بدھ کو جب ریاستی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے وادی کی مخدوش صورتحال کے پس منظر میں ایک کل جماعتی میٹنگ بلائی تھی تو یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ کم از کم اس بار ہند نواز سیاسی خیمہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر وادی کو اس گھمبیر صورتحال سے باہر نکالنے کیلئے کوئی متفقہ لائحہ عمل اپنائے گاتاہم جس کا ڈر تھا ،وہیں ہوا ۔بی جے پی نے حسب روایت کل جماعتی اجلاس کے متفقہ فیصلہ جات کو ویٹو کردیا اور یوں اس سارے عمل کی ہوا ہی نکل گئی ۔اجلاس میں بقول وزیر اعلیٰ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مرکز ی حکومت کو رمضا ن کے مقدس مہینہ اور امر ناتھ یاترا کے پیش نظر یکطرفہ جنگ بندی کیلئے قائل کرنے کی کوشش کی جائے اور اس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ ایک کل جماعتی وفد دلّی جائے گا جو وہاں وزیراعظم سے ملاقی ہوگا اور انہیں ان متفقہ مطالبات سے آگاہ کرنے کے علاوہ اُن پر زور دے گا کہ وہ ریاست کو موجود ہ اندوہناک صورتحال سے باہر نکالنے کے لئے اعتماد سازی کے اقدامات کا اعلان کریں ۔وزیراعلیٰ کے مطابق میٹنگ میں ایجنڈا آف الائنس بھی زیر بحث آیا تھا اور اس کی عدم عمل آوری پر تشویش ظاہر کی گئی تھی ۔بادی النظر میں یہ سبھی اقدامات کسی بھی زاویہ سے نہ توملکی مفادات کے خلاف ہیں اور نہ ہی ان سے بی جے پی کا قدو کاٹھ گھٹ جاتا۔جہاں تک یکطرفہ جنگ بندی کا تعلق ہے تو یہ ایک معقول تجویز تھی کیونکہ ا سکے نتیجہ میں نہ صرف ریاستی عوام کو فوری راحت مل جاتی بلکہ ایک سیاسی عمل کے احیاء و آغاز کا موقعہ بھی فراہم ہوتا ۔فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ کشمیر میں سیاسی مکانیت مزاحمتی خیمہ کیلئے مسدود تو کرہی دی گئی ہے تاہم مین سٹریم کیلئے بھی سیاسی طو ر پر سرگرم رہناجوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے اور عملاً ایک خلاء پیدا ہوگیا ہےجس کی وجہ سے عسکریت کو مکانیت مل رہی ہے۔اگر جنگ بندی کی جاتی تو اس کے ثمرات زمینی سطح پر ہند نواز طبقہ کو ہی ملتے اور انہیں تھوڑا پیر پسارنے کا موقعہ مل جاتا تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے بی جے پی کو کشمیر کی پر امن فضا شاید راس نہیں آرہی ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بی جے پی کا ریاستی یونٹ کل جماعتی اجلاس کی ان متفقہ تجاویز کو پہلے ہی مرحلہ پر ویٹو نہ کرتا ۔بی جے پی کا استدلال ہےکہ فی الوقت عسکریت پسند دبائو میں ہیں اور فورسز کی انتھک کاوشوں کی وجہ سے ان کیلئے زمین تنگ ہوچکی ہے اور جنگ بندی کا اعلان انہیں دوبارہ اُبھرنے کا موقعہ فراہم کرے گا ،جس سے بی جے پی اتفاق نہیں رکھتی ہے ۔حد تو یہ ہے کہ بی جے پی نے کل جماعتی اجلاس کی تجاویز سے دوری اختیار کی اور کہا کہ وہ ا سکے ساتھ نہیں ہیں بلکہ بقول ان کے دو سو عسکریت پسندیا سنگ باز حاوی نہیں ہوسکتے اور انہیں آپریشن آل آئوٹ کے ذریعے ختم کرنا ہی مسئلہ کا حل ہے ۔بی جے پی شاید آمدہ جنرل الیکشن کو دھیان میں رکھتے ہوئے اس طرح کے جارحانہ اظہار عملسے کام لے رہی ہے ورنہ درون خانہ وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ محض دو سو عسکریت پسندوںکا سوال نہیں ہے بلکہ یہاں ایک غالب جذبہ موجود ہے جو فوجی طاقت کے بل پر دبایا نہیںجاسکتا ہے ۔اگر آپریشن آل آئوٹ ہی حل ہوتا توگزشتہ برس بھی کہا گیا تھا کہ وادی میں اڑھائی سو عسکریت پسند موجود ہیں جن میں سے دو سو سے زائد عسکریت پسند مارے گئے لیکن آج پھر یہی کہا جارہا ہے کہ سرگرم عسکریت پسندوںکی تعداد تین سو کے قریب ہے ۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کو مارنا مسئلہ کا حل نہیں ہے اور جتنے عسکریت پسند مارے جائیں گے ،اتنے ہی نئے عسکریت پسند پیدا ہوسکتے ہیں اور اب تو جس طرح موجودہ صورتحال میں لوگوں کی ایک قابل لحاظ تعداد عسکریت سے ہم آہنگ ہونے لگی ہے،وہ ایک خطرے کی گھنٹی سے کچھ کم نہیں۔ طاقت کسی مسئلہ کا حل نہیںہے اور شاید وزیراعلیٰ اس حقیقت کو سمجھ چکی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ مفاہمت پر زور دے رہی ہیں لیکن جس طرح ان کا اتحادی بی جے پی بار بار ان کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے ،اُس سے تو وزیراعلیٰ کے عہدے کی افادیت ہی ختم ہوکر رہ گئی ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیراعلیٰ کے اعلانات کو بار بار بی جے پی کی جانب سے ویٹو نہیں کیاجاتا۔یہاں اب یہ معمول بن چکا ہے کہ پی ڈ ی پی یا وزیراعلیٰ اگر کشمیر مسئلہ کے حوالے سے کوئی بات کرتے ہیں تو بی جے پی کی جانب سے فور ی طور انہیں ٹوکا جاتا ہے ۔اگر صورتحال ایسی ہے تو پھرا س اتحادکا فائدہ ہی کیا ہے؟ایسا لگ رہاہے کہ یہ دو اتحادی دو متوازی راہوں کے مسافر ہیں اور ان کی منزلیں جدا جدا ہیں ۔جب کوئی میل جول ہی نہ ہو تو جبری شادی کو قائم رکھنے کا کیا جواز باقی رہتا ہے ؟۔وزیراعلیٰ کو چاہئے کہ وہ اپنے عہدے کا تقدس بحال کرنے کیلئے اپنی رٹ منوائیں اور بی جے پی کے جارحانہ عزائم پر قدغن لگائیں کیونکہ موجودہ صورتحال میں وزیراعلیٰ کی کرسی کا تقدس بار بار پامال ہورہا ہے اور اس کے نتیجہ میں حکومتی نظام کی رہی سہی اعتباریت ختم ہوتی جارہی ہے، جو کوئی نیک شگون نہیں ہے ۔