Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

حکیم منظور:ـــــ’’جنت ِکشمیر کا منفردشاعر ‘‘

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: July 9, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
21 Min Read
SHARE
بر صغیر ہندوپاک کے اہم اور معتبر شعرا میں حکیم منظور کا نام نہایت ہی احترام سے لیا جارہا ہے۔ یہ ان کی ان تھک اور مسلسل محنت کا نتیجہ ہے کہ اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائیز رہ کر بھی انھوں نے جس جاں فشانی سے اردو زبان و ادب کی خدمت کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انھوں نے جس دیانت سے اپنے منصبی فرائض اور اپنا شوق بحیثت تخلیق کار کے نبھائے وہ قابل ستائش ہیں۔ زندگی کی حرارتوں سے سر شار اُن کی شخصیت دوسروں کے لئے بھی   تحریک کا سبب رہے ہیں۔اس لئے اُن کا حلقہ ادب اُن کی میقناطیسی شخصیت کا گرویدہ رہا ہے۔ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ شاعری کے میدان میں اترے اور اپنی شاعری خاص طور غزل کو منفرد لہجہ اور تازگی سے سرشار کرنے میں مسلسل لگے رہے ۔ اُن کی شاعری کا بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ غزل کو نئی روح عطا کرنے کی جدوجہد میں وہ تمام عمر سرگرداں رہے اور اپنا منفرد اسلوب پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ اپنی جڑوں سے بالکل آشنا ہیں تبھی وہ انہیں مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ انہیں اپنی روایات پیاری ہیں اور اقدار بھی ۔ اپنی سرزمین سے بے پناہ محبت ان کی غزل کو نئی بلندی عطا کررہی ہے وہ جدیدیت اور مابعد جدیدت سے کنارہ کش نہیں ہوئے بلکہ روایت کے ساتھ ساتھ جدید لب و لہجہ ،لفظیات و آواز اور عروض کی دلاویزی ان کی غزل کی انفرادی شان کی غماز ہیں۔ لفظ کو اپنے طریقے سے برتنا اور اسے لغت کے معنی سے اوپرلے جاکر نئے معنی سے سرشار کرنا ان کی استادانہ صلاحیت کو مترشح کردیتا ہے۔    ؎
زمین جب تک نہ اپنا حصہ ادا کرے گی 
گلاب کھلتے نہیں ہوا کی سفارشوں سے 
اپنی سرزمین کشمیر سے اُن کا لگاو دیدنی ہے اُن کے غزل کے اشعار چھلک چھلک کر اس سرزمین کے حسن و جمال کو منعکس کرنے میں آئینہ بنے ہوئے ہیں ۔ اُن کے اشعار میں اپنایا گیا جدید اور تازہ لہجہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عام فہم لفظوں کو شعر کے قالب میں ڈال کر انھیں آفاقیت عطا کرنا کمال کا تجربہ ہوسکتا ہے شعریت شاعر سے اسی ہنر کا مطالبہ کرتی ہے اور اُن اشعار سے جوپیغام قاری حاصل کرلیتا ہے وہ ہر قاری اور ہر انسان کے دل کی دھڑکن کی آوازہے جیسے یہ اسی کا تجربہ بیان کرتا ہے ۔ حکیم منظور شعر کے معنی میں اندر گھس جاتا ہے اور اک نئے رنگ ڈھنگ و آہنگ و اسلوب لے کر باہر کا راستہ ناپ لیتا ہے یا وہ شعر کو ہی اپنے اندر جذب کرکے مختلف مرحلوں سے گزار کر ایک مشین کی طرح نکال باہر کر لیتا ہے کہ اس میں معنی آفرینی حلاوت ، حیرت اور نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں تبھی وہ اپنے وطن کو پورے عالم میں سمو لیتا ہے یا پورے عالم کو ہی اپنے وطن میں جذب کر لیتا ہے یعنی سمندر کو کوزے میں بند کر لیتا ہے یا کوزے کو ہی سمندر بنادیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکیم منظور اپنے پورے وجود کو شعر تخلیق کرنے کے دوران involve کرلیتا ہے جس میں ذہن و دماغ کے ساتھ ساتھ دل بھی شامل ہوجاتا ہے تبھی اشعار پورے رنگ و نور کے ساتھ رقم ہو پار ہے ہیں جن میں ایک خطے کے متعلق کہا گیا شعر تمام عالم کا شعر بن جاتا ہے اور کائینات کو سمو لینے کی کار فرمائی بھی جلوہ گر نظر آتی ہے اُن کی شعری کائینات اتنی محدود بھی نہیں ہے کہ کسی خاص خطے قوم یا ملک کے ساتھ منسلک کی جائے بلکہ وہ شعر کو آفاقی رنگ وآہنگ میں ڈالنے کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں جس کے لئے وہ عمر بھر جدوجہد کرتے رہے ۔ 
رنگین تتلیوں کے پروں کی کہانیاں
 
