بزرگ نے علامہ سے مصافحہ نہ کیا
ڈاکٹرمحمدعبدالطیف سابق چیئرمین بورڈ آف سکینڈری اینڈانٹرمیڈیٹ ایجوکیشن لاہور پرمحمدشمعون نے ایم۔اے (فارسی ) 1989-91 پنجاب یونیورسٹی کے لیے مقالہ لکھا۔ عنوان ہے ’’ڈاکٹرمحمدعبدالطیف اوران کی فارسی خدمات‘‘۔ڈاکٹرصاحب موصوف اپنے ایک قلمی نسخہ بعنوان ’’اوراقِ پریشاں ‘‘کے صفحہ 58تا پرجوکچھ تحریرفرماتے ہیں ،اس کااختصارپیش کیاجاتاہے۔ہمارے بیٹھے بیٹھے دوپہرہونے کوآئی۔اتنے میں ایک سفیدریش معمرآدمی اندرداخل ہوا۔اس کے ایک ہاتھ میں گڑوی تھی اوردوسرے میں ایک بیگ سامنے آکرسلام کیا۔ڈاکٹرعلامہ محمداقبال ؒ نے حسب عادت مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایامگراس نے بڑے ادب سے کہا۔ سرکارمجھے ہاتھ ملانے کاحکم نہیں پائوں چومنے کاہے ۔ ڈاکٹرصاحب نے اس پرفرمایا آپ کوہاتھ ملانے کی اجازت نہیں اوردوسرے حکم کی مجھے عادت نہیں۔بڑی مشکل آن پڑی ہے۔بہرحال آپ آزادی سے بات کریں۔ بوڑھے نے کہامیں 80/85سال کاہوں جب کہ میری والدہ سویااس سے کچھ اوپرکی ہیں۔نحیف ونزارہونے کی باوصف درجنوں حج کرچکی ہیں ۔اب البتہ عرصہ سے چارپائی ہی سے چمٹی ہیں۔ ایک رات انہیں خواب میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی۔ڈاکٹرصاحب چونک کراُٹھے ۔ تکیہ کاسہارالیااورہمہ تن گوش ہوگئے ۔پوچھاپھر؟کہاکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’بہت آزاردہ اوردِل تنگ ہو۔لاہورمیں ہمارے مقبول بندے تمہارے قریب ہیں ‘‘اورآپ کانام لیا۔ڈاکٹرصاحب کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ۔یہ کہہ کراس نے وہ گڑوی آگے بڑھ کرمیری ماں نے ایک ماہ تک تھوڑاتھوڑا دودھ جماکریہ گھی بھیجاہے اورمجھے حکم دیا ہے کہ انہیں بڑی عزت واحترام سے لے کرآئو۔ ہاتھ باندھ کرعرض کرنا ۔ہاتھ سے ہاتھ نہ ملانا۔ تم ان کے پائوں چوم لینا۔میں تمہارامنہ چوم لوں گی۔ ڈاکٹرصاحب کاچہرہ آنسوئوں سے ترتھا۔ فرمایا میری صحت آپ کے سامنے ہے۔ چلناپھرناتودرکنا رہلنے جلنے تک سے قاصرہوں۔ یقینااس پاک باز عفیہ سے پہلے دربار میں پہنچ جائوں گا۔ میری بیماری کی ابتداء اورجڑہی گلے سے ہے ۔گھی کااستعمال منع ہے مگریہ گھی تواب خاص نسبت سے آرہاہے ۔ علی بخش کوآواز دی ۔چمچہ منگواکر بڑی رغبت سے ایک چمچہ گھی پی لیا اورفرمایاکہ ان کے ایک حکم کی تعمیل توہوگئی ۔ رہی دوسری بات،یہ کہہ کرتکیہ کاسہارا لیا۔ہماری طرف دیکھاکہ آپ اب جاسکتے ہیں۔ دروازہ بندکرتے جائیے۔ ہم باہرنکل رہے تھے ۔آخری الفاظ ہمارے کانوں نے یہ سنے کہ ’’آپ ذرامیری طرف دیکھئے۔میری آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر‘‘اورہم باہر۔
