جون ۲۰۱۷ء کے ’’افکار ملی‘‘ میں ایک پاکستانی صحافی خورشید ندیم کا ایک مضمون ’’حکمت یار سے خالد مشعل تک ‘‘شائع ہوا ہے۔ہمیں اس میں درج بعض باتوں سے اختلاف ہے ۔ مضمون میں ایک جگہ صاحب تحریر لکھتے ہیں ’’اگرافغانستان میں مجاہدین کی قیادت بصیرت کا مظاہرہ کرتی اور مستحکم حکومت کی بنیاد رکھتی تونائین الیون ہوتا نہ عالم اسلام برباد ہوتا۔اگر گلبدین اور دوسرے رہنما دوربین ہوتے تو آج کی دنیا کہیں زیادہ پر امن ہوتی‘‘ پچھلے چند مہینوں سے بعض صحافیوں کو عجیب قسم کا دورہ پڑا ہوا ہے ۔ابھی ایک ماہ پہلے بمبئی کے ایک اردو اخبار میں جناب افتخار گیلانی کا ایک مضمون نظر سے گزرا۔مضمون دراصل ایک برطانوی صحافی ایڈریان لیوی کا انٹرویو تھا جس میں اُس نے نائین الیون کا واقعہ بڑی ڈھٹائی سے مسلمانوں کے ہی سر ڈالا ہے ۔ بلا شبہ قوم کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس کے دشمن بے شرمی ،بے غیرتی اور زوال کی کس انتہا پر ہیںمگر ایسے جھوٹے اور بدمعاش صحافیوں کی تعریفیں کرکے انہیں اونچا اور قابل ِاعتمادثابت کرنا ہم جیسوں کے خون جلانے کا سبب ہوتا ہے ۔بلا شبہ افغان مجاہدین نے دوران ِکشمکش جس اتحاد اور فراست کا ثبوت دیا اس کا مظاہرہ اگر حالت امن میں بھی کرتے تو آج افغانستان ہی نہیں دنیا کے حالات کچھ اور ہوتے ۔یہ بھی درست کہ گلبدین حکمت یارجس لچک کا مظاہرہ آج کر رہے ہیں، روس کے افغانستان سے فرار کے بعد کے حالات میں دیگر مجاہد کمانڈروں کے ساتھ مطلوبہ لچک کا مظاہرہ انھوں نے نہیں کیا تھا مگر یہ کہنا کہ ان سب اچھی اچھی میٹھی میٹھی باتوں کی وجہ سے نائین الیون نہ ہوا ہوتا ، یہ ہمارے نزدیک غلط ہے۔ اگر کوئی کسی کی جیب سے پیسے نکالنے کی کوشش کرے تو ایسے وقت چپ رہنا شرافت ، مروت ، امن پسندی کا نہیں بزدلی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔واقف کاروں کے مطابق نائین الیون کا فیصلہ اس وقت ہو چکا تھا جب طالبان نے افغانستان کی سرزمین میں چھپی ہوئی دولت کو نکالنے کے لئے امریکی آفر کو ٹھکرادیا تھا ۔طالبان کے جواب میں امریکیوں نے کہا تھا کہ آپ کو ڈالروں کی قالین یا بموں کی قالین میں سے کسی ایک کو چننا پڑے گا ۔ افغان طالبان بڑے غیور وجسور لوگ ہیں، انہوں نے بموں کی قالین کو چنا ۔افغان طالبان کے نزدیک اہمیت اس حدیث شریف کی ہے جو کہتی ہے کہ جان ومال ،عزت وآبرو کی حفاظت میں مارا جانے والا شہید ہے۔اسی طرح عراقی صدام حسین کا معاملہ ہے ۔صدام تو امر یکہ کا اپنا آدمی تھا۔میڈیا کہتا ہے کہ اُسے کویت پر حملہ کرنے کے لئے اُکسایا گیا تھا۔عراق ،کویت اور سعودی عرب کے اس معاملے کے بہت سارے پہلو زیر حجاب ہیں۔محترم خورشید ندیم بتائیں کہ اس سے کس طرح بچا جا سکتا تھا جس نے بچنے کی کوشش کی تھی، اسے جلا وطن ہونا پڑا ،وہ در در بھٹکتا رہا اور غریب الوطنی میں ہی اللہ کو پیارا ہوا ۔اس کی موت پر بھی پُر اسراریت کا پردہ پڑا ہوا ہے۔
