وہ دل دہلا دینے والی نسوانی چیخ تھی ، جس سے ہڑبڑا کر میری آنکھ کھلی تھی۔آواز میں بہت درد تھا۔ ابھی میںآوازکی سمت کا تعین کر رہا تھا کہ ایک مردانہ دھاڑتی ہوئی آواز آئی، جس سے معاملہ کچھ سمجھ میں آیا۔ آواز سامنے والے فلیٹ سے آرہی تھی، جہاں اکثر گھریلو جھگڑے ہوتے رہتے تھے لیکن اس دن معاملہ تو تکار سے بڑھ کر شاید مار پیٹ تک اتر آیا تھا، جس کا اندازہ مسلسل دردانگیز نسوانیچیخوںسے بخوبی ہو رہا تھا۔ چند لمحات کے بعد ہی آوازیں اتنی بلند ہو گئیں کہ نیچے مجمع جمع ہو گیا۔ خاتون کی آواز میں اتنا درد تھا اور وہ ’’بچاؤ بچاؤ‘‘ کی ایسی صدا لگا رہی تھی کہ میرا چھوٹا بچہ رونے لگااور میرے دل کو بھی کچھ ہونے لگا۔ میں گھر سے نکلا تو کچھ اور لوگ سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ اب تو یوں لگ رہا تھا کہ وہ جاہل شخص اپنی بیوی کو شاید مار ہی دے گا۔ ہمارے بیل بجانے پر کوئی رسپانس نہیں آیا، سوائے اس کے کہ آوازیں بتدریج کم ہوتی چلی گئیں۔ تھوڑی دیر بعد مجمع چھٹ گیا اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ شخص میرے سامنے ہو اور میں اسی بری طرح اس کو ماروں ، جس طرح وہ اپنی اہلیہ کو زودکوب کر رہا تھا۔ یہ کسی دیہات کا منظر نہیں بلکہ متمدن ومہذب کہلانے والی اپنی کالونی کے وسط میں کے ایک گھر کا منظر ہے، جس میں بظاہر ایک ماسٹر س ڈگری ہولڈر شخص رہتا ہے۔
خواتین اور بچوں پر تشدد کچھ نئی بات نہیں…. اور تشدد کرنے والے کا جاہل ہونا بھی کوئی ضروری نہیں۔ اصل فرق تربیت کا ہوتا ہے۔ جن گھروںمیں بچپن سے یہ بات بچوں کو گھول کر پلا دی جاتی ہے کہ بزرگ اور خاص طور پر عورت چاہے وہ کسی بھی روپ میں ہو، قابلِ احترام ہے، وہاں بچے بڑے ہو کر بلاتخصیص محرم نامحرم عورتوں کی عزت کرتے ہیں، لیکن جہاں تربیت میں نقص ہو، بڑے چھوٹے کی تمیز نہ سکھائی جاتی ہو، خواتین کا احترام نہ بتلایا جاتا ہو، وہاںچاہے دنیا بھر کی ڈگریاں ہوں، ایسا ہی دیکھنے سننے کو ملتا ہے، جس طرح کہ ہم اس گھر میں دیکھتے رہے۔
شاید خواتین اور بچوں پر تشدد کے واقعات مرد حضرات کے مقابلے میں اس لیے زیادہ ہوتے ہیں کہ خواتین اور بچے جسمانی اور سماجی دونوں اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں، اور کمزور کو ہر ایک بآسانی دبا لیتا ہےلیکن اس طرح کے واقعات سے ہمارے ہاں فوراً یہ نتیجہ نکال لیا جاتا ہے کہ مرد عورتوں پر تشدد کرتے ہیں۔ گہرائی میں جا کر کوئی تجزیہ کیجئے تو اکثر یہی بات سامنے آتی ہے کہ کم ازکم ہمارے ہاں عورت پر تشدد کی ذمہ دار۸۰فی صدایک عورت ہی ہوتی ہے۔ جس گھر کا میں نے ذکر کیا، اس گھر کے بارے میں پورے محلے کو معلوم تھا کہ یہاں وہی صدیوں پرانا ساس بہو کا جھگڑا تھا۔ ساس انتہائی سفاک قسم کی تھیںاور چوں کہ ان کی اپنی کوئی بیٹی نہیں تھی، اس لیے انہیں کسی کی بیٹی کا احساس بھی نہ تھا۔انہوں نے اپنے بیٹے کی جیسی تربیت کی تھی وہ تو ظاہر تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ ماں کے کہنے میں آ کر وہ بیوی کو ہی نہیں مارتا تھا بلکہ خود ماں کو بھی خوب برا بھلا کہتا تھا۔ یہ اور اس طرح کے دسیوں دوسرے واقعات سے یہ کہاوت سچ ثابت ہوتی ہے کہ مشرق میںعورت کی سب سے بڑی دشمن خود عورت ہی ہوتی ہے اور مرد کی حیثیت عام طور پر ایک معمول سے زیادہ نہیں ہوتی بلکہ اکثر کیسز میں وہ خود مظلوم ثابت ہوتا ہے۔
