسرال گئی ۔ وہاں بھی خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔
ادھر جب بچہ اپنی ماں سے بچھڑ گیا وہ تب سے لگا تار روتا رہتا۔ وہ بچے کو بچوں کے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ دوائیاں تجویز کی گئیں مگر بچے کے رونے میں کوئی فرق نہ پڑا۔ پیروں فقیروں کے پاس گئی مگر بچے کا رونا بند نہ ہوا۔
اسی دوران سوئپر بھی بہت بیمار ہو گئی۔ شدید تکلیف کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہو گئی۔ دن رات گزارنے مشکل ہو گئے۔ ڈاکٹروں کو دکھایا ،انہوں نے دوائیاں تجویز کیں مگر کوئی افاقہ نہ ہوا، نیند اور بھوک رفو چکر ہو گئی کمزوری بڑھتی گئی۔ آخر کار جب صحت یابی کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو اس کو یقین ہو گیا کہ یہ پریشانی اسی خطرناک حرکت کا نتیجہ ہے۔
تو اب اس نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ راز کھول دے گی۔ پھر چاہئے جو ہو سو ہو ۔ اس نے اپنے اس فیصلے سے لڑکی کو اطلاع دی۔ یہ سن کر لڑکی نے بتایا کہ اس طرح تو چاروں طرف ہنگامہ ہو جائے گا۔ کیس تھانے میں چلا جائے گا۔ پھر ہم سب کا کیا حشر ہو گا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
ہونے دو! سوئیپر نے کہا۔
ادھر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
بچے کی ماں سخت بیمار ہو گئی ۔ اس کا خاوند ایک حادثے میں جاں بحق ہوا۔ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ رہا۔ چاروں طرف سے پریشانیوں نے گھیر لیا۔ اس طرح اب وہ ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی۔ اس کو جان کے لالے پڑ گئے۔ اچانک لڑکی کی ملاقات اس عورت سے ایک دن ہو جاتی ہے، جس کا بچہ چرایا گیا تھا۔ لڑ کی اس کو اپنے گھر لے گئی، اس کو کھانا کھلایا۔ اتنی دیر اس عورت نے بچے کے رونے کی آواز سنی جو کسی طور خاموش نہیں ہو رہا تھا۔ دریافت کرنے پر لڑکی نے بتایا کہ بچہ لگا تار روئے جا رہا ہے، سخت پریشانی ہے۔ عورت نے بچے کو دیکھنے کے لئے کہا۔
قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ جب اس عورت نے بچے کو اپنی گود میں لیا وہ ایک دم چپ ہو گیا۔ ادھر ماں کی ممتا جاگی ، ادھر بچے کو ماں کی ٹھنڈی چھاؤں ملی۔ اب لڑکی نے اس کو موزوں معاوضہ پر گھر میں ہی رہنے کو کہا، تو وہ مان گئی ۔ کیوں کہ وہ بھی اب مجبور تھی۔ اس طرح جس کو جو چاہئے تھا خاموشی کے ساتھ مل گیا۔
���
ہمہامہ سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛8825051001