ابدی نیندمیں علامہ کوبوسہ
1938ء میں معالجوں نے علامہ اقبالؒ سے ملاقات کے دروازے بندکردیئے تھے۔پھربھی ڈاکٹرمحمدعبدالطیف باربارہوگئے اورباباعلی بخش سے حال دریافت کرکے لوٹ آتے تھے ۔21 اپریل1938ء کا غمگین ترین دن انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھااوران چند آدمیوں میں سے ہیں جنھوں نے سب سے پہلے ابدی نیندسونے والے علامہ اقبال ؒ کی جبین مبارک پربوسہ دیا۔
آخری بیماری :
آخری عمرمیں جب کہ علامہ کی بائیں آنکھ بھی جواب دے چکی تھی ،ان کاحافظہ بہت تیزہوگیاتھا ، اورانہیں اس بات پر کوئی افسوس نہ تھا کہ وہ کسی کتاب کامطالعہ نہیں کرسکتے۔ بیماری میں بھی خطوں کاجواب باقاعدگی سے لکھواتے تھے۔کبھی جاویدسے ،کبھی نذیرنیازی صاحب سے اورکبھی کسی اوردوست سے خط لکھواتے۔اب ان کی دلچسپی کے دومحورتھے۔ اوّل یہ کہ مسلمانوں کی بہتری کے لئے کہاں کیاکچھ ہورہاہے یاکیاکچھ کرناچاہیے۔ دوم یورپ کے سیاسی حالات کیاکروٹ بدل رہے ہیں۔چونکہ انہیں جنگ عظیم دوم کے برپا ہونے کایقین تھا، اس لئے یورپ کے حالات خاص طور پرپڑھواکرسنتے تھے۔جب کوئی شخص ان کی مزاج پُرسی اورعیادت کے لئے آتاتواس سے یہ ضرورپوچھتے ’’آج کیاخبرہے؟‘‘
بیماری کی حالت میں ایک رات کافی دیرتک گریہ زاری کرتے رہے۔ کسی نے رونے کاسبب پوچھاتوفرمایا:
’’خُداجانے مسلمان قوم کاکیاحشرہوگا؟مجھے اس کاخیال رہ رہ کرستاتاہے‘‘۔
جب سے بیماری میں شدت آئی تھی ۔صبح کی تلاوت چھوٹ گئی تھی ۔آپ کسی سے قرآن پڑھواکرسن لیتے۔اس دوران میں آنکھوں سے آنسوٹپ ٹپ گرتے رہتے۔ تلاوت کے چھوٹ جانے کاذکراس شعرمیں کس حسرت سے کیاہے ۔ ؎
درنفس سوزِ جگرباقی نماند
لطفِ قرانِ سحر باقی نماند
ایک دفعہ علی بخش سے کہاکہ نمازپڑھنے کوجی چاہتاہے۔نمازکے لئے وہ خودتووضونہیں کرسکتے تھے ،علی بخش نے لیٹے لیٹے انہیں وضوکرادیا۔چنانچہ آپ نے چارپائی پر بیٹھ کرنمازپڑھی۔
3مارچ 1938 ء کو ضعف قلب اس قدربڑھ گیا کہ غشی طاری ہوگئی۔ چنانچہ حکیم قرشی کاعلاج شروع کیاگیاجس سے حالت ذرا سنبھل گئی ،لیکن یہ کیفیت دیرتک قائم نہ رہی اور تکلیف عودکرآئی۔ ان کے بڑے بھائی شیخ عطامحمدنے تسکین کے چندکلمات کہے توعلامہ نے فوراً جواب دیا۔’’میں مسلمان ہوں اورموت سے نہیں ڈرتا‘‘۔اس کے بعداپنایہ شعرپڑھا ؎
نشان مردمومن باتوگویم
