مرد جب کمانے کے قابل ہوتا ہے تو سہولیات اور آسائشیں گھر میں قدم رکھ دیتی ہیں، اگر کچھ نہیں تو کم از کم مشکلوں کا خاتمہ ضرور ہو جاتا ہے۔اس کے برعکس جب ایک عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو مشکلات کا آغاز تھمنے کا نام نہیں لیتیں۔آج کل بہت سی عورتیںگھر سے باہر جاکر مردوں کے برابر ہنر مندانہ طریقے سے کام کرتی ہیں ۔ کامگار خواتین مرد کے کاندھے سے کاندھا ملا کر دس سے چار تک اور کبھی اس سے بھی زیادہ وقت کام کرتی ہے۔جب کام سے واپس لوٹتی ہے تو اس کو گھر کا، بچوں کا ،گھر کے ہر فرد کا ، رشتہ داروں کا، ہمسایوں کا اس طرح خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اس کا وجود روبرٹ(ROBOT ( کی طرح ہر وقت کام کرتا رہتا ہے۔اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ ا پنے شوہر کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے جو اس کا جیون ساتھی ہو ، میاں بیوی کی جوڑی ہی اس لیے بنتی ہے کہ زندگی کے سفر میں یہ ایک دوسرے کو ہر چھوٹے بڑے کام میںساتھ دینے والے ہم سفر ہوں مگر بعض شوہر اپنے ہم سفر کا ہاتھ نہیں بٹاتے۔ یہ لوگ ذرا سا رحم توکھائیںاپنی بیویوں پر ۔ان پر اتنا بوجھ کیوںڈ الئے کہ یہ اسی کے نیچے دب کر خود ہی ٹوٹ جائیں ؟ اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہیے کہ کچھ عورتوں کے لئے اپنی بقاء کی جنگ گھر میں لڑنا زیادہ مشکل ہوتاہے بہ نسبت باہر کی دنیا میں۔اگر ایسی بدنصیب بیوی گھر میںیا اورکہیں پر victim بنائی جاتی ہے تو وہ بسااوقات شکایت کرنے میں بھی خوف زدہ رہتی ہے کیونکہ وہ جان رہی ہوتی ہے کہ ُالٹا اس کے تئیں جاہلانہ اور غیر مہذبانہ رویہ اختیار نہ کیا جائے گا۔
جہاںتک عورت کا اپنا معاش کمانے کے لئے میدان عمل میںنکلنے کا تعلق ہے تو یہ حقیقت مانی پڑے گی کہ بہت کم تعداد ان خواتین کی ہے جو شوق سے مزدوری کرتی ہیں بلکہ بہت ساری مجبوریاں،لاچاریاں اور پریشانیاں ہوتی ہیںجو ان کو گھر سے باہر محنت مزدوری کرنے پر مجبور کرتی ہیں،مثلاً موجودہ دور میں مہنگائی کی وجہ سے بھی زیادہ تر عورتیں گھر سے باہر کام کرنے پر مجبور ہیں۔اگر اوسط درجے کی آمدنی والا ایک مرد دس افراد پر مشتمل کنبے کو پالتا ہو، تو اس صورت حال میں آسائشیں تو درکنار بنیادی ضروریاتِ زندگی کی دستیابی بھی مشکل سے ہوتی ہے۔اس لئے اکثر وبیش ترگھر کی پڑھی لکھی عورتیں ، یا ہنرجاننے والی خواتین کو مردوں کی مالی مدد کے لئے گھر کی چار دیواری سے نکلنا پڑتا ہے تاکہ پورا خاندان مالی طور خوشحال ہو کر اچھی زندگی گزار سکے۔بعض اوقات عورت کے گھر سے باہرکام کرنے کی ایک یہ بھی وجہ ہوتی ہے کہ ا س کا سرپرست یا ولی نہیں ہوتا توا ُسے گھر سے باہر ملازمت اختیار کرنی پڑتی ہے۔ خاص کر کسی کسی بیوہ کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے کام کرنا پڑتا ہے۔نوجوان لڑکیوں کو جہیز کی لمبی لمبی لسٹ مکمل کرنے کے لئے مجبوراً ملازمتیں کرنی پڑتی ہیں تاکہ وہ ماں باپ پر بوجھ نہ بنیں۔ بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میںآتا ہے کہ کچھ عورتیں اپنی قابلیت کا صحیح استعمال میںلانے کیلئے گھر سے باہر آتی ہیں۔ غرض آج کی عورت دفاتر ، ہسپتالوں، اسکولوں ، پولیس محکمہ، نجی اداروں میںمحنت مزدوری کرتی نظر آتی ہیں ۔اس کا صلہ اگر عورت کو اذیتوں کی صورت میں دیا جائے تو کتنا ظلم ہے؟
عا م مشا ہدے کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت اپنی اعلیٰ صلاحیتوں اور قربانیوں کے باوجود اپنا وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیںکر پاتی جس کی وہ اصل میں حق دار ہے۔ ایک پرائیویٹ سروے کے مطابق گھریلو عورتوں کے مقابلے میں نوکر پیشہ خواتین میں ایک خاصی تعداد گھریلو تشدد کی شکار رہتی ہیں۔اس کے خاتمے پر غور وخوض کرنا معاشرے کے لئے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اگر یہ بہو بیٹیاں معاش کی ذمہ داری اپنے کندھوں پراُٹھاتی ہیں تو ان کو شاباشی دیجئے ، نہ کہ اذیتوں ، پریشانیوں اور مسائل کا مزید بوجھ اُن کے کندھوں پر ڈالئے۔ ان کے سماجی مقام و مرتبہ کو تسلیم کیجئے ،ان کے نازک احساسات کی قدر کیجئے، اُن کی زیادہ عزت افزائی کیجئے ۔ اس بنت ِحوا کی انمول خدمات اور عظیم الشان جذبات کوخراج تحسین پیش کیجئے ؎
تو فلاطون و ارسطوہے تو زہرا پرویں
تیرے قبضے میں ہے گردوں تری ٹھوکر میںزمین
ہاں اُٹھا جلد اٹھا پائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں وقت بھی رکنے کا نہیں
لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلنا ہے تجھے
اُٹھ میری جان میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
کیفی اعظمی ؔ