کسے نہیں معلوم جس طرح وشال بھارت کے ساتھ کرنسی، خارجی امور اور دفاع پر ملک کشمیر کا مشروط الحاق ہے ،ویسے ہی اہل کشمیر کا مملکت خداداد کے ساتھ تین چیزوں پر الحاق قائم ہے۔الحاق ِہند پر تو کئی سال سے جنگ ہماری جاری ہے کہ یہ الحاق زور زبردستی کا ہے اور اس الحاق کے طفیل صرف اہل سیاست کے وارے نیارے ہوتے رہے ہیں ۔اس کی کرامت سے اہل سیاست موٹے تازے فربہ ہوگئے اور وہ بات بات پر بھارت ماتا کی جے بلکہ بھارت داتا کی جے پکار بیٹھے اور اس کے چلتے عام خام کشمیری کٹتے مرتے رہے۔ الحاقِ پاک کرکٹ ، ہاکی اور عید کے چاندپر قائم ہے۔ ایسے میں اگر پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت پر رندانِ کشمیر نے زندان جیسی زندگی کو ٹھکرا کر خوشی منائی تو کیا غلط کیا ، بلکہ گبر سنگھ کی آواز میں میں کہتا ہوں کوئی غلط نہیں کیا۔ وردی پوش طیش میں کیوں آگئے اور وہیل گائوں میں نہتوں پر ٹوٹ پڑے ۔اتنے وکٹ فیلڈ میں نہیں گرے تھے جتنے اہل وہیل کو گرایا ۔ اتنی چوٹیں کھلاڑیوں کو فیلڈنگ کے دوران نہیں آئی تھیں جتنی بلا لحاظ جنس افواج ہندوستان نے پہنچائی۔شاید اسی بات کو لے کر سپہ سالار نے کہا کہ اہل کشمیر فورسز اور ملی ٹنٹوں دونوں سے ڈرتے ہیں۔ویسے اس بات کو چھوڑ کر وشال بھارت کے سپہ سالار جب بولتے ہیں تو کڑک بولتے ہیں۔ کہتے ہیں بولنے سے پہلے تولنا ضروری ہے اس کو جنرل صاحب بوفورس توپ کے دہانے رکھ کر ایسا منہ کھولتے ہیں کہ بات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے ۔پھر وہ بیان پہ بیان اتنے دیتے ہیں کہ صاحب کو خود نہیں معلوم پڑتا کہ کل کیا بول گئے تھے۔اسی لئے جب سنگ بازوں کو دھمکی دی کہ تمہارے ساتھ بندوق برداروں جیسا سلوک ہوگا لیکن سنگ باز بھی اَڑ گئے اور نعرہ لگایا کہ یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گا۔پھر جو بانٹ پر بندھے بندہء خام کو چیتاونی دی کہ ایسا سلوک کرنے والوں کو پکا انعام دیا جائے گا تو نہ جانے کہاں کہاں سے اس پر لے دے ہو ئی،لیکن ایک کانگریسی نیتا نے تو ہاتھ ہلا کر کہا کہ جنرل صاحب تو گلی کے غنڈے لگتے ہیں۔خیر ہم سیاست اور حماقت کے بیچ اپنے آپ کو کھونا نہیں چاہتے لیکن جنرل صاحب نے مہیلا سینا کی وکالت کی۔ہم کو کسی بھی مسئلے پر سوچنے کا حق ہے کیونکہ بھلے لب آزاد نہ ہوں لیکن سوچوں پر میڈ اِن انڈیا تالا چڑھ نہیں سکتا۔ اسی لئے ناری سینا بھی ہماری سوچوں کے اندر گھس گئی۔اب چونکہ وہ تو سینا ہے پورا ویشرام تو نہیں کرے گی بلکہ ہر لمحہ لیفٹ رائٹ کر کے فوجی جوتوں کی گڑگڑاہٹ کا شور سنائی دے گا۔