چومرگ آید، تبسم برلب اوست
ایک دفعہ ممتازحسین انہیں ملنے کے لئے آئے۔اپنی بیماری میں عجیب و غریب توجیہہ کرتے ہوئے آپ نے قدرے مسکراکرکہا:’’یہ جومیں زندگی اورکائنات کے بڑے بڑے رازآپ لوگوں کوبتاتاہوں ،یہ بیماری اس کی سزاہے ‘‘۔
19مارچ کوپائوں پرورم آگیااورجگرنے اپنافعل سرانجام دیناکم کردیا۔
25 مارچ کو بیماری نے نہایت نازک صورت اختیارکرلی۔
20؍اپریل کوآقامرتضیٰ احمدخاں عیادت کے لئے آئے۔ عین اسی وقت جاویداقبال، جواس وقت تیرہ سال کے تھے،کمرے میں واردہوئے۔ علامہ نے بیٹے کومخاطب کرتے ہوئے کہا:’’بیٹا!تم میرے پاس آکر بیٹھاکرو۔میں شایدچندروزکامہمان ہوں ‘‘۔
حاضرین میں سے کسی نے کہاکہ ابھی کم عمر ہے ،اس لیے آپ کی بیماری سے گھبرایاگھبرایا رہتاہے۔علامہ نے فرمایا:’’اسے ہرافتادکامردانہ وارمقابلہ کرنے کی ہمت پیداکرنی چاہیے ۔‘‘
20؍اپریل کی رات علامہ اقبال کے پاس م ش (میاں محمدشفیع)،ڈاکٹرعبدالقیوم اورراجہ حسن اخترموجودتھے ۔آخری رات کے متعلق جاویداقبال اپنی تصنیف ’’مئے لالہ ٔ فام ‘‘میں لکھتے ہیں۔
’’آخری رات عقیدت مندوں کاجمگٹھاتھا ۔میں کوئی دوبجے ان کے کمرے میں داخل ہوا تووہ مجھے پہچان نہ سکے۔ پوچھا:’’کون ہے ؟‘‘ ۔میں نے جواب دیا :’’جاویدہوں‘‘۔ہنس پڑے اوربولے :’’جاویدبن کردکھائوتوجانیں ‘‘۔ پھراپنے قریب بیٹھے ہوئے چوہدری محمدحسین سے مخاطب ہوکرفرمایا:’’اُسے جاویدنامہ کے آخرمیں وہ دُعا’خطاب بہ جاوید‘‘ضرورپڑھوادیجئے۔
شانوں میں دردہونے لگاتو علامہ نے علی بخش کوشانے دبانے کے لئے کہا۔پھراچانک لیٹے لیٹے اپنے پائوں پھیلادیئے۔اوپرکی طرف آنکھیں اُٹھائیں ، بایاں ہاتھ دِل پررکھااوردائیں ہاتھ سے سرکوتھامتے ہوئے کہا’’یااللہ ‘‘اس کے ساتھ ہی سرپیچھے کی طرف ڈھلک گیا،اورقبلہ رُوہوکر اپنی آنکھیں بندکرلیں اورپانچ بج کر چودہ منٹ پر اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔ اِناًللّہِ واِنّاالہِ راجعُون۔
وفات سے دس منٹ پہلے اقبال نے اپنے بارے میں یہ رباعی کہی تھی جووصال کے وقت آپ کے ہونٹوں پرجاری تھی ؎
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے ازحجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز ، آیدکہ ناید
علامہ کی آخری رات بزبانِ جاویداقبال