صاحب مضمون ایک جگہ لکھتے ہیں ’’حماس کے کسی رہنما کا یہ پہلا دورۂ مصر ہے ،یہ پیش رفت بتا رہی ہے کہ حماس بھی اب سیاسی جد و جہد کا رُخ کر رہی ہے ‘‘اگر حماس اب سیاسی جد وجہد کا رُخ کر رہی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۲۰۰۶ء کے آغازمیں اس نے کیا کیا تھا؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کی سیاسی جدو جہد کے نتائج کو برداشت کیوں نہیں کیا جاتا؟جب سیاسی اور پرامن جدو جہد کے پھل بھی نہ ملیں تو پھر انھیں کیا کرنا چاہئے؟مسجد میں بیٹھ کر وظیفے پڑھنے چاہیے یا فرشتوں کے نزول کا انتظار کرنا چاہئے؟آخرمیں محترم ندیم صاحب کہتے ہیں کہ اب دنیا میں عسکری جد و جہد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ یہ اُس وقت کہہ رہے ہیں جب ابھی چند سالوں پہلے امریکہ کے صدر نے مسلمانوں کو صلیبی جنگوں کی بھولی ہوئی تاریخ یاد دلائی تھی ۔ عسکریت کا دروازہ جناب خورشید نے شاید مسلمانوں کے لئے بند کیا ہے صلیبی قوتوں کے لئے نہیں ۔انہیں توسات خون معاف ہیں۔موصوف کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی عسکریت کے نتیجے میں صرف فساد برپا ہو تا ہے ،اسی لئے قائد اعظم محمد علی جناح نے سیاسی جد وجہد کا راستہ اپنایا تھا اور ایک جان قربان کئے بغیر آزادی دلوائی ۔محترم کے ان خیالات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ گاندھی جی کے اس فلسفہ ٔعدم تشدد کے پیروکار ہیں جسے آج خود ان کی قوم ٹھوکروں میںاُڑا رہی ہے۔جناب خورشید کو جاننا چاہیے کہ واقعات کے پیچھے کارفرما عوامل نظر نہیں آتے مگر واقعات کے وقوع پذیر ہونے میں ان کا بڑا حصہ ہوتاہے۔آزادی کبھی تھالیوں میں سجا کر پیش نہیں کی جاتی ۔آزادی کے نوشتے قوم کے جوان اپنے خون سے لکھتے ہیںمگر نام سیاسی لیڈروں کا ہوتا ہے ۔اگر آزادی کے متوالے اپنی جانوں کی قربانی نہ دیں تو سامراج سیاسی لیڈروں کو کوڑیوں کے مول نہ پوچھے۔ ہندوپاک کی آزادی کے تعلق سے اہل دانش و بینش کی رائے ہے کہ یہ ہمیں گاندھی نہرویا جناح کی سیاسی جدو جہد کے طفیل نہیں ملی بلکہ دوسری جنگ عظیم کے ما بعد حالات نے اور برطانیہ کی خرابی ٔ معیشت نے برطانیہ کو اپنی نوآبادیات چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔ اگر اس وقت ہمارے ملک میں امن کی فاختائیں اُڑا کرتیں تو کون بے وقوف اپنے غلاموں کو چھوڑ کر جاتا ؟ جدوجہد آزادی کو دبانے کے لئے پیسے چاہئے تھے جو ا س وقت برطانیہ کے پاس نہیں تھے۔ سچ یہ ہے کہ مظلوم قوم کو یاتوہمالیہ کی کسی چوٹی پر بیٹھ کر وظیفہ خوانی کرنی چاہیے یا اپنا خون جگردے کردنیا میں امن چین کے دشمنوں کا مقابلہ کر کے انہیں شکست دینی چاہیے ۔ یہ دوالگ الگ چیزیں ہیں جن کے درمیان کوئی نقطہ ٔ اتصال نہیں ؎
میں اپنے علم کی محدودیت پہ نازاں ہوں
نہیں کچھ اور ،تری راہ کے سوا معلوم
7697376137