سر سید احمد خان ایک نابغۂ روزگار شخصیت کے مالک تھے ، جن کے متعلق ہمیں جتنا علم ہوتا جاتا ہے، حیرت و استعجاب میں مزید اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے کہ کیسے ایک تن تنہا شخصیت نے محدود وقت میں ایسے لامحدود کارنامے انجام دیے ، جنھیں دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں۔مولوی عبد الحق نے بجا فرمایا ہے:’’لوگ کہتے ہیں کہ سر سید نے کالج بنایا، کالج نہیں، اس نے قوم بنائی، قومیت کا تصور پید اکیا، مُردہ دلوں میں روح پھونکی اور زندگی کے ہر شعبے کو بنایا اور سنوارا، تعلیم، علم و ادب، زبان، سیاست، صحافت، مذہب سب کو جدید نظر سے دیکھا، وقت کے تقاضے کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، اوہامِ باطلہ اور خیالاتِ فاسدہ کا قلع قمع کیا اور ہم قوموں کی عقلیت اور تحقیق کی طرف رہنمائی کی، جسے وہ بے تقلید کی فرماں برداری میں بھول چکے تھے۔‘‘(سر سید شناسی:۴۷)اسی لیے ان کی زندگی میں ہمارے لیے عبرت بھی ہے اور نصیحت بھی۔ بقول حالیؔ:’’اس بزرگ کی لائف ہم کو نصیحت کرتی ہے کہ زمانے کی مخالفت کو خدا کی مخالفت سمجھ کر اس کے ساتھ موافقت پیدا کرو تاکہ دنیا میں آرام سے رہو اور عزّت سے زندگی بسر کرو۔‘‘(حیاتِ جاوید: ۲۱)
یہ سر سید کی خوش بختی اور ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ہر سال’ سر سید ڈے‘ کے موقع پر ان کے مختلف تصورات و خدمات کے حوالے سے اخبارات و رسائل میں خصوصی ضمیمے اور شمارے شائع کیے جاتے ہیں، جن میں ان کے مشن کے مختلف ابواب وا ہوتے چلے جاتے ہیں، اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی ’المصباح میگزین، ممبئی‘ کا یہ خصوصی شمارہ ہے، جس میں سر سید احمد خان اور مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے حوالے سے مختلف نگارشات شامل کی گئی ہیں۔ راقم کے ان دونوں عنوانات کے تحت متعدد مضامین شائع ہو چکے ہیں، اس لیے اس وقت ہم ایک خاص انداز یعنی تاریخ و سال کے اعتبار سے اس عظیم شخصیت کے حیات و کارنامے بیان کی کوشش کریں گے، جو بادی النظر میں معمولی کام نظر آتالیکن اہلِ علم سمجھ سکتے ہیں کہ اس کام میں کیا کچھ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، امید کہ ان کی نظروں میں اس مختصر کاوش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔۱۸۱۷ء میں ۱۷؍ اکتوبر کوسر سید احمد خاں ،دہلی میں، اپنے نانا خواجہ فرید کے یہاں پیدا ہوئے،سر سید احمد خاں کے والد ’میر تقی‘ آزاد طبع اور راست باز انسان تھے۔ والدہ عزیز النساء بیگم نے اپنی اولاد کی تربیت اپنے خاندانی مزاج کے مطابق کی اور ان میں پنہاں صلاحیتوں کو ابھارنے کی پوری کوشش کی، وہ ایک نیک اور پڑھی لکھی خاتون تھیں،’گلستانِ سعدی‘موصوف نے اپنی والدہ ہی سے پڑھی۔ ان کی وفات یکم ربیع الثانی ۱۸۵۷ء بمطابق۱۲۷۴ھ کو میرٹھ میں ہوئی۔