میں اورمنیرہ (ہمشیرہ )والدصاحب کے پاس تھے۔ منیرہ کبھی انکے بسترکے اندرگھس جاتی کبھی باہرآکر بیٹھ جاتی۔آنٹی ڈورس بھی وہاںپرتھی ۔وہ جرمن تھیں ۔ منیرہ بھی جرمن زبان کے کچھ الفاظ جانتی تھی ۔رات کے ساڑھے آٹھ یانوبجے تھے آنٹی ڈورس نے منیرہ کو سونے کے لئے کہا۔ مگروہ ایک منٹ اور ایک منٹ اورکہہ کرانکارکرتی۔اس پرعلامہ نے کہاکہ منیرہ کویہ احساس ہے کہ یہ اسکی اپنے والدکے ساتھ آخری ملاقات ہے ۔اسلئے انہوں نے کہااسکویہاں ہی رہنے دو۔
علامہ کوخود بھی پتہ تھا کہ یہ ان کآخری وقت تھا۔وہاں کچھ قریبی لوگ تھے ۔گھرمیں انتشارکی کیفیت تھی کہ نہ جانے اب کیاہونے والاہے۔وہاں پرحکیم قرشی رات ساڑھے گیارہ بجے تک تھے۔انکے علاوہ وہاں ڈاکٹرعبدالقیوم ۔راجہ حسین اختراورعلی بخش تھے۔ بے چینی تھی توحکیم قرشی نے کہابے ہوشی کاانجیکشن لگاتاہوں مگرعلامہ نہ مانے کہا کہ میں اس دُنیاسے بے ہوشی کی حالت میں نہیںجاناچاہتا۔حکیم قرشی گھرچلے گئے ۔مگرفوراً ہی انکودوبارہ بلایاگیا ۔علی بخش نے انکی چھاتی سہلائی کیونکہ چھاتی میں شدیددرد محسوس کررہے تھے ۔اس وقت علامہ نے یہ رباعی پڑھی۔
سرودرفتہ بازآید کہ ناید
نسیمے ازحجاز آید کہ ناید
سرآمدروزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
۔۔۔۔۔۔۔صبح کی اذان کاوقت تھا۔۔وہاں علی بخش انکی چھاتی سہلارہاتھا۔علامہ نے کہایااللہ اوراسکے ساتھ ہی ان کاآخری سفرشروع ہوا۔
وفات سے 3 دن قبل کی رباعی
وفات سے 3دن پہلے 18اپریل 1937 کو یہ رباعی کہی تھی۔
توغنی ازہردوعالم من فقیر
روزمحشرعذرہائے من پذید
گرتومی بینی حسابم ناگزیر
ازنگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر
وفات سے 10 منٹ قبل کی رباعی
وفات سے 10 منٹ پہلے اقبال نے اپنے بارے میں یہ رباعی کہی تھی جووصال کے وقت آپ کے ہونٹوں پرجاری تھی
سرودرفتہ باز آید کمہ ناید
نسیمے ازحجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
علامہ کی تلاوتِ سحری
کبھی بھی ایسانہیںہوا کہ علامہ اقبال کے سامنے نبی محترمؐ کانام لیاگیا اوراقبال بلک بلک کرروئے نہ ہوں۔کبھی بھی ایسانہ ہواوہ تلاوت کرتے ہوں اورآنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی نہ لگی ہو۔وہ زیادہ ترتلاوت سحری کے وقت کرتے تھے۔1938میں جب علامہ کوگلے کی تکلیف کی وجہ سے تلاوت کرنا مشکل ہوگیا توکوئی حال پوچھنے آتاتواقبال کہتے لطفِ قرآنِ سہری باقی نہ رہا۔ انکی جگہ کوئی اورہوتاتووہ کہتا بھئی بھوک نہیں لگتی۔میٹھانہیں کھاسکتا۔نیندنہیں آتی ہے وغیرہ وغیرہ۔علامہ کی نصیحت تھی کہ کتاب اللہ کے ساتھ بہت گہراتعلق بناکر رکھو۔
عشقِ رسولؐ
