8دسمبر کوجموں میں ڈوگرہ صدرسبھا کی جانب سے منعقدہ پیغام امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جموںوکشمیر یونین ٹریٹری کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ دنیا میں جس طرح اتھل پتھل چل رہی ہے ،اُس نے امن کے آفاقی پیغام کو مزید مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت کو دو چند کردیا ہے ۔انہوںنے تاہم افسوس کا اظہار کیا کہ ایک ایسے وقت جب دنیا میں ہر کوئی امن کے فروغ کیلئے کوشاں ہے ،ہم امن کے لئے نئے خطرات کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور پڑوسی ملک کی طرف سے برآمد کی جانے والی دہشت گردی ان میں سے ایک ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر نے مزید کہا کہ ہم دہشت گردی کے خطرے سے مضبوطی سے نمٹ رہے ہیں اور اپنی سرزمین سے اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے پُراعتماد ہیں۔منوج سنہا کا مزید کہناتھا کہ سماجی ترقی اور لوگوں کی خواہشات صرف امن کی حالت میں ہی پوری ہو سکتی ہیںاور معاشرے کے ہر طبقے کو تنازعات کی فضولت اور امن، ہم آہنگی اور بھائی چارے کی افادیت کو سمجھنا چاہئے۔لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ چونکہ ہندوستان نے اگلے ایک سال کے لئے جی 20 کی صدارت سنبھال لی ہے، ہمارے ثقافتی ورثے میں شامل امن، دوستی اور تعاون کا پیغام دنیا کے لئے رہنما اصول بننا چاہئے۔پیغام امن کانفرنس سے لیفٹیننٹ گورنر کی تقریر حرف بہ حرف حقیقت پر مبنی تھی۔اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ دنیا میں اس وقت اب سب سے زیاد ہ کسی چیز کی ضرورت ہے ،وہ امن ہی ہے کیونکہ دنیا سمجھ چکی ہے کہ امن کے بغیر انسانی ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے ۔امن اور خوشحالی ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہے ۔ظاہر ہے جب فضاء پر امن ہو اور لوگوں کو سکون میسر ہو تو انسانی و دیگر وسائل کو بنی نوح انسان کی فلاح و بہبود کیلئے صرف کیاجاسکتا ہے تاہم جس طرح نام نہاد اور اَن دیکھے خطروں کی آڑ میں پوری دنیا میں سامان حرب و ضرب کی دوڑ لگی ہوئی ہے ،وہ قطعی انسانی نسل کے مفاد میں نہیں ہے ۔آج دنیا کی حکومتیں انسان کو تباہی سے دوچار کرنے کیلئے سامان ِ حرب و ضرب خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن بھوک و افلاس کے ستائے انسان کا معیار حیات بہتر بنانے کو ترجیح نہیں مل پارہی ہے کیونکہ ہم نے اپنی ترجیحات کو ہی خلط ملط کردیا ہے۔بلا شبہ امن کو خطرات لاحق ہیں اور وہ خطرا ت جتنے خارجی ہیں،اُتنے ہی داخلی بھی ہیں۔اس سے کسی کو انکار نہیںکہ ہمیں خارجی محاذ پر ایک خطرات کا سامنا ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ داخلی سطح پر حقیر مفادات کیلئے ہم نے سماج میں اتنی پولرائزیشن کر دی ہے کہ اب ہمارے سماج کا ایک طبقہ دوسرے طبقہ کے خلاف برسر پیکار ہے اور ایک دوسرے کا وجود کسی کو برداشت نہیں ہوپارہا ہے۔جہاں تک خارجی خطرات کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یوٹی اور مرکزی حکومت میں ٹھوس کارروائی کررہی ہے جس کا عوامی سطح پر خیر مقدم بھی کیاجارہا ہے کیونکہ لوگ بھی غیر یقینی صورتحال سے عاجز آکر اب ترقی و خوشحالی یقینی بنانے کیلئے امن و استحکام چاہتے ہیں۔عوام کے فعال تعاون سے ایسے لگ رہا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب جموںوکشمیر سمیت پورے ملک میں امن کی فضائیں پوری آب و تاب کے ساتھ قائم ہونگیں اور لوگ امن کی نعمت سے مستفید ہونگے تاہم ہمیں داخلی سطح پر اُن خطرات سے نمٹنا ہوگا جو ملک میں بھائی چارہ کی فضاء کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔کشمیر سے لیکر کنیاکماری تک ملک میں جس طرح ایک خوفناک فضا قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،وہ قطعی ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔مختلف طبقات کے مابین مکمل ہم آہنگی اور بھائی چارہ ہی اس ملک کی سب سے بڑی طاقت ہے اور یہی طاقت اب تک بیرونی ریشہ دوانیوں کے باوجود اس ملک کوعظمت کی بلندیوں تک لے پائی ہے تاہم اب جس طرح کچھ نادان لوگ فقط اپنے حقیر مفادات کیلئے اس انمو ل نعمت کو غارت کرنے پر تلے ہوئے ہیں،وہ قطعی کوئی خوش کن رجحان نہیں ہے اور اس کا سماج کے تمام طبقات کو بلا لحاظ مذہب و ملت تدارک کرناہی پڑے گاورنہ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم بیرونی خطرات کا ہی راگ الاپتے رہیں گے اور اندرونی خطرہ کچھ اس طرح سر اٹھائے گا کہ پھر اس کی سرکوبی ناممکن بن جائے گی۔امید ہے کہ ارباب بست وکشاد بیرونی خطرات سے نمٹنے کے دوران ہم آہنگی و بھائی چارہ کو درپیش اندرونی خطرہ کو بھی صرف نظر نہیںکرینگے اور اس کا بھی وقت رہتے تدارک کریں گے تاکہ ہمارا ملک کو ترقی و خوشحالی کے سفر میں عالمی رہبری کے دیرینہ خواب کی حقیقی تعبیر مل سکے۔