ڈاکٹر شاہ نواز
حامدی کاشمیری نے خالد بشیر احمد کی شاعری کے بارے میں کہا تھا کہ خالد بشیر شعر گوئی سے اپنے داخلی وجودیت کا اظہار کرتے ہیں خالد کی شاعری میں لفظوں کے دشت و سراب میں بھٹکنے کے بجاے چھوٹے چھوٹے حسی تجربوں کی بار آفرینی کا جو تجسس و اشتیاق ملتا ہے وہ ان کے روشن مستقبل کا پتہ دیتا ہے خالد کی شاعری میں الفاظ اور موضوعات کی ہم نشینی کمال پریہ راے حامدی کی ہے، لیکن اس کے پس پردہ خالد کے کلام میں داخلیت کی معرکہ آرائی بھی ہے جہاں اقرار اور انحراف دونوں ہیں جو کہ خالد کی شاعری کا اصلی جوہر ہے جس کے بارے میں حامدی صاحب کی راے خموش ہے ۔حامدی کی اس رائے کو میں اگرچہ خالد بشیر احمد کی شاعری پر مقدم مانتا ہوں۔ مگر قدرے اختلاف کے ساتھ،خالد رنگ جمال کا معترف ہے اور بیان کی نفاست اس کی شاعری کا وصف خاص ہے۔شاعری میں جمالیات کی بیان آفرینی اورحکمت کی رہبری اس کو اوّل درجے کی چیز بنا دیتی ہے، محدثِ عصرحضرت مالک بن انس بغداد کے شعرا کا کلاس لیا کرتےتھے۔ ان کی شعری نشستوں میں بزلہ سنجی کے علاوہ اعلی فکری خیال کے حقیقی رنگ پر گفتگو ہوا کرتی تھی۔ شعری کرافٹ کا سبجیکٹ بھی نشستوں میں زیرِ گفتگو رہتا۔ کہا جاتا کہ حضرت انس کے سامنے فصحاۓ مدینہ و بغداد گفتگو کرنے سے کتراتے تھے ۔ اس زمانے میں حکمت اور دانائی کے موضوعات عربی شاعری کا محور اور مرکز بن چکے تھے۔ اعلی خیال سے بھرپور شاعری کے استعمال کو قوموں کی رہنمائی تصور کیا جاتا تھا مرقع چغتائی نے بھی شاعری کو قوموں کی الہامی رہبری کہا ہے۔ کسی بھی شاعر کی فکر سے ماورا شاعری اس بے لگام گھوڑے کی طرح ہے جو راستے سے بھٹکا ہوا ہو ۔
میروغالب اور بیدل و سعدی کے علاوہ حافظ و مولانا روم کے کلام کی معنوی تہہ داری نے شعری کائنات میں حکمت کی مننزلیں طے کی ہیں۔ بڑے فنکاروں کی شاعری کے اسی فکرِ کمال نے یہ احساس پیدا کیا ہے کہ شاعری میں نکتہ آفرینی کا کامل اظہار اعلی شعری کائنات کا وصف اورہُنر ہے۔ حضرت عمر بن خطاب نے فصحاۓ عرب کی ایک نشست میں شعر کے معنی حکمت و دانائی کے بتائے تھے۔ چھوٹی بحر میں حکمت سے مکمل بات کا اظہار معجز بیانی کے قاعدے کا پہلا قدم ہے ۔ مذکورہ بالا فنکاروں کو چھوٹی بحر میں حکمت آموز بات کہنے کا ہُنر میسّر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امتیازی ناقدین ان کی شاعری کی توجیہات لکھتے اور پڑھتے وقت پھڑک اٹھتے ہیں ۔ الفاظ جب اظہار کے لیے لفظ و معنی کا دروازہ کھول دیں توفنکار کا احساسِ جمال بیان ہو جاتا ہے۔ یہی تواعلیٰ اور معیاری شاعری کے پرکھنے کی ایک منصفانہ دلیل ہے۔
زبان کے پُرمعنی اظہار اور استعمال کے لیےتو پیغمبروں نے بھی دعائیں مانگی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہِ سلام نے شرح صدر کے لیے دعامانگی تھی۔ دعا کا نکتہ کمال یہ ہے کہ ایک پیغمبر نے بھی اپنے اظہار کی طاقت کے لیے دعا میں خدا سے زبان مانگی۔ ایک کامیاب اور مکمل شاعر کی حتمی دلیل بھی یہی ہے کہ وہ ورود احساس کولفظ اور معنی کی دونوں صورتوں میں کاغذ پر اتارنے کی معنوی صلاحیت اور فکری بصیرت رکھتا ہو۔دوسری صورت میں شاعریا تو قافئےکے جبر کا شکار ہوجائے گا یا تُک بندی کے گورکھ دندھے کا۔ ایک فرانسیسی تھنکر آسکر وایلڈ نے کہا تھا محض الفاظ کی نشست برخاست بھی کسی فن پارے کی عظمت کو تسلیم نہیں کروا سکتی جب تک نہ تحت الشعور میں بنے خیالات کے مبہم اشکال لفظ و معنی کے سہارے مفہوم کی واضح صورت میں رقم نہ ہوجائیں۔
