بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے منگل کو ایک ڈرامائی پیش رفت کے تحت محبوبہ مفتی سربراہی والی مخلوط حکومت کی حمایت واپس لینے کے اعلان اور محبوبہ مفتی کی جانب سے استعفیٰ پیش کئے جانے کے بعد ریاست جموں وکشمیر ایک بار پھر گورنر راج کی زد میں آچکی ہے ۔گوکہ جمہوری نظام میںآئینی یا سیاسی بحران کے پیش نظر گورنر راج کے نفاذ میںکوئی حرج نہیں ہے تاہم ایسے نظام کو استحسان کی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا ہے اور یہ عین مجبوری کی حالت میں قلیل مدت کے لئے ایک عارضی انتظام ہوتا ہے ۔جموں وکشمیر میں گورنر راج کا تازہ دور ایک ایسے وقت شروع ہوا جب ریاست خاص کر وادی ایک نازک دور سے گزر رہی ہے اور صورتحال انتہائی مخدوش بنی ہوئی ہے۔گوکہ رمضان سیز فائر کے بڑے چرچے ہوئے تاہم اگر اعدادوشمار پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پر تشدد واقعات کے تعلق سے رمضان کا مہینہ کسی بھی طرح پر امن نہیںرہا اور اس ماہ کے دوران تشدد کے گراف میں اضافہ ہی ہوا ۔اس کے بعد جب نام نہاد یک طرفہ جنگ بندی کا خاتمہ ہوا تو شہری و عسکری ہلاکتوں میں تیزی آنے لگی ہے ۔اس صورتحال میں بی جے پی کی جانب سے حکومت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ اور اس ضمن میں پیش کی گئی تاویلات کئی سوالات کو جنم دیتی ہیں۔حکومت سے حمایت واپس لینے کیلئے یہ عذر پیش کیاگیا کہ پی ڈی پی حکومت ریاست ،خاص کر کشمیر ،کے حالات کو بہتری کی جانب گامزن کرانے میں ناکام ہوگئی اور وادی میں نہ صرف عسکری گراف میں اضافہ ہوگیا بلکہ شدت پسندی کا رجحان بدستور فروغ پارہا ہے جبکہ جموں اور لداخ کے ساتھ استحصال کی پرانی کہانی پھر دہرائی گئی ۔اب اگر بی جے پی کے دلائل کو حقیقت مان بھی لیا جائے تو کیا اُن سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ جس حکومت پر آپ ناکامی کا الزام عائد کررہے ہیں،کیا آپ اس حکومت کا حصہ نہیں تھے ؟۔اگر محبوبہ مفتی عسکریت پر قابو پانے میں ناکام ہوئی تو کیا اس کیلئے آپ بھی برابر کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔اگر جموں اور لداخ کے ساتھ استحصال ہوا تو کیا یہ آپ کا قصور نہیں ہے کیونکہ حکومت کے سبھی فیصلے آپ کی رضامندی سے لئے گئے تھے ۔بہ الفاظ دیگر بھاجپا قائدین یہ اشارہ دے رہے تھے کہ کشمیر کے معاملہ میں کسی نرمی یا مفاہمت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور طاقت کا استعمال ہی اس مسئلہ سے جڑے تمام امراض کی دوا ہے اور چونکہ مخلوط حکومت میں ایسا نہ ہوسکا تو اب گورنر راج میں ایسا کیاجائے گا اور حالات میں ٹھہرائو پیدا کیاجائے گا ۔بی جے پی قیادت اب کوئی بھی عذر پیش کرے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اس حکومت کے یہ ساڑھے تین سال کسی بھی طور مفاہمت سے عبارت نہیں رہے ہیں بلکہ اس عرصہ کے دوران آپریشن آل آئوٹ کی صورت میں ایسی جارحانہ پالیسی اپنائی گئی کہ کشمیر کی وادی ایک مستقل ماتم کدے میں تبدیل ہوگئی جہاں روز پر آشوب واقعات کی وجہ سے جنازے اٹھ رہے تھے ۔آج اگر بی جے پی کے اکابرین یہ کہہ رہے ہیں کہ مخلوط حکومت حالات کو بہتر بنانے میں ناکام ہوئی تو یہ اُن کی اپنی ناکامی ہے کیونکہ بیشتر فیصلے دلّی سے ہی لئے جاتے تھے ۔اس میں بی جے پی کیلئے بھی پیغام ہے کہ طاقت کا استعمال کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے اور جارحانہ پالیسی اپنا کر آپ نے کشمیر میں کوئی معرکہ سر نہیں کیا بلکہ بقول آپ کے آپ ناکام ہوگئے ۔جہاں تک پی ڈی پی کا تعلق ہے تو محبوبہ مفتی نے ریاست کی خصوصی پوزیشن کے دفاع سے لیکر یکطرفہ جنگ بندی ،مذاکرات کی پیشکش اور سنگ بازی میں ملوث نوجوانوں کے خلاف کیس واپس لینے کو کامیابی قرار دیا تاہم اُن کے یہ دعوے بھی حقیقت سے بعید ہیں ۔اُن کا یہ دور ریاستی تاریخ میں بدترین ظلم و ستم سے عبارت رہا اور آج اگر وہ چند چیزوں کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے تو یہ اُن کا کیا دھرا نہیں تھا بلکہ یہ چند اقدامات مرکزی سرکار کی جانب سے دنیشور شرما کی تعیناتی کے بعد براہ راست کئے گئے تھے اور وقت نے ثابت کردیا کہ یہ بھی دکھا وے کے سوا کچھ نہ تھے ۔حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ حکومت کے خاتمے پر کریڈٹ گیم کا جو نیا کھیل شروع کیاگیا ہے ،وہ ایک پلاٹ کا حصہ ہے جس کے تحت کشمیر کارڈ کا استعمال کرکے حسب روایت ملکی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں تاکہ اپنا الو سیدھا کیاجاسکے تاہم یہ سب غالباً اتنا آسان نہیں ہے اور کشمیر کو لیکر جس انداز کی سیاست کرنا اپنے حکمرانوں کا شیوہ بن گیا ہے ،وہ انتہائی خطرناک ہے ۔اس کے قطعی حوصلہ افزاء نتائج برآمد نہیں ہوسکتے ہیں ۔وقت کا تقاضا ہے کہ معاملہ فہمی سے کام لیکر کشمیر جیسے حساس مسئلہ پر سیاست کرنے سے اجتناب کیاجائے اور الیکشن فوائد کی عینک سے دیکھنے کی بجائے کشمیر کو خالصتاً ایک انسانی مسئلہ کے طور دیکھا جائے تاکہ اس کا کوئی حل نکالا جاسکے ورنہ جس پالیسی پر حکمران فی الوقت عمل پیرا ہیں یا مستقبل میں عمل پیرا ہونے کے اشارے دئے جارہے ہیں،اس کے نتیجہ میں کشمیر میں بیزاری کی لہر مزید سخت ہوسکتی ہے جو کسی بھی طرح بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