ھراقبال اسی عالمِ خیال میں رسول اللہ ﷺ کے روضہ ٔ مبارک پرحاضرہوتے ہیں۔درودوسلام پڑھتے ہیں۔محبت وشوق کی زبان ان کے دِل کی ترجمان بن جاتی ہے اوروہ اس مبارک وقت اورسنہری موقع سے فائدہ اُٹھاکراپناحالِ دِل بیان کرتے ہیں۔امت اورعالمِ اسلام کی حالت ِ زار ،ان کے مسائل اورمشکلات ،آزمائشیں اورامتحانات ،نیزمغربی تہذیب وتعلیم اورمادی فلسفوں اورتحریکوں کے سامنے مسلمانوں کی بے بسی ، اپنے اپنے وطن میں ان کی غریب الوطنی اورخودمسلمانانِ ہند میں اپنے پیغام کی ناقدری کاشکوہ کرتے ہیں۔ کبھی ان کی آنکھیں اشک بارہوجاتی ہیں اورکبھی دِل کی بات زبان پرآجاتی ہے ۔اقبال کایہ روحای سفراس زمانے میں ہواجب ان کی عمر ساٹھ سال سے تجاوز کرچکی تھی ۔حج اورزیارت مقدسہ کی حسرت وتمنا ان کے دِل میں جاگزیں تھی ۔لیکن ذوق ِ سفر سے یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے وہ جسمانی طورپردرِ رسول ؐ تک پاپیادہ گئے ہیں۔
جاویداقبال کاخط اورعلامہ کی نظم درجواب
جناب جاوید اقبال اپنی مشہور تصنیف ’’مئے لالہ فام ‘‘میں لکھتے ہیں :
’’ 1931ء میں جب گول میزکانفرنس میں شرکت کے لئے اباجان انگلستان گئے تو اس وقت میری عمرکوئی سات سال کے لگ بھگ تھی۔میں نے انہیں ایک اوٹ پٹانگ ساخط لکھا اورخواہش ظاہر کی کہ جب وہ واپس تشریف لائیں تومیرے لئے ایک گراموفون لیتے آئیں۔ گراموفون تووہ لے کرنہ آئے لیکن میراخط ان کی مندرجہ ذیل نظم کی شانِ نزول کاباعث ضروربنا‘‘ ۔
دیارِ عشق میں اپنامقام پیداکر
نیازمانہ نئے صبح وشام پیداکر!
خدااگردِل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ وگُل سے کلام پیداکر!
اٹھانہ شیشہ گراِن فرنگ کے احساں
سفالِ ہندسے میناوجام پیداکر!
میں شاخِ تاک ہوں ،میری غز ل ہے میراثمر
مرے چمرسے مئے لالہ فام پیداکر!
مراطریق امیری نہیں ،فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیداکر!
پانچ اشعار پرمشتمل یہ نظم بظاہراقبال نے اپنے بیٹے جاوید ہی کے نام لکھی ہے ،لیکن بغور دیکھاجائے تووہ اس میں مِلت اسلامیہ کے تمام نوجوانوں سے مخاطب نظرآتے ہیں:فرماتے ہیں۔
(1) اے بیٹے! تیرے لئے لازم ہے کہ علم وعمل کے ذریعے معاشرے میں اپنی شناخت کرائے اوروہ مرتبہ حاصل کرے جوعزت واحترام کاحامل ہے ۔ اس کے لئے لازم ہے کہ قدیم روایات کوترک کرکے خودکونئی اورمثبت جہتوں سے ہم آہنگ کرے ۔
(2) خداکرے تجھے وہ فطرت شاس دِل عطا ہو کہ تُوان اشیا کے رموزبھی جان سکے جوقوتِ گویائی سے محروم ہیں اورلالہ وگلاب جیسے پھولوں کی خامشی بھی تیرے لئے کلام بن جائے۔