۱۸۳۸ء میں سر سید احمد خاں کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا، جس کے بعد گھر کی معاشی حالت بگڑنے لگی، اسی کے پیشِ نظر سر سید احمد خاں نے کچہری میں باریابی حاصل کی، جہاں چند ماہ بعد انھیں سر رشتہ دار مقرر کردیا گیا اور کچھ عرصے بعد ۱۸۳۹ء میں مسٹر ہملٹن نے انھیں آگرہ بلاکر کمشنری کے دفتر میں نائب منشی مقرر کردیا۔ اسی زمانے میں سر سید احمد خاں نے ’جامِ جم‘ کے نام سے ’امیر تیمور‘سے لے کر ’بہادر شاہ ظفر‘ تک ۴۳ ؍بادشاہوں کے احوال قلم بند کیے، جس کی اشاعت ۱۸۴۰ء میں ہوئی۔نیز اسی زمانے میں منصفی کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور منصفی سے متعلق دیوانی قوانین کا خلاصہ تیار کرکے شایع بھی کیا۔ ۱۸۴۱ء میں۲۴؍ دسمبر کو مین پوری میں بطور منصف ان کا تقرر ہوا اور ۱۰؍ جنوری ۱۸۴۲ء کو فتح پور سیکری تبادلہ ہوگیا،جہاں وہ چار سال رہے۔ اسی دوران انھوں نے’ ’جلاء القلوب بذکر المحبوبؐ‘‘کے عنوان سے ’مولود شریف‘ لکھا، جو ۱۸۴۳ء میں شائع ہوا۔ اسی زمانے میں ’تحفۂ حسن‘ اور ایک رسالہ ’تسہیل فی جر الثقیل‘ بھی تصنیف کیا۔
۱۸۴۲ء میں وہ دہلی آئے تو بہادر شاہ ظفر نے انھیں ’جواد الدولہ عارف جنگ‘کے خطاب سے نوازا۔ بڑے بھائی کی وفات کے بعد والدہ کی خدمت کی خاطر انھوں نے خود اپنا تبادلہ دہلی کروا لیا اور یہاں ۱۸۴۶ء سے ۱۸۵۴ء تک مقیم رہے، صرف ۱۸۵۰ء اور ۱۸۵۳ء میں دو بار قائم مقام صدر امین ہوکر’رُہتک‘ گئے لیکن مختصر عرصہ رہ کر دہلی واپس چلے آئے، اسی دوران انھوں نے اپنی ادھوری تعلیم کا سفر پورا کیا۔ سر سید احمد خاں نے یہاں’مولوی نوازش علی‘سے فقہ میں ’قدوری‘ اور ’شرح وقایہ‘ اور اصولِ فقہ میں ’نور الانوار‘ پڑھی۔ ’مولوی فیض الحسن‘ سے ’مقاماتِ حریری‘، ’سبعہ معلقات‘ اور مولانا مخصوص اللہ سے ’مشکاۃ المصابیح‘، ’جامع ترمذی‘ اور ’صحیح مسلم‘ وغیرہ پڑھیں، نیز انھوں نے اسی دور میں اپنی مشہور کتاب ’آثار الصنادید‘ تالیف کی تھی، جس میں دہلی کی تقریباً سوا سو عمارتوں کے حالات وتاریخ کو نقشہ جات کے ساتھ مرتب کیا تھا، جس کا پہلا ایڈیشن ۱۸۵۷ء میں شایع ہوا۔قیامِ دہلی کے دوران سر سید نے کئی رسالے تصنیف وترجمہ کیے، جن میں ’فوائد الافکار فی اعمال الفرجار‘، ’یمنقہ دربیانِ مسئلہ تصورِ شیخ‘، ’سلسلۃ الملوک‘، ’کیمیائے سعادت‘، ’قولِ متین در ابطالِ حرکتِ زمین‘، ’کلمۃ الحق‘ اور ’راہِ سنت در ردِ بدعت‘شامل ہیں۔۱۲؍ جنوری کو سر سید احمد خاں مستقل صدر امین بنائے گئے اور ان کا تبادلہ’بجنور‘ ہوگیا، قیامِ بجنور کے دوران انھوں نے ’تاریخِ بجنور‘ اور ’آئینِ اکبری‘ نامی کتابیں لکھیں۔ سر سید احمد کو بجنور میں فقط سوا دو سال کا عرصہ ہوا تھا کہ ۱۰؍ مئی ۱۸۵۷ء کو انگریزی فوج کے ہندوستانی سپاہیوں نے علَمِ بغاوت بلند کردیا، جس کی تفصیل سر سید نے ’سرکشیٔ ضلع بجنور‘ میں ذکر کی ہے، اس کتاب کو انھوں نے مرادآباد کے زمانۂ قیام میں شائع کروایا۔۱۸۵۷ء کا یہ عظیم واقعہ سر سید کی زندگی میں ایک اہم موڑتھا، اب وہ اپنی قوم کی اصلاح وترقی کے خیال میں منہمک رہنے لگے۔