بہرحال وجہ جو بھی ہو، تشدد اور وہ بھی کمزوروں پر، دنیا میںجہاں بھی ہو بہت زیادہ قابل مذمت بات ہے۔ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں تشدد کی کسی نہ کسی صورت میں مبتلا ہوتی ہے۔ اس سروے میں دنیا کے کسی ملک کا نام نہیں لیا گیابلکہ علی العموم بات کی گئی ہےکیوں کہ خواتین پر تشدد ایک عالمی المیہ ہے۔ بے شک اس بزدلانہ اور قبیح فعل کے خاتمے کے لیے ہر طرح کی سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے ۔ہمیں یہ بھی اعتراف ہونا چاہیے کہ ہمارے اپنےملک اور سماج میں بھی عورتوں اور بچوں پر تشدد روارکھا جاتا ہے ۔ ہر کوئی ذی حس اور باشعور انسان چاہتا ہے کہ یہ بہیمانہ طرز عمل اورتشدد ختم ہونا چاہیے۔ بلاشبہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور مغرب تامشرق تمام ملکوں اور قوموں میں مساویانہ طورعورتوں اور بچوں پر ظلم وتشدد ہوتاہے ۔اس وقت’’می ٹو‘‘ کی جاریہ مہم سے یہی پتہ چلتا ہے کہ مغرب میں اور مغرب زدہ مشرقی معاشروں میں عورت کو زیادہ سے زیادہ جنسی کھلونا بنایا گیا ہےاور بچوں کو مفت کا مال سمجھ کر اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ البتہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ یہ شاید مسلم ممالک ہیں جہاں اس طرح کے وحشیانہ طرزعمل کا عشر عشیر بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ یورپ میں۱۴۴۸ سے۱۷۵۰کے درمیان کم از کم دو لاکھ کم نصیب عورتوں کو موت کے گھاٹ اُتار ا گیا جنہیں مارنے سے پہلے چڑیل ثابت کیا جاتا تھا۔ ان عورتوں کی کثیر تعداد بوڑھی اور غریب عورتوں پر مشتمل تھی۔ چڑیلوں کی کچھ نشانیاں مقرر کر لی گئی تھیں جیسے چہرے پہ تل یا مسہ یا کسی اور قسم کا نشان حتیٰ کہ کیڑے کے کاٹے کا نشان بھی اس میں شمار تھا۔ اس کے ساتھ اگر ان کے پاس بلی موجود ہو توپھر کیا کہنا۔ اس سلسلے میں ایک شخص جس کا ذکر خاص طور کیا جاتا ہے، اس کا نام میتھیو ہوپ کنس تھا ، پیشے سے ایک ناکام وکیل….مگر وہ ’’چڑیلوں‘‘ کو مارنے میں بہت کامیاب رہا اور ایک ایک ایک دن میں اُنیس مظلوم عورتوں کی حیات کا چراغ گل کرتا رہا۔ اسے وہاں کے مذہبی حلقوں کی حمایت حاصل تھی اور اس کے بدلے میں اسے مختلف ریاستی حاکموں کی طرف سے کثیر رقم ملتی تھی۔ تاریخ میں اس کا نام’’چڑیل کھوجی جنرل ‘‘کے طور پہ مشہور ہے۔