(3) اے فرزند !یورپ کے علوم وفنون اوروہاں کی تہذیب وثقافت کوحرفِ آخرتصورنہ کر۔تجھے عروج حاصل کرنا ہے تواپنی ہی تہذیب اوراپنے ہی وطن کی مٹی اوراپنے ہی علوم وفنون سے وابستگی پیداکر۔ مغربی تہذیب مصنوعی اورناپائیدار ہے اورمشرق کے علم وفن اورتہذیب میں وطن کی مٹی کی خوشبو رچی ہوئی ہے۔
(4)میری شاعری کویوں سمجھو،جیسے میں انگورکی بیل ہوں اورمیری غزل اس کاثمر ہے یعنی انگور۔اب یہ تیراکام ہے کہ میرے ثمر سے مئے لالہ فام پیداکراوراس سے استفادہ کر۔سادہ لفظوں میں یوں کہئے کہ میں نے اپنی شاعری میں جواسرارورموز بیان کئے ہیں ان کی معرفت حاصل کرکے پوری طرح ذہن نشین کرلے اورانہی پرکاربندہوجا۔
(5) میں امیرآدمی نہیں ہوں۔میراطریقہ امیری نہیں ،غریبی ہے ۔بیٹے! خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیداکر۔
والدمحترم کی حکیمانہ نصیحت
جب علامہ اقبال نے قرآن کی تلاوت باقاعدگی سے شروع کی اور یہ ذہن میں رکھ کر کہ اللہ تبارک تعالیٰ اس سے ہم کلام ہے وہ زاروقطار روتے تھے اور بہت دیرتک روتے تھے ۔اس وجہ سے انکی آنکھیں لال سُرخ اورسوجھ جاتی تھیں ۔اتناروتے تھے کہ قرآں کے اوراق گیلے ہوجاتے تھے۔
تلاوتِ قرآن کریم اورعلامہ اقبالؒ
علامہ اقبال ؔ ؒ نے ایک موقع پرفرمایا:
جب میں سیالکوٹ میں پڑھتاتھا توصبح اُٹھ کرروزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتاتھا۔ والدمرحو م درودشریف اوروظائف سے فرصت پاکر آتے اورمجھے دیکھ کرگذرجاتے۔
ایک روزصبح کومیرے پاس سے گذرے تومسکرا کر فرمایاکہ کبھی فرصت ملی تومیں تم کو ایک بات بتائوں گا۔
میں نے دوچار دفعہ بتانے کاتقاضا کیاتوفرمایا کہ جب امتحان دے لوگے تب ۔
جب امتحان دے چکا اورلاہورسے مکان آیا تووالد صاحب نے فرمایا:جب پاس ہوجائوگے تب۔۔
جب پاس ہوگیا اورپوچھاتوفرمایاکہ بتائوں گا۔
ایک دن صبح کوجب حسب ِ دستور قرآن کی تلاوت کررہاتھاتووہ میرے پاس آگئے اورفرمایا:
’’بیٹا! کہنایہ تھاکہ جب تم قرآن پڑھوتو یہ سمجھوکہ قرآن تُم پرہی اُترا ہے ۔یعنی اللہ تعالیٰ خودتم سے ہم کلام ہے ‘‘۔
آہ! کیابات کہی اورکیسی بات فرمائی۔۔۔۔
لوگ قرآن کونقالی سے پڑھتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ ہم سے ہم کلام نہیں۔۔۔
صرف چودہ سو(۱۴۰۰) برس پہلے کاقصہ ہے جس سے ان کاسروکار نہیں۔اس کانتیجہ ہے کہ قرآن کی تلاوت میں ان کادل تاثرسے خالی رہتاہے۔
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ والدِ محترم کایہ فقرہ میرے دِل میں اُترگیااوراس کی لذت دِل میں اب تک محسوس کرتاہوں
علامہ اقبال نے اپنے مشفق باپ کی فاضلانہ اور حکیمانہ بات کواپنے ایک شعرمیں بڑی خوبصورتی سے موزوں کیاہے ۔
ترے ضمیرپہ جب تک نہ ہونزولِ کتاب
گرہ کشاہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف
ختم شد
رابطہ نمبرات8825051001,9622022292