جوں جوں زندگی کے دن گزرتے گئے آنحضورﷺ کے ساتھ اقبال کاعشق جنون کی صورت اختیارکرتاگیا ،یہاں تک کہ آخری عمر میں جب بھی ان کی مجلس میں نبی کریم ﷺ کاذکرآتا مدینہ ٔ منورہ کاذکرہوتا تواقبال بے قرارہوجاتے ،آنکھیں آبدیدہ ہوجاتیں، آنسورواں ہوجاتے ،بعض اوقات توہچکیاں بندھ جاتیں ۔مدینہ کانام آتے ہی پیمانہ ٔ عشق لبریزہوجاتا اوراشک ِمحبت کی جھڑیاں لگ جاتیں ۔وہ حج یاعمرے کے لئے بڑے بے تاب رہتے لیکن انہیں یہ سعادت جسمانی طور پرنصیب نہ ہو سکی۔ لیکن انہوں نے ’’ارمغانِ حجاز‘‘کے ایک باب بعنوان ’’حضورِرسالت ‘‘میں آپ ؐ کو مخاطب کرکے اپنے ذاتی وارداتِ قلب اوراُمتِ مسلمہ کی دل گداز تصویرکھینچ کررکھ دی۔
شہرِمدینہ
ادب گاہسیت زیرِ آسماں ازعرش نازک تر
نفس گم کردہ می آیدجنیدوبایزیدایں جا
(رسول ِ کریم ﷺ کاشہرمدینہ یاروضہ ٔ مبارک ایک ایسی ادب گاہ ہے جہاں حضرت جنیدبغدادی اورحضرت بایزید بسطامی جیسے عظیم اولیاء بھی سانس گم کئے ہوئے آتے ہیں کہ کہیں سانس لینابھی بے ادبی میں شامل نہ ہوجائے)۔
شہرِ نبوی ؐ کوعزت بخاری کی زبان میں نذرانہ ٔ عقیدت پیش کرنے کے بعداقبال عالمِ خیال میں مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ کاسفرشروع کرتے ہیں اوراس تصورمیں وہ قافلہ ٔ شوق کے ہمراہ نرم ریگستانی زمین پررواں دواں ہیں۔ ذوقِ حضوری اورشوق ومحبت میں یہ ریت ان کوریشم سے بھی زیادہ نرم محسوس ہورہی ہے بلکہ ایسامعلوم ہوتاہے کہ اس کاہرذرہ دِل بن کر دھڑک رہاہے ۔ اقبال ساربان سے کہتے ہیں کہ ان دھڑکتے ہوئے دلوں کاخیال کرے اورنرم روی اختیارکرے ؎
چہ خوش صحراکہ شامش صبح خنداست
شبش کوتاہ وروزِ ا وبلنداست
قدم اے راہرو آہستہ ترنہ
چوما ہرذرۂ او درد منداست
(مدینے کے راستے کاصحراکتنا اچھاہے کہ اس کی شام صبح کی مانند مسکراتی ہوئی ہے جس میں ہرطرف پھول کھلے ہوئے ہیں۔یہاں کی رات چھوٹی اوردن لمبا ہے ۔اے راہی! اس صحرا کی ریت پربڑی نرمی سے قدم رکھ، کیونکہ اس کاہر ذرہ میری طرح دردمندہے)۔پھراقبال اسی عالمِ خیال میں رسول اللہ ﷺ کے روضہ ٔ مبارک پرحاضرہوتے ہیں۔درودوسلام پڑھتے ہیں۔محبت وشوق کی زبان ان کے دِل کی ترجمان بن جاتی ہے اوروہ اس مبارک وقت اورسنہری موقع سے فائدہ اُٹھاکراپناحالِ دِل بیان کرتے ہیں۔امت اورعالمِ اسلام کی حالت ِ زار ،ان کے مسائل اورمشکلات ،آزمائشیں اورامتحانات ،نیزمغربی تہذیب وتعلیم اورمادی فلسفوں اورتحریکوں کے سامنے مسلمانوں کی بے بسی ، اپنے اپنے وطن میں ان کی غریب الوطنی اورخودمسلمانانِ ہند میں اپنے پیغام کی ناقدری کاشکوہ کرتے ہیں۔