آج ڈھائی سو سال بعد یورپ کا حال شاید اس سے بھی بدتر ہے۔ہمارے یہاں خواتین کے چہروں پر انتقاماً تیزاب پھینکنے کے ناقابل بیان ظلم کا چلن ہے اور ان چہروں کو ہائی لائٹ کر کے آسکر ایوارڈ جیتا جاسکتا ہے تو مغرب بھی اس ظلم سے خالی نہیں۔ برطانیہ جیسے ’’روشن خیال ‘‘معاشرے میںایک ماڈل کیٹی پائپرکے چہرے پر اس لیے تیزاب پھینک دیا جاتا ہے کہ وہ ناجائز تعلق رکھنے پر تیار نہیں،اس کی سزا کے طو پر پہلے اس کے ساتھ زبردستی بدکاری کی جاتی ہے، پھر بدترین تشدد کر کے اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیاجاتا ہے۔ یہ حملہ دن کی روشنی میں لندن میں ہوا تھا ، جس سے کیٹی کی ایک آنکھ ضایع ہو گئی اور اسے علاج کے لیے تیس سے زائد بار آپریشن کے عمل سے گزرنا پڑا۔ وہ ان تیس لاکھ عورتوں میں سے ایک ہے جو ہر سال برطانیہ میں بالجبر بدکاری، گھریلو تشدد، انسانی خرید و فروخت یا کسی بھی اور طرح کے سنگین تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ فرانس میںبھی خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے ہر سال پچیس ہزار واقعات ہوتے ہیں۔امریکا بھی اس بہیمیت میں کسی سے پیچھے نہیںاور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہاں کے مادر پدر آزاد معاشرے میں عورتوں پر تشدد میں سب سے زیادہ جنسی زیادتی کا عنصر ہے۔معصوم بچوں پر تشدد بلکہ ان کے قتل و غارت میںبھی امریکاپوری دنیا میں بدنام ہے۔ وہاں شیطان کے پجاری ہر سال بیسیوں لاوارث بچوں کو اغوا کر کے شیطان کے بت کے سامنے بےدردی سے اس لیے ذبح کر دیتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شیطان سب سے زیادہ معصوم بچوں کی قربانی سے خوش ہو تا ہے۔ پچھلے چار سال میں وہاں اسکولوں میں معصوم بچوں پر بے تحاشا فائرنگ کر کے انہیں ہلاک کرنے کے بھی کئی دلدوز واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ عافیہ صدیقی کا کیس بھی کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں۔ ایک بے ضرر تعلیم یافتہ خاتون کو بے بنیاد الزام لگا کر اس کے بچوں سے الگ کر کے انتہائی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں پھر ۶۸ سال قید تنہائی کی سزا سنائی گئی۔ اس پر کسی حقوقِ نسواں کی علمبردار تنظیم نے آواز نہیں اٹھائی۔ غرض اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو دنیا کے دیگر ممالک میں ایسے دل خراش واقعا ت مسلم ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ بھارت میں دامنی نامی ایک میڈیکل طالبہ پر جنسی تشدد کا اندوہناک واقعہ پر پورا ملک سراپا ا حتاج ہو ا، اگرچہ خواتین کے خلاف یہ جنسی تشدد اور آبرو ریزی کا پہلا واقعہ نہیںتھا، بلکہ 2004ءسے 2010ءتک کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ہر سال اوسطاً آبرو ریزی کے اٹھارہ سے بائیس ہزار واقعات سرکاری طور پر درج کئے گئے۔ جو دلبرداشتہ کر نے والے واقعات کہیں رپورٹ ہی نہیں ہوتے ،ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ عقل یہ سوچ کر دنگ رہ جائے کہ لوگ کس طرح پتھر کے زمانے میں رہتے ہوئے اخلاق اور شرافت کو تج دیتے ہیں ۔ بہر کیف قانون کو ہی نہیں بلکہ سماج پر سب سے پہلےخواتین کی حفاظت اور توقیر وتکریم کے لئے ضروری بنتا ہے کہ لوگ باگ خود جاگ جائیں اور ماں بہن بیٹی کو تمام حقوق دیں ۔