کہانی
افتخار دانش
سمیر کی آنکھوں میں بچپن سے ہی ایک عجیب سی اداسی بسی ہوئی تھی۔ اُس کے گھر میں ہمیشہ جھگڑے اور غصے کا ماحول رہتا تھا۔ ماں اور باپ دونوں ہی اپنی ضد پر قائم، کوئی بھی اپنی ہار ماننے کو تیار نہ ہوتا۔ گھر کی دیواریں اکثر ان کے جھگڑوں کی گونج سے لرزتی رہتیں۔ سمیر کے لئے یہ سب روزمرہ کی بات بن چکی تھی لیکن ہر جھگڑے کا ایک گہرا نقش اُس کے دل پر ثبت ہوتا گیا۔
سمیر کا بچپن ان بچوں جیسا نہیں تھا جن کے گھروں میں ہنسی خوشی، محبت اور اپنائیت ہوتی ہے۔ وہ اکثر اپنے کمرے کے کونے میں چپ چاپ بیٹھا رہتا۔ کتابیں تو کھولتا تھا، لیکن دل کہیں اور بھٹکتا رہتا۔ اُس کے دل میں ہمیشہ ایک ڈر بیٹھا رہتاکہ کہیں کچھ غلط نہ ہو جائے، کہیں ماں باپ پھر سے لڑ نہ پڑیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے اندر خود اعتمادی کی شدید کمی پیدا ہو گئی۔ وہ خود کو دوسروں کے سامنے کمتر محسوس کرنے لگا۔ اسکول میں بھی وہ سب سے الگ تھلگ رہتا، کسی سے کھل کر بات نہ کرتا۔
سمیر کے دل میں ایک سوال مسلسل گونجتاکہ کیا شادی کا یہی انجام ہوتا ہے؟ کیا دو لوگ ایک دوسرے کو صرف تکلیف دینے کے لیے ساتھ رہتے ہیں؟ وہ اپنے ماں باپ کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا، مگر نتیجہ وہی رہتاکہ جھگڑے، غصہ اور تلخی۔ اس کی اپنی خواہشیں، اس کے خواب، سب آہستہ آہستہ دفن ہوتے چلے گئے۔ اُس نے اپنے کیریئر کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا۔ اسے لگتا، اگر وہ کچھ اپنے لئے کرے گا، تو ماں باپ ناراض ہو جائیں گے۔ وہ خود کو مٹا کر بس اُنہیں خوش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
وقت گزرتا گیا۔ سمیر کے ماں باپ ایک ایک کر کے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اُن کے جانے کے بعد گھر کی دیواریں تو خاموش ہو گئیں، مگر سمیر کے اندر کی گھٹن اور تنہائی اور بھی گہری ہو گئی۔ اب اُس کے پاس نہ تو ماں باپ کو خوش کرنے کا جواز تھا، نہ خود کے لئے جینے کی کوئی وجہ۔ اُس نے اپنی زندگی کے سب سے قیمتی سال دوسروں کو خوش کرنے میں کھو دیئے، اور بدلے میں صرف تنہائی اور پچھتاوا پایا۔
سمیر کو اب احساس ہوا کہ اُس نے اپنے خوابوں کو، اپنے کیریئر کو، اپنی خوشیوں کو خود ہی دفن کر دیا تھا۔ اُس کے وہ دوست، جو کبھی اُس کے ساتھ پڑھتے تھے، آج کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ کوئی اپنی کمپنی کا مالک تھا، کوئی بیرون ملک جا چکا تھا، کوئی ماہر ڈاکٹر بن چکا تھا۔ سمیر ایک عام سی نوکری میں، گھٹن بھری زندگی گزار رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں اب بھی وہی اداسی تھی، لیکن اب اُس میں پچھتاوے کی ایک گہری پرچھائی بھی شامل ہو گئی تھی۔
ایک دن، سمیر اپنا پرانا فوٹو البم دیکھ رہا تھا۔ بچپن کی ایک تصویر میں وہ مسکرا رہا تھاکہ معصوم، بے فکر، خوابوں سے بھرا ہوا۔ وہ تصویر دیکھ کر اُس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اُسے احساس ہوا کہ اُس نے خود کو کھو دیا ہے، اور اب اُسے خود کو پھر سے پانا ہے۔ شاید اب دیر ہو چکی تھی، مگر اُس نے تہیہ کر لیا کہ اب وہ خود کے لئے جئے گا، اپنے خوابوں کے لئے۔ اُس نے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے شروع کئے اور نئی چیزیں سیکھنے لگا، پرانے دوستوں سے ملنے لگا، اور آہستہ آہستہ اپنے اندر کے خوف پر قابو پانے لگا۔
سمیر کی گھٹن بھری زندگی کا رخ اُس وقت بدلا جب اُس نے اپنی تکلیف اور تنہائی کو قبول کیا اور مدد لینے کا حوصلہ پیدا کیا۔ کافی عرصے تک وہ اپنی ذہنی الجھنوں اور خود اعتمادی کی کمی سے لڑتا رہا، مگر جب حالات ناقابل برداشت ہو گئے، تو اُس نے زندگی ختم کرنے کا بھی سوچا۔ ایسی ہی ایک رات، جب وہ مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا، اُس نے محسوس کیا کہ زندگی کو ختم کرنا حل نہیں بلکہ اس سے اُس کے چاہنے والے اور بھی ٹوٹ جائیں گے۔
اُس نے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے اُس نے اپنے دل کی بات ایک دوست سے کی۔ آہستہ آہستہ اُسے سمجھ آیا کہ ذہنی صحت کے مسئلے کو چھپانا نہیں چاہیے۔ بلکہ قبول کر کے علاج کروانا چاہیے۔ اُس نے اپنی غلطیوں اور حالات کو تسلیم کیا، خود کو معاف کیا اور نئی شروعات کی۔
اس کشمکش بھری زندگی نے اُسے ایک بڑی حقیقت سکھا دی کہ زندگی میں سب سے ضروری ہے خود سے محبت کرنا، اپنے خوابوں کو اہمیت دینا۔ والدین کی خوشی ضروری ہے، لیکن اپنی شناخت اور خوشیاں اُس سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ خود کو کھو کر کسی کو پایا نہیں جا سکتا۔ زندگی کی پرواز تبھی مکمل ہوتی ہے، جب ہم اپنے پنکھوں پَر بھروسا کرنا سیکھ لیتے ہیں۔
ــــــــــــــــ
���
سنگھیا چوک ،کشن گنج (بہار)