سرینگر//پیپلز ڈیموکرٹک فرنٹ (ایس) کا ایک اعلی سطحی وفد پارٹی چیرمین حکیم محمد یاسین کی سربراہی میں سابق وزیر اعظم ہند و سربراہ کانگریس کشمیر کمیٹی ڈاکٹر من موہن سنگھ جی سے ملاقی ہوا و۔حکیم محمد یاسین نے پارٹی کی طرف سے من موہن سنگھ جی کی سربراہی والی کانگریس ڈیلی گیشن کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں تنازعہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کئی تجاویز پیش کیں گئیں۔ حکیم یاسین نے ڈیلیگیشن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 70 دہائیوں سے وادی کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے لیکن ابھی تک کسی بھی وفاقی جماعت یا سرکار نے اس مسئلے کو نمٹانے میںسنجیدگی کا اظہار نہیں کیا ہے۔اگرچہ کئی ایگریمنٹ اور معاہدے اس ضمن میں آج تک طے پائے گئے لیکن کسی ایک معاہدے کوخلوص نیت کے ساتھ عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔موجودہ مرکزی سرکار نے بھی اگر چہ اس ضمن میں کئی فارمولاﺅں کا اعلان کیا تاہم کسی بھی فارمولے پر زمینی سطح پر عمل اقدام کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔آئین ہند کی دفعہ ۵۳۔اے کا ذکر کرتے ہوئے حکیم یاسین نے کہا کہ اس دفعہ سے ہی ریاست کو خصوصی درجہ حاصل ہے اور اگر اس دفعہ کو منسوخ کیا گیا تو ریاست جموں و کشمیر اور ہندوستان کا رشتہ دیر پا ثابت نہیں ہوسکتا۔ ایسا کرنے سے وادی میںحالات بد سے بد تر ہونے کا کوی امکان موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر چہ وزیر داخلہ نے اپنے وادی کے دورے کے دوران پی ڈی ایف وفد کو یقین دلایا کہ دفعہ ۵۳ ۔اے کے دفاع میں مرکزی سرکار کھڑی ہے تاہم اس سمت میں عملی طور پر کوئی کاروائی ابھی تک نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ریاستی عوام میں تذ بزب کی کیفیت برابر طاری ہے۔ریاستی سرکار کی ناقص کار کردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے حکیم یاسین نے کہا اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگارنوجواں کو روزگار فراہم کرنے میںموجودہ سرکار غیر سنجیدہ ہے۔ علیحد گی پسند رہنماﺅں کی سیاسی سرگرمیوں پر قد غن لگائی جاچکی ہے۔سیاحتی سیکٹر اور میوہ صنعت کی ترقی کیلئے اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔سرحدی علاقوں میں گولی باری کی وجہ سے لوگ پریشان حال ہیں۔اُن کو درپیش مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔سیاسی قیدیوں اور کم سن پتھر بازوں کو رہا کرنے میں لیت لعل سے کام لیا جارہا۔مسلمان سیاسی مائیگرنٹوں اور تشدد کے شکار ہوئے پریواروں کی باز آبا کاری کیلئے کوئی ٹھوس پالیسی سرکار کے پاس ہیں ہے۔ اسلئے کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو اس حوالے سے مرکزی سرکار پر اپنا دباﺅ بڑھانے کی ضرورت ہے۔برمی مسلمانوں کی نسل کشی کا ذکر کرتے ہوئے یاسین نے وفد سے تلقین کی کہ وہ انسانیت کی بنیاد پر روہنگیائی مسلمانوںکی مدد و اعانت کیلئے خود بھی سامنے آئے اور مرکزی سرکار پر بھی اس حوالے سے اپنا دباﺅ قائم کرنے کی کوشش کریں تاکہ ان مظلوم و محکوم مسلمانوں کی زندگیوں اورعز ت و آبرو کو محفوظ کیا جاسکے۔