بادام چشم سیب شفق سی محبتیں
گہری ہوئی ہیں اور بھی ڈل کی خموشیاں 
 
جہلم پہ جو رواں تھی وہ گفتار سوگئی
چنار چہرے ہیں ان کی کوئی زبان نہیں ہے 
 
سلگ رہے ہیں مگر کہیں بھی دھواں نہیں ہے 
ناشپاتی کے شگوفے اب بھی پہلے سے حسیں
 
ذائقہ نظروں کا لکھ لیتا ہے تفسیریں نئی
میں تم سے پوچھتا ہوں جھیل ڈل کی بے زباں موجو
 
تہہ دامن چھپا کر تم نے کیا پیغام رکھا ہے 
بادام ، سیب ،جھیل ڈل ، جہلم، چنار، ناشپاتی، جیسے الفاظ کو شاعر نے اپنے شعری تجربے میں اس طرح برتنے کی سعی کی ہے کہ ان کا معنی اپنے اصلی معنی سے اوپر اٹھ کر کسی دوسرے دنیا میںلے جاتے ہیں اور قاری کو نور و سرور عطا کرتے ہیں ۔ کشمیر میں رنگین تتلیوں کے پر اور ان کی کہانیاں یہاں کی فطری اور جنت نما خوبصورتی کی دلیل ہیں ۔یہاں کے لوگوں کے سیب کی سرخی لئے ہوئے خوبصورت چہرے ، بادامی آنکھیں اور یہاں کا بھائی چارہ یعنی شفق سی محبتیں کس کو نہیں بھاتی ۔یہ شعراگر چہ کشمیر کی خوبصورتی اور یہاں کے فطری حسن کا عکاس ہے لیکن شعر کا گہرائی سے جائیزہ لینے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ شعر کشمیر کے خطے تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اسکی شعریت ہمیں کسی سرحد تک محدود نہیں رکھتی بلکہ تمام سرحدیں پھلانگتی ہوئی عالمگیر بن جاتی ہیں ۔
ڈل کی خاموشیوں کا اور گہرا ہونا کسی گہری اداسی کے سراغ کا پتہ دیتی ہے کیونکہ خاموشی تب گہری ہوجاتی ہے جب سوچ گہری ہوجاتی ہے ۔ انسان تب زیادہ سوچتا ہے جب اسے کسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب اسے ٹھوکر لگتی ہے جب وہ مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے اسی گہری سوچ کی چھاپ صرف ڈل تک محدود نہیں بلکہ اسکی لپیٹ میں پوری دنیا آچکی ہے اور جہلم کی گفتار جو اس کے پانی پر رواں تھی اس کا سونا بھی اس کی رونق ختم ہونے کے مترادف ہے ایک اور اہم بات یہ کہ گہری سوچ کی آڑ میں اندر ہی اندر جو لاوا پکتا ہے وہ بڑا خطرناک ہوتا ہے اگر یہ لاوا پھٹ جائے تو شدید بھونچال آنے کا بھی خطرہ ہے دوسری بات یہ کہ مصبیت آنے سے انسان کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اور حوصلہ ٹوٹنے سے زندگی جینے کا حقیقی مزا ختم ہوجاتا ہے گو اس شعر میں معنی کی جو گہرائی اور گیرائی ہے اسے قاری اپنے انداز اور اپنے طریقے اور اپنے تجربوں کے تناظر میںسمجھ سکتا ہے ۔ کشمیر میں پایا جانے والا چنار اپنی قدوقامت اور جمالیاتی حسن سے مالا مال ہے یہ پیڑشدید گرمی میں بھی اپنے سائے تلے ایسی ٹھنڈک سے نوازتا ہے کہ انسان پنکھے (Fan) کو بھول جاتا ہے اس کے سرسبز پتے نہایت ہی خوشنما اور جازب نظر ہوتے ہیں یہ پتے خزاں کے موسم میں سرخ ہوجاتے ہیں دُور سے دکھائی دینے والا چنار خزاں کے موسم میں ایسا لگتا ہے جیسے آگ نے اس پیٹر کو اپنی آغوش میں لے لیا ہو اور یہ جلتا ہوا دکھائی دیتا ہے علامہ اقبال ؒ بھی اس پیٹر کی دلاویزی سے متاثر ہو کر فرماتے ہیں ۔
جس خاک کے ضمیر میں ہو آتش چنار
 