خالد بشیر احمد کی شاعری میں خوبیوں اور محاسن کے معنی ومناظر کے علاوہ احتیاط اورجمال کی منزلیں ہیں۔ ان کے شعروں میں وصلِ محبوب کی کسک اور انتظار کی کیفیات کے علاوہ انحرافِ وصل کے موضوعات بھی یکسر ملتے ہیں اور کثرت سے پائے جاتے ہیں، مسائلِ حیات کے پے در پے تصورات میں ایک لا تکملیت سی ملتی ہے جو جوہر آفرینی کی خوبیوں سے لبریز ہے ۔ یہی حقیقی شاعری کا در مکنون ہے۔ فکر کی عمدہ مثالیں خالد کے کلام میں ایسے ملتی ہیں جیسے سمندر کی تہہ میں ہیرے جواہرات کے ذخیرے ہوں۔ایسی معنی آفرینی کی شاعری پر ایک ناقد کے لیے بست وکشاد کے ساتھ گزرنا ایسا ہی ہے جیسےکوئی ساربان کاغذی لباس پہن کر دشتِ شرر سے گزرے۔ ہر شعراحتیاط فکر کے جذبے سے بھرپور کلام کی معنوی تہہ داری کےساتھ اعلی فکرکی تجربہ گاہ معلوم ہوتا ہے۔ ان کی ہرغزل میں شعری استعارے اکثرکرداروں سے محوِ گفتگو نظرآتے ہیں۔ ہراستعارہ انوکھی اور خوبصورت وجِہ تسمیہ کا منظر اور پس منظر لیے ہوئے ہےجیسے رات ،منظر ،تنہائی ،ہوائےدشت ،دریا،دیا ۔دہلیز ،شام ،سیاہ رات ،فلک کا جام کش ستارہ ،یہ خالد کی شاعری کے کچھ ایسے شعری استعارے ہیں جو فیض اور منیر نیازی کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتے۔ قدرت کی آیات اور مناظر کی عکس بندی کواگر کوئی شاعر کامیابی سےاستعاورں اور تلمیحات کی گرہوں سے باندھ دے تو کسی اوسط درجے کے ناقد کے لیے اسے تشریح کے مرحلے سے گزارنا نہ صرف ایک مشکل مرحلہ ہے بلکہ ایک ناممکن امر بھی ہے۔
جو کچھ ہوا ہے وہ ترے مرےقیاس میں تھا
ہواتھی تیز اور انگارہ خشک گھاس میں تھا
شعرکی معنی آفرینی اورمضمون کی ادائیگی کو شاعر نے جس مہارت کے ساتھ ترسیلِ معنی کا روپ دیا ہے شاعری میں افزونی جمال سے ایسی باز گشت پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ یہی اصل میں خوبیٔ شعرہے۔ اس شعر میں خالد نے زبان اور لہجے کےاستعمال سےانسانی نفسیات میں احتیاط کی سطحیں دکھائی ہیں۔ ہوا کے تیز منظر میں انگارے اور خشک گھاس کی دشمنی کے نتائج کا سارا منظر صاحبِ منظر کو معلوم تھا۔ شعر کےاصطلاحی معنی یہ بھی ہیں کہ یہ محض کسی حادثے کا ڈرامائی منظر نہیں ہے بلکہ کیفیت اسمِ با مسمہ گزری ہے۔ لیکن شاعر نے یہاں مبہم کیفیات میں ایسے استعارے پیش کیے ہیں کہ پڑھتے وقت لطف اندوز ہوے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ عکس بندی کے احساسِ فکر نے مذکورہ شعر میں بھر پورمعنی پیداکردیے ہیں۔
دُھوپ ہے تو پھر یہیں سایا بھی ہونا چاہئے
دشت کے پہلو میں ایک دریا بھی ہونا چاہئے
اس شعر کا کمال یہ ہے کہ ایسے شعر کو حکیمانہ اشعار کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے جہاں شاعر نے فطرت کے ریاضیاتی جوہر اور اصول کو شعر کی احساسی کیفیت سے اخذ کیا ہے۔ قدرت کے ہاں دن کا متبادل رات ہے اور روشنی کا اندھیرا، بُرے کا اچھا اور زوال کا کمال۔ خالد کے اس شعر میں دُھوپ کے بعد ساۓ٩ کی وجہ کا جواز ہے اور دشت کے پہلو میں جو دریا کا امر ہے وہی محاسن شعر ہے۔ ایسی شاعری کو فطری احساس کی شاعری کہا جاتا ہے جہاں فکری اجتہاد سے شاعری میں مضمون باندھے اور پیدا کیا جاتے ہیں۔