پھر وہ جو کہتے تھے کہ مردانہ وار مقابلہ کیا اس کی تبدیلی ضروری ہوگی یعنی مقابلہ اب زنانہ وار ہوگا۔ایسے میں دشمنوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جنگ ناری سینا لڑے یا پُرش فوج، لیکن بچارے چھکوں کا کیا قصور!!! جنرل صاحب ناری سینا کو عوامی احتجاج سے نمٹنے کے لئے لانا چاہتے ہیں ۔ایک طرف جوانوں کی ٹولیاں دوسری طرف ناری سینا کی بولیاں فیصلہ کن تو صنف نازک کا حملہ ہوگا۔بھلے وہ آنکھوں سے تیر مارے یا تیز مژگان کا استعمال کریں، کوئی جوابی کاروائی ممکن نہیںاور اگر واقعی ان کا بازو بندوق کے زور سے لرزا تو مجال ہے کوئی سنگ باز اسے گرنے دے بلکہ لپک کر مہیلا سینک کے حوالے کرے گا کہ اللہ بچائے مست نظروں سے ہم تو آپ کے ہاتھوں گولی ہی کھانا پسند کریں گے۔لگتا ہے جنرل صاحب بھلے ہاتھ میں بندوق اور منہ سے بارود پھوڑیں لیکن دل عاشقانہ اور مزاج شاعرانہ رکھتے ہیں۔انہیں صنف لطیف کے عاشقانہ حملوں کا کاری ضرب معلوم ہے کس قدر گہرا گھائو لگتا ہے۔اسی لئے شاعر نے کیا خوب کہا ع
ہر بلا سر پہ آئے لیکن حسن والوں سے اللہ بچائے
مہیلا سینا کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ سرحد پر بم بارود کے بدلے دشمن فوج پر ماں بہن ایک کرنے کے علاوہ کوسنے کی بارش ہو گی۔دشمن فوج تو سمجھ نہیں پائے گی کہ اس کا اصل مطلب کیا ہے لیکن یہاں سے باپ داد، بیو ی بچوں رشتہ داروں پر بہت ساری بد دعائیں ملیں گی جس کے چلتے چینی فوج مخمصے کا شکار ہو کر میدان چھوڑ کر بھاگے نہیں تو میرا نام بدل دینا۔پھر بھارتی فوج کے لئے ایک ہی سرحد باعث تشویش رہے گی ؎
حسن کی توپ کا گولہ مارا تیرا ککھ نہ رہے
تجھ پہ گر جائے قطبی تارا تیرا ککھ نہ رہے
انور مسعود
وشال بھارت کے طول و عرض میں مودی سرکار کے بعد یوگی سرکار کی دھما دھکہ،تھما تھپڑ، لگا مکہ کو ابھی ساڑھے تین منگل بھی نہیں گزرے کہ اس بات کا اعلان ہوا کہ گوا میں ایک سو بیس سنگٹھن مل کر بھارت کو ہندو راشٹر بنا دیں گے۔ہو نہ ہو کوئی یوگی اینٹ پتھر لے کر آئے اور کوئی سادھوی سیمنٹ ریت لے کر پہنچے ۔ ہندو راشٹر میں کیا کیا ہوگا اس پر ہم سوچ میں پڑ گئے۔تلک دھاری اور دو کپڑے پہنے سیاست کار ہوں گے۔ایک ہاتھ میں بالا دوسرے میں ترشول لئے پرچارک گھومیں گے۔گئو ماتا کی جے جے کار سے دن نکلے گا اور شام دودھ دوہنے سے ہوگی۔جوگئو ماتا کی جانب ترچھی نظر ڈالنے کا موردِ الزام ٹھہرے یا جو بھاجپا سرکار کے کسی فیصلے پر آنا کانا کرے وہ دیش دروہی تو ہوگا ہی لیکن ساتھ میں اس کا سامنا گولی ، لاٹھی سے ہوگا ۔اس کے زخموں پر مرحم نہیں لگے گا بلکہ اس کے خلاف مکھیہ پرچارک اپواس کرے گا۔