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند
  تو حکیم منظور کی سرزمین سے تعلق رکھنے والا یہ پیٹر شعر کے قالب میں ایسے ڈل جاتا ہے کہ اس میں کشمیر کے تواریخی اور ثقافتی آثار بھی اپنی جگہ پانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔
دھواں کہیں سے اٹھے میں سوچوں بلا ہے کوئی چنار میرا
 
یہ خوف میراث میں ملا ہے یہی ہے اب اعتبار میرا
تیری منزل جب نہیں میرے سفیدے یا چنار 
 
مجھ سے کیا مطلب ترا اے کوہ پر لکھے سحاب 
چنار آنگن میں سرمئی دن ، شفق نظر میں خمار سارا
 
عجیب منظر تمام تر شک کبھی کبھی اعتبار سارا
ان اشعار میں حکیم منظور کی اپنی سرزمین اور اس سرزمین سے تعلق رکھنے والی ہر شئے پورے آب و تاب کے ساتھ معنی کے نئے امکانات روشن کر رہے ہیں ۔ جن میں اس سرزمین کے حالات کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے اور قومی شعور کی عکاسی بھی ملتی ہے اور نئی تراکیب کا استعمال جیسے چنار آنگن، سرمئی دن ، شفق نظر اپنی تازگی کی اپنی مثال آپ ہے ۔ حکیم منظوریہاں ہی بس نہیں کرتے ،بلکہ کشمیر کے اخروٹ ، سفیدے ، سیب، جنگل ، کھیت ، دھان ، صنوبر ان کے شعروں میں اپنے حسن کی تمام تر نزاکتوں کے ساتھ جگہ پا چکے ہیں ۔ حکیم منظور کبھی کبھی پیٹر کے روح میں روح بنکر اترتے ہیں اور شاخ شاخ اور ثمر ثمر بن کر باتیں کرتے ہیں واقعی شاعر کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی پیٹر کو باتیں کرواتا ہے کبھی جنگل کو ، کبھی ہوا کو ، اور کبھی کسی بے جان چیز کو ۔ یہ شعر دیکھئے 
میں شاخ شاخ اس کو جانتا ہوں ، ثمر ثمر تازہ لذتوں تک 
 
