دنیا کی تاریخ میں اظہر من الشمس ہے کہ خون سے سینچی ہوئی کوئی بھی تحریک ادھوری نہیں رہتی بلکہ ایک منطقی انجام تک پہنچ جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوموں نے لاکھوں جانیں قربان کر کے اپنی سر بلندی اور آزادی کا پرچم جانفشانی اور خود اری کے بل پر لہرا کر ہی دم لیا۔ دنیا میں ماضی ٔقریب میں ایک انقلاب بر صغیر میں آیا ،ا یک ایران میں برپا ہو ااور ایک سوویت یونین میں منظر عام پر آیا اور کہیں دوسرے ممالک میں بھی تحریکیں کامیاب سے ہم کنار ہوئیں۔ ان انقلابات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انقلابیوں نے ایثار ، ثابت قدمی ،صبر استقلال، عزم اور خلوص کا مظاہر کر کے باطل قوتوں، سامراجت کے پرستاروں اور قابضین کو شکست دے دی اور ثابت کر دیا کہ بالآخر حق ہی غالب رہتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے ۔ یہ انقلابات بتاتے ہیں کہ زور ِ بازو یا نری طاقت حق نہیں ہوتا بلکہ اس کے بر عکس حق میںطاقت اور شجاعت پیوست ہوتی ہے ۔ یہی آفاقی حقیقت دنیا کے محکوم و مظلوم قوموں کے لئے مشعل راہ ہے۔ بر صغیر اور دنیا کی غلام قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کر ناا س سلسلے میں ایک راہ کشاامرہے۔چنانچہ برصغیرکی غلامی کی زنجیروں سے جکڑے ہوئے ہندوستانی عوام نے 1857 ء میں بر طانوی استعمار کے خلاف تحریک آزادی کا آغاز کیا، انگریزی سامراج نے ہندوستانیوں کے خلاف کھلی جاریت ، ننگی بر بریت اور چنگیزیت کا خوب مظاہرہ کرکے ہندوستانی عوام کا قتل عام کیا جس میں مسلمان زیادہ تر انگریزوں کے شکار ہو گئے، عوام تو عوام مسلم علماء ،ادباء فضلا ء اور امراء اس میں کام آئے۔ انگریز حکمرانوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ 1857ء کے انقلاب کے پیچھے صرف مسلم اکابرین ،علماء ادبا فضلا کے اذہان اور حکمت عملیاں کار فرما تھیں ۔ اس لئے تحریک آزادی کی اس ابتدائی دستک میں ہم دیکھتے ہیں کہ صرف مسلمانوں کی لاشوں سے بستیاں اور بازار اور کنویں تک بھرگئے ، مسلم آزادی پسندوں کو توپوں سے اُڑایا گیا اور کہیں کہیںانہیںزندہ جلادیا گیا ۔ بر صغیر کی تاریخ میں مسلمانوں کے خلاف اس نوع کی ظالمانہ مثالیں اگر کہیں ملتی ہیں تو یہ زیادہ تر 1857ء کی تواریخ میں ملتی ہیں ۔ اگر چہ اس وقت تحریک آزادی کی جد و جہد بظاہر نا کام رہی پھر بھی ہندوستانی مسلموںکی بیش بہا قربانیوں کی وجہ سے آزادی کا یہ پہلا بگل بجا جس سے آگے ہندوستان کی آزادی کی داغ بیل پڑ گئی ۔ انگریزحکمرانوں نے اس جذبے کو ملیا میٹ کر نے کے لئے ظلم زیادتیوں اور نا انصافیوں کے ریکارڈ توڑ دئے مگر ہندوستانی عوام نے صبر استقلال عزم و ا یثا ر کا مظاہر ہ کر کے تحریک آزادی کا ساتھ دیا،پھر جہاں گاندھی جی نے ہندوستان چھوڑ دو کا نعرہ بلند کیا وہاں قائدا عظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان نے مسلمانوں کی بروقت سیاسی قیادت کی ۔ علاوہ ازیں نہرو، ابولکلام آزاد،سردارپٹیل سکھ دیو بھگت سنگھ راج گور اور دیگر ہندو قائدین نے بھی اس میںاہم رول ادا کیا۔ انگریز حکمرانوں نے ہندوستانی کی تحریک آزادی دبانے کے لئے 1861ء میں انڈین پولیس فورس ترتیب دیا ۔ معروف منصف کشلے بھٹ اچار یہ جی نے اپنی کتاب میںاس کی پوری وضاحت کی ہے۔پولیس فورس کو وجود میں لانے کے ساتھ1872ء میں جرائم کی روک تھام کا قانون بنایا گیا۔ یہ قوانین لا ر ڈ میکا ولی نے ترتیب دئے تھے اور انڈین پینل کوڈ میں درج ہواکہ سرکار کے خلاف کسی بھی قسم کی سیاسی کارروائی بھی جرائم کے زمرے میں شامل ہے ۔ اس کے علاوہ 1942ء میںبنایا گیا وہ اندھا قانون بھی انگریز کی دین ہے جسے اس زمانے میں آرمڈ فورسزسپیشل پاورس آرڈنینس کا عنوان دیا گیا تھا۔ اس میں خفیف سی تبدیلی کرکے بعد یہی موجودہ آرمڈ فورسزسپیشل پاورس ایکٹ بنایا گیاہے ۔ یاد رہے کہ 1942ئمیں کوئٹ انڈیا کی تحریک کا آغاز گاندھی جی،محمد علی جناح ، پنڈت جواہر لال نہرو دیگر ہندو قائدین کے علاوہ مسلم ادبا فضلا علماء دیگر سیاسی قایدین کی زیر سر پرستی ہوا ۔ انگریزحکمرانوںنے ان تمام کالے قوانین بروئے کار لا کرآزادی کی تحریک کودبانے کے لئے استعمال کیا ،ظلم کی انتہا ئی ہوئی مگر ہندوستانی عوام نے تمام مظالم برداشت کر کے آزادی کی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کامیاب حاصل کی ۔ آخر کار انگریزی حکمرانوں کو شکست اور ہندوستان کو آزادی نصیب ہوئی۔