دہلیز کا چراغ بُجھانے کے کھیل میں
تیرا بھی ہاتھ ہے کہ یہ تنہا ہوا کا ہے؟
چراغ کی سمت اور جگہ کا انتخاب نہایت حساس ہے۔ یہیں سے شعر کا نازک خیال پیدا ہوتا ہے۔دوسری طرف دہلیز کا منظر چراغ ہے جو ہوا کی زد پر ہے۔ دوسرے مصرعے میں شاعر نے چراغ پر ہوےعمل کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے شعر کا سارا بیانیہ استہفامیے پرموقوف ہے تاکہ شعر میں تجسّس اور معنی کی کیفیت پیدا کی جاے۔ یہاں ہوا صرف مورد الزام ہی ہے۔ چراغ کو گل کرنے کا کام کسی نامعلوم نے کیا ہے جوایک خاص وجہ سے اس عمل کا جواز رکھتا ہے۔ لفظ تیرا کے استعمال نے جو جواز پیدا کیا ہے شعر کا اصل مرکز معنی ہے۔
تیری طرف جو یاد کی کھڑکی کھلی رہی
اس میں قصور مجھ سے زیادہ ہوا کا ہے
خالد بشیر احمد کے کلام میں منیر نیازی کی طرح ہوا کے استعیارے نے جواز اورعدم جواز کی کیفیات پیدا کی ہیں۔وہ ہمارے اردو کے شعری منظر نامے میں دوسرے کسی شاعر کو نصیب نہیں ہیں ،منیراورخالد کے ہاں ہوا کے استعارے کے استعمال میں معنی اور جواز کی منزلیں باکل الگ الگ ہیں۔ منیر کے ہاں ہوا کااستعارہ رات کی تاریکی میں ستیزہ کاری کی علامت ہے اوراگر زندگی کی ترکیب کے ساتھ استعمال ہے تو برق رفتاری کے جواز کی دلیل ہے لیکن خالد کے ہاں ہوا کا استعارہ اپنے معنی اورکیفیت میں زندگی کے مختلف مراحل میں سماجی اور انسانی رشتوں کی دیکھ ریکھ کا نگران اور نگہبان ہے۔ یہاں بھی ہوا دو رشتوں کی یاد کے منظرمیں پس منظر کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ ہوا نے اس گمشدہ یاد کو محبوب کے ساتھ بھولے ہوے دیرنہ رشتے کوپھر سے تازہ کردیا۔ مضمون کے حسنِ بیان کو دیکھئے کہ یاد کی کھڑکی کسی مکان کی کوئی نسب شدہ کھڑکی نہیں بلکہ محض ایک علامتی دریچہ ہے۔ باالفعل اگر اسے کوئی وقوعہ مان کر بھی چلیں تو مضمون کی وجہ بیان غضب کی کشش کا سامان رکھے ہوئے ہے جو رات کے کسی پہر میں ہوا کے جھٹکے سے کھل گئی ہوگی۔ دیکھنے پرمعلوم ہوا کی محبوب کا مکان بھی اسی سمت پر ہے کیا لطیف مضمون اور وجہ جواز ہے جو شعر میں ایک معمولی دریچے نے پیدا کیا ہے،ایسی شاعری کو نقل قول کہتے ہیں جہاں لفظ و معنی ایسی کیفیت پیدا کریں کہ بیان کردہ سب کچھ ایک حقیقی منظرلگے۔خالد نے خیالات کی فوٹوگرافی کو احساسِ جمال کے پیراۓ میں بیان کیا ہے۔ یہی غزل ایک دفعہ جموں کی کسی نجی محفل میں جب ایک فنکار نے گائی تو پوری محفل لوٹ پوٹ ہو گئی۔
حامدی صاحب نے ایک بات بڑی عجیب کہی ہے جس سے اتفاق نہیں کیا جا سکتاکہ خالد کی شاعری میں ناصر کاظمی کا رنگ دکھائی دیتا ہے،میرے نزدیک یہ بات خالد بشیراحمد کی شاعری پر چسپاں نہیں ہوتی۔ناصر کی ساری شاعری فاقہ کشی کی علامتوں سے بھرپور ہے اوراحساس فکر کی ہارکا ایک عجیب منظر بیان کرتی ہے۔ خالد کے ہاں ناصر کاظمی کےبجاے منیر نیازی کے استعارے ہر جگہ کلام میں ملتے ہیں شاعری کے موضوعات بھی منیر جیسے ہی ہیں۔ خالد کے ہاں درد اور کسک کی کیفیات بھی منیر نیازی سے بہت ملتی جلتی ہیں یہ تقابل پھر کبھی۔