۱۸۵۸؍اپریل میں صدر الصدور بناکر انھیں مرادآباد بھیجا گیا اور اس کمیشن کا رکن بنایا گیا جو ضبط شدہ جائیدادوں سے متعلق تھا۔ مولانا حالی نے لکھا ہے کہ سر سید کی کوششوں سے یہاں ’جتنی جائیدادیں واگذاشت ہوئیں، کسی اور ضلع میں نہیں ہوئیں۔۱۸۵۹ءمیں سر سید نے مرادآباد میں ایک فارسی مدرسہ قائم کیا، جو بعد میں تحصیل کے سرکاری مدرسے میں ضم کردیا گیا۔ مسلمانوں کو انگریزی زبان میں جدید تعلیم دینے کا خیال ان کے دل میں اسی زمانے میں پختہ ہوا، اسی دوران انھوں نے رسالہ ’اسبابِ بغاوتِ ہند‘ لکھا۔ اس رسالے کو سامنے رکھ کر ایک طرف انگریزوں نے اپنی نئی حکمتِ عملی تیار کی، تودوسری طرف ’انڈین نیشنل کانگریس‘نے اپنی نئی سیاسی حکمتِ عملی طے کی۔۱۸۶۰میں مرادآباد اور شمالی مغربی اضلاع میں سخت قحط پڑا، سر سید بہت اچھے منتظم اور مخلص تھے، لہٰذا اس کا انتظام اُنھیں کے سپرد کیا گیا۔
۱۸۶۱ء میں مرادآباد میں ہی سر سید کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا، جنھوں نے دو بیٹے: (۱) سید حامد اور (۲) سید محمود اور ایک بیٹی اپنے پیچھے چھوڑی۔ اس کے بعد سر سید نے دوسری شادی نہیں کی اور تن من دھن سے مسلمانوں کی تعلیم وترقی کے کاموں میں لگے رہے۔۱۸۶۲ میں علومِ جدیدہ کی انگریزی زبان میں لکھی ہوئی کتابوں کے اردو تراجم کرنے کے لیے انھوں نے ’غازی پور‘ میں ’سائنٹفک سوسائٹی‘قایم کی اور ترجمے کا کام شروع کرادیا، سر سید اس کے اعزازی سکریٹری منتخب ہوئے۔۱۸۶۳ میں سر سید نے ’اپنی مدد آپ‘ کی بنیاد پر عام چندہ سے ایک مدرسہ قائم کیا۔۱۸۶۴میں سید احمد کا تبادلہ غازی پور سے علی گڑھ ہوا تو سائنٹفک سوسائٹی کا سارا سامان اور عملہ وہ اپنے ساتھ علی گڑھ لے آئے۔ سوسائٹی کی باقاعدہ عمارت تعمیر ہوئی، جس کا افتتاح ۱۴؍فروری ۱۸۶۶ء میں ہوا، سوسائٹی کے اجلاس میں ہر مہینے نئے نئے موضوعات پر لیکچر کا انتظام کیا جاتا تھا۔ یہاں سے کئی کتابیں؛’تاریخِ ہندوستان‘، ’تاریخِ مصر قدیم‘،’ تاریخِ یونان قدیم‘، ’رسالہ علم فلاحت‘،’ رسالہ سیاستِ مدن‘، ’تاریخِ ایران‘ اور’ تاریخِ چین‘ وغیرہ ترجمہ ہوکر شائع ہوئیں، اس کام کی خاطر سر سید نے اپنا ذاتی پریس اور ہیرے کی انگوٹھی تک سوسائٹی کی نذر کردی۔ اسی زمانے میں انھوں نے ’سائنٹفک سوسائٹی‘ سے ہفتہ وار اخبار نکالنا بھی شروع کیا جو ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ کی صورت میں ان کی وفات تک شائع ہوتا رہا۔۱۰؍ مئی ۱۸۶۶ء کو سر سید نے ’علی گڑھ برٹش انڈین ایسوسی ایشن‘قائم کی، جس کا مقصدبراہ راست برطانوی پارلیمنٹ سے تعلق پیدا کرناتھا۔
۱۵؍ اگست ۱۸۶۷ء کو سر سید کا تبادلہ Small Causes Courtکے جج کی حیثیت سے بنارس ہوگیا اور وہ سائنٹفک سوسائٹی کی ساری ذمہ داری راجا جے کشن (S.C.S.I.) کے سپرد کرکے بنارس چلے گئے۔