1947ءمیں بہرحال ہندوستانیوں کی قربانیوں نے رنگ لایا، انگریزی سامراج کا جنازہ نکل گیا، حق غالب ہو گیا، باطل مٹ گیا یعنی ہندوستان کی خون اور پسینے سے سے سینچی گئی تحریک ادھوری نہیں رہی ۔
اس بعد اگر ہم ایرانی انقلاب کا مطالعہ کریں جس کی سر براہی اپنے زمانے کے مذہبی قائد امام خمینی کر رہے تھے ۔اُس زمانے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ایرانی قوم جس پر امر یکی سامراجیت غالب تھی، ایک منظم قیادت اور قربانی والی تحریک کے صدقے اتنی جلد اپنی تقدیر بدل دے گی ۔ امام خمینی نے قومی اتحاد کر کے دکھایا کہ حق و صداقت کی تحریک کو لاکھ مر تبہ بھی دبایا جائے، اس کے خلاف تمام حربے بھی آزمائے جائیں،یہ کبھی دم نہیں توڑتی، یہ کبھی بھی ختم نہیں ہو تی ۔آخر کار ایران کو امام خمینی کی سربراہی میں باطل قوتوںخاص کر انگریز سامراج سے نجات ملی۔ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوا ۔ جموں کشمیر کی آزادی تحریک دبانے کے لئے بھی بھارتی حکمرانوں نے 1947ء سے لے کر آج تک سخت گیر قوانین کے بل پر ہمیںمحکوم ومظلوم بنایا، ا س وقت بھی کشمیری قوم پر ظالمانہ اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں، جو قوانین فرنگیوں نے ہندوستانی عوام کو دبانے کے لئے استعمال کئے تھے، وہیں ہم پر آج کی تاریخ میں نافذالعمل ہیں ۔منص بھٹاچاریہ حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بھارت دیش فرنگیوں سے آزاد ہونے کے بعد یہ کالے قوانین کالعدم ہونے چاہے تھے مگر نہیں ہوئے ۔جموں و کشمیر کا سیاسی مسئلہ اپنی نوعیت کا ایک مختلف قضیہ جا تاہے اور اس میں کوئی ودارئے نہیں کہ جموں و کشمیر ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے جس میں انڈیا،پاکستان اور کشمیری تین فریق ہیں۔ یہ مسلٔہ کوئی سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت سے بنیادی طور تعلق رکھتا ہے ۔ آج تک مر کز نے جموں و کشمیر کے عوام کی منصفانہ و جائز آواز دبانے کے لئے انسانی حقوق کی بد ترین پامالیاں کرنے کی بھارتی افواج کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ انہوں نے یہاں آدمیت اور قانون کے تمام سرحدوں کوپار کر کے انسانیت کو شرمسار کیا ہے ۔ بھارتی افواج کو قانون اور انسانیت کے خلاف جو جی چاہے کر لینے کے عادت پڑ ی ہے اور اس مرض سے اب ان کا چھٹکار ا پانا ممکن نہیں، فورسز اور پولیس کو کھلی چھوٹ دینے سے ا س سرزمین میں ایسے نا گفتہ بہ واقعات اور دل دہلانے دینے والے حالات رونما ہوئے اور اب بھی پیش آرہے ہیں کہ بیان سے باہر ہیں اور میں واللہ یہاں انہیںلکھ بھی نہیں پاتاہوں۔ ان حقائق پر اگراصولوں کی بنیاد پر نظر ڈالیں تو ان کے مضر اثرات بھارت دیش کے لئے کوئی نیک شگون نہیں اور اس کے جمہوری دعووں پر بھی بھاری پڑ رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کل تک روس نوازی اور آج امر یکہ اورا سرائیل نوازی کے بل پر جینے والی نئی دلی عالمی سطح بھی بھارت دیش کو وہ مقام حاصل کرنے میں بری طرح نا کام دکھائی دے رہی ہے جس کی بھارتی لیڈر شپ متلاشی رہی ہے۔ بھارت کی اس تلاش مقام و منزلت کی راہ میں کشمیر اور نارتھ ایسٹ میں حقوق البشر کی بد ترین خلاف ورزیاں اس کے ماتھے پر بدنما دھبے ہیں ۔ اس ضمن میں وہ منفی رپورٹیں بھی گواہ ہیں جو دیر سو یر عالمی میڈیا میں منعکس ہوتی رہتی ہے ۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ کشمیر میں اندھ کاری کی مہم اور ظلم وزیادتیوں پر پی چدمبرم اور یشونت سنہا تک بھی انگشت بدنداں ہیں ۔ جہاں تک تاریخ کا تعلق 1857ء سے1947ء تک ہندوستانی عوام پر انگریز سامراج نے تحریک آزادی دبانے کے لئے اُوچھے ہتھکنڈے آزمائے مگر ہندوستانی عوام نے صبر استقلال و عزم و ایثار سے برداشت کر کے آخر کار فرنگیوں کو شکت دے دی کہ نہ صرف یہ ثابت ہو ا آخر کار حق ہی غالب رہتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ حق طاقت ہے ، طاقت حق نہیں ۔
رابطہ :نوا کدل سرینگر