سرجیکل اسٹرایک کی خبر جس دم شہر میں پھیلی
نعرے ہر سمت لگے ،شور ہوا،دھوم نکلی
اڑتی اڑتی جب یہ خبر گدھوں تک پہنچی
پھر تو ان کی رام راجیہ کی شہ رگ پھڑکی
ڈھینچوں ڈھینچوں کی صدائوں کا اک جم غفیر
ساری خلقت نظر آتی تھی گدھوں کی جاگیر
اور ہندو راشٹر میں ٹی وی اسٹیڈیو میں پڑوسیوں کے خلاف دن رات اعلان جنگ تو ہوگا لیکن انگلینڈ نے اگر وجے مالیا کو واپس نہیں کیا تو اس کے خلاف سفارتی تعلقات منقطع کرنے سے شروعات ہوگی۔اگر نہیں سنبھلے تو ان کے ساتھ کرکٹ کھیلنا بند ہوگا اور اگر پھر بھی نہیں سنبھلے تو ہم انگریزی بولنا بند کردیں گے۔جبھی تو انگلستان کی عقل ٹھکانے آئے گی۔
اب کی بار مودی سرکار کو کرسی سنبھالے ڈھائی سوموار بھی نہ گزرے تھے ، سب کا ساتھ سب کا وکاس کو سوا سنیچر بھی نہ گزرا تھا اور میک ان انڈیا کی مہر ابھی تیار بھی نہ ہوئی تھی اور ان کی نئی ڈریس ابھی درزیوں کے پاس ہی تھی کہ آر ایس ایس کے جملہ پرچارک نے اعلان کیا کہ نئی پود کو بھارت ماتا کی جے کہنا سکھانا چاہئے یعنی ایک طریقے سے ہر ایک کو مجبور کیا جانا چاہئے، بھلے دبے لفظوں میں، کہ وہ یہ نعرہ لگائے۔ کسے نہیں معلوم چھوٹی چڑی پہننے والوں کی بڑی شرارت بھی کافی بڑی ہوتی ہے اور ان کے سمجھانے کا انداز بھی نرالا ہوتا ہے۔وہ چڑی بھلے ہی چھوٹی پہنیں لیکن ہاتھ میں ڈنڈا لمبا ہوتا ہے اور مودی مہاراج کی اراجیتھا کے بدلے سے تو ڈنڈے کی جگہ لمبی نالی والی بندوق یا تیز دھار والی تلوار نے لی۔سامان ضرب و حرب ہاتھ میں لئے اور جموں ، کشتوار ، ناگپور میں سڑک سڑک ایسے دندناتے پھرے کہ ضلعی انتظامیہ کو بقول ان کے کچھ نظر نہیں آیا۔اس سب کے بیچ موہن بھاگوت نے سفید مونچھوں پر تائو دیتے ہوئے اس نعرے کی اہمیت اس قدر بڑھا دی کہ جو یہ نعرہ لگائے گا وہی بھارتی کہلائے گا ۔مطلب دیش بھگتی کا ٹیسٹ اسی نعرے پر منحصر رہے گا۔سیاست میں نعروں کی اہمیت سے ہم سب واقف ہیں اسی لئے مختلف موقعوں پر نعرے بازی ہوتی رہی ہے اور آگے بھی ہوتی رہے گا۔ ہل والے نیشنلی جب محاذی تھے تو ان کا نعرہ مستانہ اونچا رہے گا ہل والا جھنڈا تھا، البتہ جب وہ کانفرنسی بن گئے تو نعرے کے الفاظ الہ کرے گا وانگن کرے گا بب کرے گا بب کرے گامیں تبدیل ہوگئے۔ خود تحریک نوازوں کا نعرہ رندانہ تھا اے مرد مجاہد جاگ ذرا ۔ اس تحریک میں جب کفن بردوش (خود کش دستے) لوگوں کا زمانہ آگیا تو فقط اس نعرے پر سیاست کرنے والے اس کا دوسرا جملہ یعنی وقت شہادت ہے آیا جان بوجھ کر بھولنے لگے۔نعروں کی مدد سے سیاست کار لوگوں میں جوش بھر دیتے ہیں اور اسی میں ان سے ہوش گنوا کر اپنے بس میں کر لیتے ہیںتاکہ وقت وقت پر ہپناٹائز کر کے ان سے کام نکالا جائے۔پچھلے کچھ عرصے سے پورے بھارت میں ایک لہر سی دوڑائی دی گئی کہ بھارت ماتا ہے اور اس کی جے کہنا ضروری ہے اور وزیر اعلیٰ مہاراشٹر کا فرمان ہے کہ جو اس ماتا کی جے نہیں بولے گا وہ اپنے گناہ تولے گا اور ان گناہوں کا کفارہ بھارت چھوڑ کر ادا کرے گا۔اب جو نہیں بولے گا اسے کہیں دور کسی اور ملک میں جانا ضروری ہے یعنی انگلینڈ فرانس امریکہ وغیرہ میں پناہ لینی پڑے گی۔امریکہ میں تو ڈونالڈ ٹرمپ انتظار کر رہا ہے وہ وہاں کسی مسلمان کو آنے نہیں گا بھلے ہی ایک کے بعد ایک عدالت اس کی رکاوٹ بنے ہیں ۔کیا پتا فرانس انگلینڈ والے کس طرح کا وطیرہ اپنائیں گے۔ہو سکتا ہے کہ وہ بھی بھومی پوجن میں حصہ لے کر بھارتی سنکرتی کو اپنائیں اور آگے وہاں بھی ملک ماتا کا درجہ حاصل کرے۔ایسے میں وہاں پناہ لینے والوں کو فرانس ماتا کی جے ،انگلینڈ ماتا کی جے، آسٹریلیا ماتا کی جے کہنے پر مجبور کیا جائے۔البتہ مسلٔہ ہے کہ کئی ممالک اپنی جائے پیدایش کو مدر لینڈ کے بدلے فادر لینڈ پکارنا چاہتے ہیں۔اس لئے بھارت ماتا کے جواب میں فرانس پتا ، انگلینڈ پتا ، آسٹریلیا پتا کا نعرہ ضروری بن جائے۔ہو نہ ہو بھارتی سنسکرتی اور یورپی سنسکرتی آمنے سامنے آئے اور ایک نیا جھگڑا شروع ہو جو بھارت ماتا اور فرانس پتا کی چوکھٹ پر منتج ہو۔ماضی میں بھارتی گائے اور یہودی گائے کا تنازعہ طول پکڑ گیا جب نیتن یاہو نے یہودی گائے کی تعریف کرتے ہوئے اسے دنیا بھر میں افضل گائے کا درجہ دیا لیکن بھارت والے بھارتی گائے کو ماتا کا درجہ دے کر اہم منوانے پر مجبور کرنے لگے ۔ان حالات میں چوتھی عالمی جنگ جنم بھومی کی جے اور گائے کی اہمیت کو لے کر ہو سکتی ہے۔یعنی مائیں ایک طرف ہوں گی اور پتا دوسری طرف ۔جے جے کے نعرے لگیں گے۔جو زور سے آواز لگائے گا اور اونچی آواز دیگا اس کی جیت ہوگی کیونکہ جے جے کی نعرے بازی میں بے چارے نیوکلیر ہتھیار فُس ہو کر رہیں گے۔نیوکلیر سائینس دان خاموش ہوں گے کہ ان کی اہمیت ختم ہو گی ۔ جنگی جہاز بمباری نہیں کر پائیں گے ۔شاید اسی لئے ناری سینا کی ضرورت ہے کہ مہیلائیں جب آواز لگاتی ہیں تو بہت زور سے ۔اس کے سبب عوامی احتجاج ہی کم نہیں ہوگا بلکہ دشمن فوجیں بھی دم دبا کر بھاگ جائیں گی۔سپہ سالار ہمیشہ نئے فوجی تجربات کا حامی رہا ہے، جن میں میجر گوگوئی کابانٹ اور مہیلا سینا نت نئے جادو کے کھیل ہیں۔
(رابطwanishafi999@gmail.com/9419009169 )