۱۸۶۸ء میں بنارس سے سر سید نے ایک رسالہ ’احکامِ طعامِ اہلِ کتاب‘لکھ کر شایع کیا۔ اسی سال حکومت نے ہندوستانیوں کی تعلیم کے لیے ۴؍ اسکالر شپ منظور کیے اور اضلاعِ شمال مغرب سے سید محمود کا انتخاب کیا، سر سید نے بھی بیٹے کے ساتھ ولایت جانے کا ارادہ کیا اور اپنے سفرِ خرچ وقیام کے لیے اپنا ذاتی کتب خانہ فروخت کردیا بلکہ گھر تک گروی رکھ دی۱۸۶۹ء میں۱؍ اپریل کو دفتر سے چھٹی لے کر بنارس سے انگلستان روانہ ہوئے۔ دونوں بیٹے؛ (۱)سید حامد و(۲)سید محمود کے علاوہ مرزا خداداد بیگ اور خدمت گار چھجو ساتھ تھے، اس سفر کی تفصیل سر سید نے ’مسافرانِ لندن‘ میں لکھی ہے۔ سر سید نے ۱۷؍ مہینے لندن میں قیام کیا اور اپنے مقصدِ حیات کو پورا کرنے کے لیے دن رات مصروفِ عمل رہے۔ لندن میں ان کی بہت پذیرائی ہوئی،ملکہ وکٹوریا اور طبقۂ خواص تک سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں اور اسی قیام کے دوران انھوں نے ’خطباتِ احمدیہ‘کا پہلا مسودہ تحریر کیا اوراسے وہیں طبع کروایا۔
۱۸۷۰ء میں ۴؍ ستمبر کو سر سید ہندوستان کے لیے روانہ ہوئے اور ۲؍ اکتوبر ۱۸۷۰ء کو بمبئی پہنچے اور اسی مہینے میں بنارس پہنچ کر اپنا سرکاری منصب سنبھال لیا۔ یہاں آکر انھوں نے اپنے ’عمل‘ کا آغاز دو چیزوں سے کیا؛(۱) ایک مسلمانوں کو تقلیدی دائرے سے نکال کر ان کے اخلاق کی تہذیب ودرستی کے لیے ’تہذیب الاخلاق‘ جاری کیا(۲) دوسرے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ’کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان‘ بنارس میں قایم کی۔۱۸۷۰ء میں ۲۶؍ دسمبر کو اس کمیٹی کا پہلا اجلاس بلایا گیا، اس کمیٹی کا مقصد یہ تھا کہ وہ تمام باتیں او روجوہ دریافت کی جائیں ،جن کی وجہ سے مسلمان تعلیم میں پس ماندہ ہیں، تاکہ جب وہ وجوہ معلوم ہوجائیں ، تو ان کے تدارک کے لیے اقدام کیا جاسکے۱۸۷۵ء میں ۲۴؍مئی کو علی گڑھ کالج کا افتتاح ہوا اور ۱؍جون ۱۸۷۵ء سے یہاں تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔۱۸۷۶میں سر سید پنشن لے کر علی گڑھ آگئے اور دن رات کالج کے کاموں میں مصروف رہنے لگے۔ ۱۸۷۷میں۸؍جنوری کو لارڈلٹن وائس رائے وگورنر جنرل ہند نے کالج کا سنگِ بنیاد رکھا۔
۱۸۷۸ء میں، ایک سال بعد کالج کی کلاس بھی شروع ہوگئی اور اینگلو اورینٹل محمڈن کا الحاق کلکتہ والٰہ آباد یونیورسٹیوں سے ہوگیا۔ پنشن پانے کے بعد سر سید میں ایک نئی زندگی آگئی اور وہ دن رات ایک طرف کالج کی تعمیر وتنظیم میں لگ گئے دوسری طرف تصنیف وتالیف میں مصروف ہوگئے، اسی دور میںانھوں نے ’تفسیر القرآن‘ لکھی۔۱۸۷۸ء میں سر سید کو لارڈلٹن نے وائس رائے کی لجسلیٹو کونسل کا ممبر مقر رکیا۔ سر سید نے اس چار سالہ دور میں ہندوستانیوں کی بھلائی کے لیے چیچک کے ٹیکے (۱۸۷۹) اور قاضیوں کے تقرر (۱۸۸۰) کے قانون کے مسودات پیش کیے، جو منظور ہوئے۔۱۸۸۲ء میں سر سیدایجوکیشن کمیشن کے رکن مقرر ہوئے لیکن پھر اختلاف کے چلتے علاحدہ ہوگئے۔۱۸۸۳ میں سر سید نے ’محمڈن سول سروس فنڈ ایسوسی ایشن‘اور ۱۸۸۶ء میں ’محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘قایم کی۔
۱۸۸۶ء سے ۱۸۹۶ء تک باقاعدگی سے مختلف شہروں میں اس کے اجلاس ہوتے رہے۔ سر سید اَن تھک محنت کرتے اور جلسے کی ساری کارروائی اور تجاویز کو کتابی صورت میں شایع کرکے ہر ممبر کو بھیجتے، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ علی گڑھ کالج کے نمونے اور طریقۂ تعلیم پر سارے ملک میں لوگ ایسے ہی اسکول و کالج قایم کریں۔
۱۸۸۵ء میں انڈین نیشنل کانگریس وجود میں آئی، سر سید نے دو سال تک ’کانگریس‘ کی سرگرمیوں او رمطالبات کا بغور مطالعہ اور تجزیہ کیا لیکن مسلمان قوم ان کے سامنے تھے، وہ چاہتے تھے کہ جب تک جدید تعلیم سے لیس ہوکر مسلمان تیار نہ ہوجائیں، ان کو کسی قسم کی احتجاجی سیاست یا شورش میں حصہ نہیں لینا چاہیے، اسی لیے انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس کی مخالفت کی اور اس میں مسلمانوں کو شرکت سے روکا۔
۱۸۸۷ء میں لارڈ فرن نے سر سید کو پبلک سروس کمیشن کا ممبر مقرر کیا جہاں انھوں نے انگریزی نہ جاننے کے باوجود مفید بحثیں کیں اور حسبِ ضرورت اپنی رائے اور مشورے دیے۔
۱۸۸۸ء میں سر سید کو ’نائٹ کمانڈر طبقۂ اعلیٰ ستارۂ ہند‘ کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں بڑا شان دار جلسہ منعقد ہوا، جس میں انھیںاس اعزاز سے نوازا گیا اور سید احمد خاںاب ’سر سید احمد خاں‘ ہوگئے۔۱۸۹۵کے آخر میں کالج میں غبن کا سانحہ پیش آیا،اسی زمانے میں سر سید کے چہیتے بیٹے سید محمود بیمار رہنے لگے، سر سید ان سب دُکھوں کو برداشت تو کرتے رہے لیکن اندر سے ٹوٹ گئے البتہ اس زمانے میں بھی وہ کالج کا کام پوری مستعدی سے کرتے رہے، بہت سے مضامین بھی لکھے۔ اردو زبان اور فارسی رسم الخط کے خلاف اسی زمانے میں جب تیسری بار تنازع کھڑا ہوا تو انھوں نے وفات سے آٹھ دس دن پہلے ایک مضمون میں اپنا نقطۂ نظر واضح کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات پر ایک عیسائی کے رسالے کے جواب میں رسالہ لکھنے کی تیاری میں مفصل تمہید بھی لکھی، ابھی وہ ان سب کاموں میں مشغول ہی تھے کہ پیشاب بند ہونے کے مرض میں مبتلا ہوگئے۔
۱۸۹۸ء میں ۲۷؍مارچ کو شدید دردِ سر کی شکایت پیدا ہوئی، پیشاب کا زہر خون میں شامل ہونے کی وجہ سے حالت مزید خراب ہوگئی، شام کو شدید لرزہ کے ساتھ بخار چڑھ گیااور اسی تاریخ میں رات دس بجے سر سید اس دارِ فانی سے کوچ کر گیے۔ ہندوستان اور انگلستان کے اخباروں نے نمایاں طور پر اس خبر کو شائع کیا اور تعزیتی شذات لکھے اور اس طرح اس نابغۂ روزگار شخصیت کے ظاہری وجود سے یہ عالَم ہمیشہ کے لیے محروم ہو گیا۔
(مستفاد از حیات جاوید، مولانا الطاف حسین حالی و تاریخ ادب اُردو ، ڈاکٹر جمیل جالبی وغیرہ)