میں ایک موسم سا اس کو چاہوں بدن کی ساری حرارتوں تک
یہاںشاعر بلا واستہ Directly بات نہیں کرتا ، بلکہ اپنی بات کو نہایت ہی خوبصورت انداز اور سلیقہ عطا کرکے اپنا مافی الضمیر ظاہر کرتا ہے اپنی بات بیان کرتے وقت وہ جن الفاظ کو استعمال میں لاتا ہے ان میں اپنا ماحول ، اپنا معاشرہ ، موسم ، قوم ، قبیلے یا معاشرے کی ذہنی سطح intelectual level خود بخود قاری کے سامنے مترشح ہوئی ہیں۔
تمہاری آموں پر کیا گذرتی ہے جانتا ہوں 
 
لہو ہیں اخروٹ میرے ، موسم کی سازشوں سے
اس سرے سے اُس سرے تک مختلف رنگوں کا جھمگٹ 
 
سیب اس بازار میں اپنی نشانی چاہتا ہوں 
دھان کے کھیتوں کا سب سونا کس نے چرایا کون کہے
 
بے موسم بے فصل ابھی تک اس اظہار کی دھرتی ہے 
بکے ہیں کس لئے اخرو ٹ میرے سنگ کے بھاو
 
بس ایک بات ، فقط یہ میں پختہ کار نہ تھا
ہر صنوبر پر شفق فریاد لکھی جائے گی
 
برف قلموں سے نئی روداد لکھی جائے گی 
یہاں حکیم صاحب شاخ ، ثمر اور موسم کو استعاراتی تناظر میں پیش کرکے قاری کو عالم حیرت میں پہنچا دیتا ہے ۔ ثمر ، شاخ ، موسم اور بدن کا جو رشتہ باندھا گیا ہے وہ کتنا مضبوط ہے۔ اس شعر کا ایک ایک لفظ اس بات کی عکاسی کرتا ہے اس شعر میںاگر ایک لفظ باہر نکلا جائے تو شعر کا وجود ہی ختم ہو جائے گا اس لئے اس شعر کی نامیاتی وحدت قابل دید ہے ۔ یہاں شاعر نے تازہ لذتوں اور بدن کی حرارتوں کا ذکر کیا ہے قاری یہ شعرپڑھتے پڑھتے اور سمجھنے کے دوران ان چیزوں کو محسوس بھی کرتا ہے اور چاہت کا جذبہ پروان چڑھتا ہوا دیکھتا ہے ۔ کشمیر ی گلاب ، پورے عالم کے گلاب کے پھولوں میں اپنی انفرادی شان کی وجہ سے مشہور ہے ۔ اس کی خوشبو، انگ انگ اور طرفین کو معطر کر دیتی ہے اسکی رنگت دلبربا اور دلنشین ہے یہ دوائیوں میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اسکی صورت اور خوشبو کس کو متاثر نہیں کرتی بلکہ کشمیر کے ہر شاعرنے گلاب کو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے شعر میں ضرور ڈالا ہوگا اور اسکی صورت کو محبوب کی صورت سے تعبیر کیا ہوگا حکیم منظور گلاب کو لفظوں کا جامہ پہنا کر منفرد انداز میں شاعری میں جگہ تلاش کرتا ہے ۔
جس کی خوشبو سے نو آسودہ ہوتے ہیں گلاب 
 
میرے بستی پر ابھی جاگا نہیں وہ آفتاب 
زمین جب تک نہ اپنا حصہ ادا کرے گی 
 
گلاب کھلتے نہیں ہوا کی سفارشوں سے
اس دوسرے شعر میں گلاب اور زمین کا رشتہ جس طریقے سے باندھا گیا ہے وہ نہایت ہی دلاویز ہے اور اس حقیقت کا واشگاف اعلان ہے کہ ہوائیں کتنی بھی خوشگوار کیوں نہ ہوں اگر زمین زرخیز نہ ہوگی تو زمین میں گلاب بھی نہیں کھل سکتے۔ ایک انسان اپنے قوم اپنے ملک کے لئے تب تک روشن ستارہ نہیں بن سکتا جب تک نہ ماں باپ اور خاندان یا گھریلو تربیت اس میں شامل نہ ہو ۔ یا جب تک نہ قدرتی طور اسے ایسا ماحول نہ ملا ہو جس میں مشاہدہ اور تجربہ اسے حاصل نہ ہو ۔ تب جا کر وہ قوم کے لئے اولی العزم شخصیت کے روپ میںسامنے آجاتا ہے۔ اسکے لئے اسے بڑی بڑی سفارشوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بلکہ سفارشیں تو نااہل لوگوں کے لئے ہوتی ہیں ۔ جو اپنی نا اہلیت کی وجہ سے حاکم بن کر ملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیتے ہیں ۔
برف ایک ایسی نعمت ہے جو بنجر زمینوں کو سرسبز و شاداب بنا دیتی ہے برف جو ظاہر میں ٹھنڈی ہوتی ہے لیکن فطری طور یہ گرم ہے برف جب گرتی ہے تو دلفریب نظارہ آنکھوں کو دیکھنے کے لئے ملتا ہے ۔پہاڑوں کی برف پوش چوٹیاں بہار کے موسم میں اور بھی حسیں ہوجاتی ہیں ۔جاڑے کے موسم میں زمین جب برف کی سفید تہہ سے شرابور ہوتی ہے تو سفید سفید روئی کے گالے پیڑوں پر لٹکتے ملتے ہیں مکانوں کی چھتوں پر برف کے گالوں کا نظارہ دیکھتے ہی بنتا ہے یہی برف زمین کی ذرخیزی کی علمبردار ہے اسی سے ندی نالوں ،دریاوئں میں آبشار بجتے ہیں اور گلیشیر تو سال بھر ہمارے کھیت کھلیانوں کو سیراب کرتے رہتے ہیں بستیوں اور انسانوں کو پانی کی دولت فراہم کرتا ہے۔یہ ہر رنگ اور ہر انداز سے خوبصورت ہے ۔حکیم منظور برف کی خوبصورتی اور اس کے نظاروں ،اسکی شفقتوں اور عنایتوں پر فدا نظر آرہا ہے۔اس کا ایک ایک شعر جن میں برف کی ذکر ہے برف کے تیئں اسکے عشق کا غماز ہے آپ بھی جانچیئے
برف سے میں نے کیاتخلیق جو آتش کدہ
 
اور کچھ ہو نہ ہو وہ میرے شہہ پاروں میں ہے
کیا سبھی اشجار برفوں میں جلائے جا چکے ہیں
تازہ دم نمکین چائے کانگڑی ہنستی ہوئی 
 
یہ نگر پہلے کبھی اس طرح بے سایا نہیں تھا
برف گُل بُو پہنچے پھر مدعا کیا پوچھنا
برف رتوں کی آگ ،سخن ذاد اور برف آفتاب تین ایسے شعری مجموعے ہیں جو حکیم منظور کا برف کے تئیں عشق کی دلیل ہیں ۔
مرا بس چلے برف زاروں کے بیچ
 
بنائوں میں کوئی مکاں دھوپ کا
قاضی غلام محمد مرحوم اس شعر کے بارے میں رقم طراز ہیں۔
’’انسان اپنے حال سے کبھی مطمعن نہیں رہتا۔ جاڈے کے سرد ایام میں دھوپ کی آرزو اور گرمی کے موسم میں برف زاروں اور جاڑے کی یاد’’ناطقہ سربہ گریباں کہ اسے کیا کہے‘‘ اس شعر میں اپنی متفاد اور مکالف ذہنی کیفیتوں یک جاکرکے ایک خوبصورت شاعرانہ حل پیش کیا گیا ہے برف زارمیں دھوپ کا مکان بنانے کی آرزو، عہدطفلی سے دل کے کسی گوشے میں جاگزیں تھی، اسباب و علل کی رو سے اس کی تعمیر غیر ممکن ہے لیکن شاعری اور خواب میں وہ سب کچھ ممکن ہے جو ویسے غیر ممکن ہے شعر کا پہلا مصرعہ صورت پزیر ہوسکتا ہے اس لئے کہ یہ مصور کی دسترس میں ہے لیکن دوسرامصرعہ ماورااسے مصوری یا مجسمہ سازی ہے یہ شعر الفاظ کے روپ میں تکمیل آرزو کی تجسم ہے۔‘‘
(قاضی غلام محمد مرحوم،سابق صدر شعبہ ریاضی کشمیر یونیورسٹی)
کچھ اور شعر برف کے حوالے ملاخط فرمائیں 
چھپا کے خود کو کہیں رکھ نہ پائے گی خوشبو
 
