حیات بعد از صیام

Kashmir Uzma News Desk
8 Min Read
    اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماہ رمضان ایک تربیتی مہینہ ہے جس کا کام اہل ایمان کے ایمان کو مضبوط کرنا ، ان کی تربیت و تزکیہ کرنا اور قول فعل میں تضاد کو ختم کرنا ہے ۔ گویا یہ مہینہ ایک فرد کو سال کے دوسرے مہینوں کے لئے ایک صالح اور باکردار شخصیت کے طور پر تیا کرتا ہے لیکن اگر کسی فرد میں روزہ رکھنے کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہ آئے تو اس سے بڑا کوئی دھوکہ باز نہیں ہوسکتا جو حقیقتاً اپنے آپ کو دھوکہ میں رکھتا ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایک شخص تقویٰ اور تزکیہ سے فیض یاب ہوکرعید کے بعد اس مرجھائے ہوئے پھول کی طرح بن جاتا ہے جس کی پنکھڑیاں کی ریشے سوکھ چکے ہوتے ہیں ۔ نیز ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پرہیز گاری اور ایمان کا جوش و ولولہ عید کے بعد آندھی کی طرح اٹھ کر اور غبار کی طرح بیٹھ جاتا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو صحیح معنوں میں سمجھا ہی نہیں جاتا اور نہ ہی روزہ کی اصل روح کو اپنے وجود میں اُتارا جاتا ہے ۔ ۔ عید کے بعد اگر ہمارے فکر و عمل میں نمایا ں تبدیلیاں نہ آئیں اور ہم ویسے ہی ویسے رہیں جیسے رمضان سے پہلے تھے تو ہم سے بڑا دھوکہ باز اور خود فریب کوئی نہیں ہوسکتا ۔ ماہ صیام جن محاسن اور صفات سے ہم کو متصف کر کے چلا گیا اور جن تربیتی مراحـل سے ہم کو گزارا ،اس سے اچھی تربیت کسی اور طریقے سے نہیں ہوسکتی ۔ 
    قبل ازعید اگرہم نے اللہ کی پکار پر لبیک کہہ کر بہ دل و جان ماہ رمضان میں اس کے فیوض و برکات سے خوب استفادہ کیا ، قرآن مجید کے احکامات پر عمل پیرا ہوئے ، ضبط نفس اور تقویٰ کو اپنا شعار بنایا ، اپنے نفوس کا تزکیہ کیا ، آخرت پسندی کو زادِ راہ بنایا ، نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کرنا سیکھا ، صدقات و خیرات کو مستحقین تک پہنچانے کا اہتمام کیا ، اپنے نفوس کو شرک کی تمام آلودگیوںسے پاک کیا ، قول و فعل کے تضاد سے چھٹکارا حاصل کیا ، جھوٹ اور اس پر عمل کرنا ترک کردیا ، تکبر وغرور اور ضد و عناد سے کنارہ کشی اختیار کر لی ، گالم گلوچ اور ایک دوسرے کا تمسخر ااُڑانے سے باز رہنے کی قسم کھا لی ، ماں ، باپ ، رشتہ داروں اور ہمسائیوں سے حسن سلوک کرنا اپنا اوطیرا بنایا ، ففروا الیٰ اللہ( لپکو اپنے اللہ  کی طر ف)کی ندائے رُبانی پر لبیک کہا ، مساجد کو اپنی حاضری سے آباد کرنا روز وشب کا معمول بنایا ، قرآن پاک کو دستور حیات بنانے کا عزم بنایا ۔۔۔ یہ وہ اسباق اور اعمال صالحہ ہیں جن میں ماہ رمضان ہماری زندگیوں کو ڈھال کر رخصت ہوگیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے عزم وارادے کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ بھی کیا ۔ نیز ہم نے قرآن پاک اور ہادی اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام معاملات میں اپنا رہبر و رہنما بنانے کا عہد باندھا، مظلوموں ، یتیموں ، غریبوں اور حاجت مندوں کی فلاح و بہبود کے لئے جدوجہد کرنے کا تہیہ کیا ، اپنے گھروں کو مثالی اسلامی گھرانے بنانے کا عزم بالجزم کیا ، باطل افکار و نظریات سے منہ موڑنے کا اٹل فیصلہ لیا، اسلام دشمن عناصر کو تعاون نہ دینے کا مصمم ارادہ کیا ، فحاشی اور بے حیائی سے اپنے دامن کو پاک و صاف رکھنے کا غیر متزلزل اقدام شروع کیا ، موبائل اور انٹرنیٹ کے اخلاق باختہ استعمال سے گریز کا ہدف اختیار کیا، نشہ آرر ادویات اور سگریٹ نوشی کو چھوڑنے کا مضبوط وعدہ کیا ،حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پورا کرنے کاحلف اٹھایا ،فروعی مسائل اور انتشار انگیزاختلافات کو بڑھاوا دینے والوں سے دوری بنانے کا مصم ارادہ کیا ، تو سنئے ان سبھی معاہدات، بیعتوں اور قراردادوںپر پورا اُترنے کا وقت شوال کے طلوع اور آمد عید الفطر کے پہلے لمحے سے شروع ہوتا ہے جو پورے گیارہ ماہ تک جاری رہتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جب اللہ سے پختہ عہد کرو تو اُس کو پورا کرو اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو اُن کو مت توڑو کہ تم اللہ کو اپنا ضامن مقرر کر چکے ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس کو جانتا ہے ۔  (النحل:۹۱)
 مختصراً مطلب یہ ہے کہ ماہ رمضان میں ہم نے اپنے رب سے روگردانی اور نافرمانی کی روش ترک کرنے اور صرف اسی کو اپناآقا، حاکم،مالک اور رب تسلیم کر کے اسی کی خالص بندگی اختیار کرنے کاجو عہد ومیثاق باندھا ،عید کے بعد اس کو قطعی طور توڑنا نہیں بلکہ ہر ہر قدم اس عہد و پیمان کو پورا کرنا ہے ۔ اس لئے اگر ہم نے دیدہ ودانستہ پھر سے وہی پرانی روش اپنائی ،وہی طرز عمل اختیار کیا جس کو ہماری زندگی سے کھرچنے کے لئے صیام کی برکات کا نزول ہو ا تھا، تو اس سے بڑھ کر کوئی اور حماقت نہیں ہوسکتی اور نہ اس سے بڑی کوئی خود فریبی ہوسکتی ہے۔ اس تعلق سے قرآن مجید نے ایک عمدہ مثال دی ہے :اور اس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے محنت سے تو سوت کاتا پھر اُس کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا   (النحل: ۹۲) 
اس آیت مقدسہ میں اس بات کی تنبیہ کی گئی ہے کہ اللہ کے ساتھ عہد باندھ کر اُسے توڑ ڈالنا اس بے وقوف عورت کی حماقت جیسی بات ہے جو دن بھر سوت کاتتی رہتی پھر شام کے وقت اس کاتے ہوئے سوت کو پارہ پارہ کردیتی تھی یعنی اللہ کے ساتھ باندھے گئے اپنے عہد کو اس کچے ہوئے دھاگے کی طرح نہ سمجھنا جس کو آسانی سے کاٹا جاسکے ، بلکہ خدا وند قدوس کے ساتھ کئے گئے عہد پیمان کی حفاظت کرنا اوراس پر پورا اُترنااہل ایمان کی اولین ذمہ داری ہے ۔لہٰذا مابعد صیام کی زندگی میں ہر قدم ا ور ہر سانس میں بڑے ہی احتیاط اور سنجیدگی بر ت لیجئے تاکہ اللہ ہمیں اُن دنیوی اور اُخروی انعامات و انوارات سے محروم نہ کرے جو روزوں کے طفیل ہمیں نصیب ہوئے۔
mujtabafar@gmail.com
�
 
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *