طارق شبنم
اسلامی تاریخ میں روز اول سے حق و باطل کی معر کہ آرائی جاری ہے ۔لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ فتح ہمیشہ حق کی ہوئی ہے اور باطل کو کبھی رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ واقعہ کربلا میں سید نا امام حسین ؓ نے حق و انصاف کی ایک نا قابل فرا موش تاریخ رقم کر ڈالی جس سے تا قیامت یاد رکھا جائے گا۔حضر ت ا مام حسینؓجو اسلام کے چھوتے خلیفہ حضرت علی ؓ اور رسو ل مقبول ؐ کی لاڈلی اور چہیتی دختر حضرت فاطمتہ الزہر ا ؓکے لخت جگر اور ر سول محترم ؐکے نواسہ ہیں ، نے میدان کربلا میں حق و باطل کی تاریخ ساز لڑائی میںعادلانہ نظام کے قیام اور باطل کے ظلم و جبر کے خاتمے کے لئے ایسی بے مثال قربانی پیش کی جو رہتی دنیا تک مسلمانوں کے لئے مشعل راہ بنی رہے گی۔
حضرت امیر معاویہؓ کے انتقال کے بعد یزید نے اپنی خلافت کا اعلان کیا اور مملکت اسلامیہ کے تمام حکام و امراء کو لکھا کہ وہ اس کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کی خلافت کی تصدیق کریں۔حضرت امام حسین ؓ کو ہرگز یہ تسلیم نہیں تھا ۔کیونکہ یزید اللہ تعالیٰ کی نا فرمانیوں میں ڈوبا ہوا تھااور دین اسلام کو نقصان پہنچارہا تھا ۔اس کے غیر شرعی اعمال نے مسلمانوں کو اس کی بغاوت پر مجبور کر دیا۔اس بغاوت کے نتیجے میں اس نے اپنی سلطنت کے نیست و نابود ہونے کے ڈر سے سیدنا امام حسینؓ سے بیعت لینا ضروری سمجھا۔چنانچہ اس نے مدینہ منورہ کے حاکم ولید کو امام حسینؓ سے بیعت لینے کا حکم صادر فرمایا۔حضرت حسینؓ کو یزید کی بیعت کے لئے کہا گیا بلکہ مجبور کیا گیا،لیکن نواسہ رسولؐ نے بڑی دلیری سے باطل کے سامنے جھکنے سے صاف انکار کردیاکیونکہ حضرت امام ؓ یہ سمجھتے تھے کہ یزید اس خلافت کا حق نہیں رکھتا ہے، ا سلئے اس سے اس اعلیٰ منصب سے معزول کرنا ضروری ہے۔اس دوران عراقیوں نے بڑی تعدا د میں خطوط روانہ کرکے حضرت حسینؓ سے خود خلافت کے منصب پر فائیز ہونے اور یزید کی بیعت نہ کرنے پر زور دیاجارہا تھااور آپ سے باطل نظام اور ظلم و ستم ختم کرنے کی استدعا کی جارہی تھی۔یزید کی باطل حرکتوں کی وجہ سے مسلمانوں کا ظلم و جبر کا شکار ہونے کی خبروں نے حضرت امامؓ کو بے چین کر دیاتو آپ نے خود کوفہ جاکر حالات کا جائیزہ لینے اور مسلمانوں کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کا عہد کرلیا۔ آپ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کوکوفہ کے حالات کا جائیزہ لینے کے لئے پہلے ہی روانہ کردیا۔حضرت مسلم بن عقیل ؓ کوفہ پہنچ گئے تو ان کا وہاں بڑے عز ت و تکریم سے نہ صرف استقبال کیا گیا بلکہ کثیر تعداد میں مسلمانوں نے ان کے پاس امام حسین ؓ کے حق میں بیعت کرلی۔مسلم بن عقیلؓ نے آپ ؓ کو خبر بھیج دی کہ یہاں کے حالات انتہائی ساز گار ہیں۔ہزاروں لوگوں نے بیعت کرلی ہے اور آپ جلد تشریف لے آئیے۔حضرت امامؓ نے یہ خبر سن کر اپنے جان نثار ساتھیوں اور اہل و عیال کے ہمراہ کوفے کے لئے روانگی کی تیاریاں شروع کردی۔یزید کو جب ان حالات کا علم ہوا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ اس نے عجلت میں عبید اللہ ابن زیاد کوتاکیدی حکم بھیجا کی جلد سے جلد کوفہ جائو اورمسلم بن عقیل کو شہر سے نکا ل د و اور اگر وہ مزاحمت کرے تو قتل کر ڈالو۔اسطرح مسلم بن عقیل ؓاور اس کے دو کمسن صاحبزادے پہلے ہی شہید کر دئے جاتے ہیں۔حضرت حسینؓ جو ان حالات سے بالکل بے خبر تھے کوفہ کی طرف نکلے۔ خیر خواہوں جن میں حضرت عبد اللہ ابن عباسؓاور دوسرے صحابہ شامل تھے نے انہیں روکنے کی بھر پور کوشش کی،انہیں کوفہ کے صحیح حالات سے با خبر کیا گیا لیکن حضرت امام نے اپنا ارادہ نہیں بدلااور وہی کیا جس سے حق سمجھتے تھے۔دوران سفرامام حسین ؓ کو مسلم بن عقیلؓ کی شہادت کا بھی علم ہو گیا لیکن آپ کے پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش پیدا نہ ہوئی اور فرمایا خدا کی مرضی پوری ہو کر رہے گی۔حضور ؐ نے مجھے ایک حکم دیا ہے میں اس سے پورا کرونگاچاہیے نتیجہ کچھ بھی ہو۔اللہ کا حکم ہوا توہم شکر کرینگے ورنہ ہما ری نیت حق اور تقویٰ ہے۔اسطرح رضائے مو لیٰ کی تڑپ سے لبریزحضرت امام حسین ؓ، ا ن کے اہل بیت شیر خوار معصوم بچوں اور پردہ نشین عورتوں پر مشتمل یہ سخت جان قافلہ کوفہ پہنچ کربلا میں دریائے فرات کے کنارے خیمہ زن ہوگیا۔دشمنوں کی فتنہ انگیزیان شروع ہوگئی۔ حضرت امام عالی مقام کو کئی بار بیعت کرنے کے لئے سخت دبائو ڈالا گیا لیکن ہر دفعہ آپؓ نے بیعت کرنے سے انکار کردیا اور مقابلہ کرنے کا عزم دہرایا۔ہر طرح سے یزیدی لشکر نے ناکام ہونے کے بعد خانوادہ رسول پر سخت مظالم ڈھانے شروع کر دئے۔ ان کا پانی بند کرکے معصوم اور شیر خوار بچوں کو پانی کی ایک ایک بوند کے لئے ترسایا گیا۔ تیز دھوپ،گرم ہوائوں اور ریگستان کی تپش میں بے سرو سامان چھو ٹے سے قافلے کے مقابلے میںہتھیاروں سے لیس ہزاروں کی تعد اد میں لشکر مقابلے کے لئے تیار کھڑی تھی۔ محرم کی دس تاریخ کو خاندان رسولؐ پر دشمن ک طرف سے کئی اطراف سے یلغا ر کردی گئی۔حضرت حسینؓ کے گنے چنے جان نثاروں نے بھوک اور پیاس سے نڈھال ہونے کے با وجودبڑی ہی جوان مردی اور بہادری سے مقابلہ کیا ،بڑی گھمسان کی لڑائی لڑی، دشمن نے بڑی تعداد میں تیر اندازوں کی فوج منگوائی ا ور اس سخت جان قافلے پر چاروں اطراف سے تیر اندازی شروع کردی گئی۔یہاں تک کہ امام عالی مقامؓ کے سارے جان نثار ساتھیوں کو بھوک اور پیاس کی حالت میں شہادت کے اعلیٰ منصب پر فائیز کر دیا گیا۔اس کے بعد امام عالی مقام تن تنہا مقابلے کے لئے نکلے اور بڑے ہی بہادری اور استقلال سے مقابلہ کیا۔ جسم اطہر تیروں اور تلوا روں سے چھلنی ہوا اور بالا آخر جگر گوشہ رسولؐ حضرت فاطمہؓ کا یہ راج دلارا دنیا میں اسلام کے پرچم کو بلندی پر نصب کر کے شہادت کا اعلیٰ مقام پر فائیز ہو گیا۔ اسطرح باطل پرستوں نے انسانیت اور اخلاق کے تمام اصول اور قوانین پائوں تلے روند ڈالا۔ لیکن اپنے ناپاک عزائیم میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ اخلاق اور شرافت کے تمام ضابطوں کو پائوں تلے روند کر یزیدی حکمرانوں نے تاریخ عالم میں اپنا نام ہمیشہ کے لئے ظالم و جابر افراد کی فہرست میں شامل کر لیا۔
واقعہ کربلا میں سیدنا امام حسین ؓنے اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر کے ا نقلاب اور اصلاح امت کی بنیاد ڈالی تا کہ لوگ پرہیز گاری کا راستہ اختیار کریں اور حق شناس بنیں۔سیدنا امام حسینؓ سے عقیدت و محبت کا حق ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے اخلاق حسنہ کی پیروی کی جائے۔اپنے اندر ان کا سا ذوق عبادت پیدا کیا جائے اور باطل خدائوں کے آگے ہرگز ہاتھ نہ پھیلایا جائے۔
[email protected]