گویا اس انسان کی زندگی ادھوری ہے جسے غم سے پالا نہ پڑا ہو۔ انسانی شخصیت کے تکامل میں مصائب و مشکلات اور درد و تکلیف کا ایک اہم عمل دخل ہے بلکہ جو جس قدر کامل تر شخصیت ہوگی، اس نے اتنی ہی آزمائشیں اور آلام و مصائب جھیلے ہوں گے۔تاریخِ انسانیت اس حقیقت کی گواہ ہے کہ اکثر و بیشتر عظیم اور برگزیدہ انسان گوناگوں مشکلوں اور سختیوں سے نبرد آزما ہوئے۔انہیں کافی ستایا گیااور اس لحاظ سے انہیں زندگی بھر غم سے ایک گہرا تعلق رہا۔ انہوں نے اس غم کو متاعِ زندگی سمجھ کر سینے سے لگا کر رکھاکیونکہ اس کے بغیر ان کی کاملیت ناممکن تھی ؎
ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں
جو خزاں نادیدہ ہو بلبل وہ بلبل ہی نہیں
آرزو کے خون سے رنگین ہے دل کی داستان
نغمۂ انسانیت کامل نہیں غیر از فغاں
حادثاتِ غم سے ہے انسان کی فطرت کو کمال
غازہ ہے آئینہ ٔ دل کے لئے گردِ ملال
انسان کی زندگی کا ایک اہم اورسنہرا دور جوانی کا دور ہوتا ہے ۔ دورِ شباب ہی وہ تقدیر ساز دور ہے جس میںلوحِ حیات پر ایک انسان اپنی کامیابی یا ناکامی کا عنوان لکھ دیتا ہے۔عمومی نظریہ کے مطابق جوانی مستی ومسرت اور عیش و عشرت کی زندہ علامت ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ جب اس دورِ میںکیف و سرور کی چاشنی سے ایک فردِ بشرلطف اندوز نہ ہوجائے تو پھر اس کا جینا بے کار ہے۔ مگر علامہ اقبال یہاں بھی عمومی نظریہ سے ہٹ کر ایک خاص اندازِ فکر رکھتے ہیں۔ وہ عیش کوشی اور تن آسانی کو جوانوں کے لئے جواں مرگی کے مترادف قرار دیتے ہیں۔علامہ’’ شکوہ ِ خسروی‘‘ کے بجائے ’’زورِ حیدریؑ‘‘ اور استغنائے سلمانیؓ‘‘جیسی صفات سے قوم کے جوانوں کو متصف دیکھنا چاہتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے یہ صفتیں لذت اندوزی سے نہیں بلکہ ’’صحرا نوردی‘‘ اور’’ سخت کوشی ‘‘ کی راہ میں گامزن ہو کر ہی حاصل ہوتی ہیں۔اس لئے علامہ اقبال ؒ ملت کے نوجوان کے متعلق ہر خاص و عام کی طرح بارگاہِ خداوندی میں دست بدعا ہو کر یہ دعا نہیں مانگتے کہ پروردگار انہیں ہر قسم کے غم و الم اور مشکل و مصیبت سے دور رکھے بلکہ اقبالؒ اسے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ؎
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
کیونکہ عیش و طرب ایک نوجواں کو فکر ِدوش و فرداسے غافل کر دیتا ہے اور نتیجتاً دور اندیشی کا ملکہ ماند پڑھ جاتا ہے ۔ سنجیدگی و متانت رخصت ہوتی ہے۔کچھ کر گزرنے کی چاہ آہستہ آہستہ معدوم ہو جاتی ہے۔ہمدردی اور دلسوزی کے جذبے کو عیش کوشی سر ابھارنے نہیں دیتی۔جذبۂ ایثار خود غرضی کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچار ہوجاتا ہے۔نفس پرستی ،خداجوئی کی راہ میں سد ِاہ بن جاتی ہے۔اسی لئے لازمی ہے کہ ایک نو جوان کسی نہ کسی صورت غم و الم سے دو بدو ہو ؎
غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطف ِخواب سے
ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے
طائرِ دل کے لئے غم شہپرِ پرواز ہے
راز ہے انساں کا دل ،غم انکشافِ راز ہے
غم نہیں غم ، روح کا اک نغمۂ خاموش ہے
جو سرودِ بربطِ ہستی سے ہم آغوش ہے
دردمندی اور غمخواری ایک ایسی صفت ہے کہ بیداری کی نشانی ہے ۔ بالفاظ دیگر جو نوجوان دردمند نہ ہو گویا وہ خوابِ غفلت کا شکار ہے ۔ علامہ اقبال کے روحانی پیر و مرشد مولانا رومی نے اسی نکتے کو اپنے خاص لب و لہجے میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے ع
ہر کہ او بیدارتر پر دردتر
یعنی حقیقی بیداری انسان کو دیگر مخلوق ِ خدا کے تئیں ہمدردی عطا کرتی ہے۔اور اس بیدار کے لئے صاحبِ درد ہونا نہایت ہی لازمی ہے۔نیز صاحبِ درد وہی ہو سکتا ہے کہ جس نے دکھ اور درد کا مزہ چکھا ہو۔زیر ِبحث نظم کے اگلے بند میں علامہ اقبال ؒ اس شخص کی حرمان نصیبی اور کم مائیگی کا برملا اظہار کرتے ہے کہ جو’’ شرابِ عیش و عشرت‘‘ پی کر ہمیشہ مست و مگن رہا،جس کے دل پر غم کی چوٹ نہ پڑ ی ہو، اس نے زندگی گزار کر بھی حقیقتاً زندگی کا مزہ چکھا ہی نہیں۔ دیدۂ گریاں ہی حقیقت میں دیدۂ انسان ہے ۔ وہ آنکھ کسی پتھر کے تراشے ہوئے بُت کی آنکھ سے بھی بد تر ہے جو کبھی آنسوؤ ں سے لبریز نہ ہوئی ہو ؎
شام جس کی آشنائے نالۂ’’یارب‘‘ نہیں
جلوہ پیرا جسکی شب میں اشک کے کوکب نہیں
جس کا جام ِ دل شکست ِغم سے ہے نا آشنا
جو سدا مست ِ شرابِ عیش و عشرت ہی رہا
ہاتھ میں جس گلچیں کا ہے محفوظ نوکِ خار سے
عشق جس کا بے خبر ہے ھجر کے آزار سے
کلفت ِغم گر چہ اس کے روزوشب سے دور ہے
زندگی کا راز اس کی آنکھ سے مستور ہے
اے کہ نظم ِدہر کا ادراک ہے حاصل تجھے
کیوں نہ آساں ہو غم و اندہ کی منزل مجھے
حاصل ِ بحث یہ کہ علامہ اقبال ؒ نہ صرف غم کوفطرت کے عین مطابق سمجھتے ہیں بلکہ اس کی اہمیت و افادیت کے بھی حد درجہ قائل ہیں۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جس طرح وہ حیات و کائنات کے حوالے سے اپنا ایک خاص فلسفہ رکھتے ہیں اسی طرح ان کا فلسفہ ٔ غم دیگر شعراء سے بہت حد تک مختلف ہیں۔ ان کے دل میں بھی حزن و ملال کی کیفیت مستقل سکونت رکھتی ہے اور ان کی آنکھیں بھی اکثر و بیشتر اشک بار رہیں لیکن اس حزن و ملال اور اشک ریزی کی ایک مخصوص علت تھی ۔ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ ہر قسم کا رنج و غم آ کے دلِ اقبال میں ڈھیرا جمائے کیوں انہوں نے ہمیشہ اس غم کو گلے لگایا جو اس کی شخصیت اور مقصدیت کے شایانِ شان تھا ۔وہ خالق ِ رنج و مسرت سے مخاطب ہو کر دعا گو ہیں ؎
من از غم نمی ترسم ولیکن
مدہ آں غم کہ شایانِ دل نیست
ترجمہ:میں غم سے خوف زدہ نہیں ہوںمگر وہ غم نہ دے جو دل کے شایانِ شان نہ ہو۔
cell : 9596465551
email: [email protected]