کہ برف جب بھی گرے مجھ تک آئیگی خوشبو
سنی میں نے جب بھی صدا برف کی 
 
سوالوں نے پہنی ردا برف کی
تمہارے جوابوں میں سورج کا رنگ 
 
میرے خط کی ساری فضا برف کی
نواکس کی؟ میں نے زمین لکھ دیا
 
ادا کس کی ؟ اُس نے کہا برف کی
دُعا : میرا جہلم نہ سوکھے کبھی 
 
دُعا: برف کی ہے دعا برف کی
گلہ برف کا کس زباں سے کریں 
 
ہمیں نے تھی مانگی دعابرف کی
بہ مدح وفااتنا منظور لکھ  
 
وفا اور وہ بھی وفا برف کی
 قرطاس گل مرگ پہ جب بھی ، سوچا اک منظر لکھوں 
 
یا بارش ہی بارش برسی یا پھر خالی برف گری
برف زاروں ، برفیلی نظاروں سے بے پناہ محبت کرنے والے حکیم منظور کے جنازے میں ، میں خود بھی شامل تھا اور جب انھیں دفنایا جارہا تھا تو ہلکی ہلکی برف باری ہورہی تھی کیسی اتفاق کی بات ہے،
برف ہماری دھرتی کوتازگی ، شفافیت اور پاکیزگی عطا کرتی ہے اس کی اسی تازگی ، شفافیت اور پاکیزگی سے حکیم منظور متاثر تھے انھوں نے برف کی متعلق انگنت زاویوں سے سوچا ہے سمجھا ہے تب جا کے اس کے تین شعری مجموعے برف زاروں ، برفیلی ہوائوں ،برفیلی فضائوں اور دھوپ میں برف کی چمک اس کا دلکش نظارہ اور برفیلے پہاڑوں کے نظاروں سے متاثر ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں ۔ 
 
رابطہ؛(بٹہ پورہ لنگیٹ کشمیر)09906641176
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

لورن میں آسمانی بجلی گرنے سے 10بھیڑیں ہلاک
پیر پنچال
بغیر اجازت انشورنس کٹوتی و صارفین کیساتھ مبینہ غیر اخلاقی رویہ بدھل میں جموں و کشمیر بینک برانچ ہیڈ کے خلاف لوگوں کاشدیداحتجاج
پیر پنچال
انڈر 17کھیل مقابلوں میں شاندار کارکردگی | ہائرسیکنڈری اسکول منڈی نے کامیاب کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی
پیر پنچال
نوشہرہ سب ڈویژن میں پانی کی شدید قلت،لوگ محکمہ کیخلاف سراپا احتجاج شیر مکڑی کے لوگوں نے ایگزیکٹیو انجینئر کے سامنے شکایت درج کروائی
پیر پنچال

Related

کالممضامین

سیدالسّادات حضرت میرسید علی ہمدانی ؒ ولی اللہ

June 2, 2025
کالممضامین

شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ کا عرسِ مبارک | الہامی نگرانی اور احتساب کی ایک روحانی یاد دہانی عرس امیر کبیرؒ

June 2, 2025
کالممضامین

شام میں ایک نئی صبح ندائے حق

June 1, 2025
کالممضامین

تمباکو نوشی مضرِ صحت ،آگہی کے ساتھ قانونی کاروائی کی ضرورت سالانہ ایک کروڑافراد لقمۂ اجل اوربے شمار مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں

June 1, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?