سرینگر//ریاست کے سرکرہ قلمکار اور سابق بیرو کریٹ خالد بشیر کی تحریز کردہ تازہ کتاب’Exposing the Myth behind the Narrative:KASHMIR‘(کشمیر۔۔۔بیانیہ کے پس پردہ خرافات کی افشائی) کی رونمائی جمعرات کو ایس پی کالج کے آڈیٹوریم میں انجام دی گئی ۔کتاب میں کشمیر کے اس تاریخ کے حوالے سے اس بیانیہ کو مسترد کردیا گیا ہے ،جس کے مطابق کشمیر میں اسلام کی آمد اور مسلمانوں کی شناخت کو ظلم و جبر کے استعمال سے معنون کیا گیا ہے ۔412صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کلہن ،جون راج اور شری ور جیسے مورخین کی جانب سے کشمیر اور کشمیریوں کے حوالے سے قائم کئے گئے بیانیہ کے تضادات کی نشاندہی کی گئی ہے۔کتاب میں 1990کے بعد کشمیر کے بارے میں قلمکاروں کے ایک حلقے کی جانب سے حقائق کو توڑ مروڑ کر کشمیری پنڈتوںکی ہجرت کیلئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے الزامات کو بھی حقائق کے اظہار سے مسترد کردیا گیا ہے ۔اس موقعہ پر مقررین نے واضح کیا کہ کشمیر صدیوں تک ہر دور میں زیر تسلط رہا ہے اور مختلف ادوار میں حکمرانوں نے اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے کشمیری مسلمانوں کے بارے میں ان غلط بیانیوں کو تقویت دی گئی ہے اور فی الوقت یہی غلط بیانیہ بھارتی سیاستدانوں اور میڈیا کے ایک حصہ کی زبان بن گئی ہے ۔کتاب میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کے اندر اسلام کے پھیلائو کو جبر و تشدد کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے لیکن کشمیر سے بدھ مت کے مکمل خاتمہ پر کم و بیش سبھی قدیم مورخین خاموش ہیں کہ یہ کس طرح ہوا ۔کتاب میں کلہن کی راج ترنگی میں کئی تضادات کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں ایک تھاد یہ بھی ہے کہ موصوف نے کشمیر کی آبادی کو کئی کروڑ سے تعبیر کیا تھا جبکہ ہزاروں برس قبل یہ ناممکن تھا ۔تقریب کی صدارت تاریخ کے معروف استاد پروفیسر عبدالقیوم رفیقی نے کی جبکہ سرکدرہ صحافی محمد سعید ملک مہمان خصوصی تھے ۔اس موقعہ پر صحافی محمد سعید ملک نے کہا کہ مذکورہ کتاب میں تین زمروں پر بات کی گئی ہے جن میں تاریخ، کشمیری پنڈتوں اور انخلا ء اور میڈیا کے منفی رول کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب تاریخی پس منظر میں کشمیری پندتوں کے انخلاء کے غلط قصوں پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب میں کشمیری پنڈتوں کے انخلا ء کے ساتھ جوڑے گئے قصوں کو بھی غلط ثابت کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزکورہ کتاب میں میڈیا کی جانب سے منفی رپوٹنگ کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جن میں کئی کشمیری صحافیوں کا نام بھی لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ کتاب میں تاریخ کے پس منظر میں موجودہ صورتحال کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کتاب کی خصوصیت تحقیق اور حقائق کو پیش کرنے کی جرات ہے۔اس موقعہ پرخالد بشیر احمدنے کتاب کے کچھ اوراق پڑھے جبکہ شہناز بشیر ،طارق بٹ اور نصیر احمد گنائی نے کتاب پر تبصرہ کیا۔سرکردہ صحافی یوسف تقریب کے آخر پر شکریہ کی تحریک پیش کی ۔ تقریب کااہتمام آزادی تحریرکے حامل گروپ ’قلم بردار ‘ ، جس میں کئی سرکردہ قلم کار صحافی اور مفکرین شامل ہیں، نے کیا تھا ۔ معلوم رہے کہ خالد بشیر احمد نے بطور صحافی اپنے کئیریر کا آغاز کیا اور بعد میں محکمہ اطلاعات میں تعینات ہوئے اور مذکورہ محکمے میں بطور ڈائریکٹر بھی تعینات رہے۔ وہ محکمہ لائبریز و، آرکائوس کے ڈائریکٹر اور کلچر اکیڈیمی میں سیکرٹری کے عہدوںپر بھی تعینات رہے۔ انکی نصف درجن کے قریب ادبی اور تاریخی کتابیں نیز درجنوں مضامین منظر عام پر آئے ہیں۔