Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

! حقیقت کی پہچان ۔فناء سے بقاء تک کا سفر | زندگی بکھرا ہواامتزاج ہی نہیں بلکہ مسلسل دریافت کا حیرت انگیزپہلو ہے فہم و فراست

Towseef
Last updated: March 23, 2025 11:52 pm
Towseef
Share
15 Min Read
SHARE

مسعود محبوب خان

یہ زندگی کا وہ پہلو ہے جو اکثر نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ ایک ایسی حقیقت جو اپنی تمام تر رعنائیوں کے باوجود کسی کمی کا احساس دلاتی ہے، جیسے کسی خوبصورت نظم کا آخری مصرعہ رہ گیا ہو، جیسے کسی حسین تصویر میں رنگوں کی آخری تہہ لگنی باقی ہو۔ یہ احساس شاید اس لیے ابھرتا ہے کہ انسان کی فطرت میں تکمیل کی آرزو رکھی گئی ہے، مگر دنیا کی ہر شے نامکمل ہے، ہر جذبہ، ہر خواب، ہر کامیابی سب میں کہیں نہ کہیں خلا ہے، کوئی ناتمام پہلو، کوئی ادھورا لمس۔ اور جب دنیا کسی بحران سے گزرتی ہے، جیسے کہ حالیہ وبا، تو یہ خلا اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔وبا ءنے صرف جسموں کو ہی نہیں، روحوں کو بھی جھنجھوڑا، زندگی کے رنگوں کو دھندلا کر دیا، محبتوں کو فاصلوں میں بدل دیا اور انسان کو ایک ایسی تنہائی سے روشناس کرایا، جس میں وہ اپنے ہی سایے سے خوف کھانے لگا۔ وہ جو دوسروں کا محافظ تھا، اب اپنی ہی سچائی سے نظریں چرا رہا تھا۔ شاید یہی زندگی کا وہ رخ ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز عارضی ہے، ہر رعنائی کے پیچھے ایک زوال ہے اور ہر مکمل لگنے والی حقیقت کے پس پردہ ایک نامکمل سچائی چھپی ہے۔

یہی تو زندگی کا سب سے بڑا معمہ ہے۔ زندگی اپنی روانی میں رہتی ہے، لمحے گزرتے ہیں، وقت آگے بڑھتا ہے، مگر انسان کہیں رک سا جاتا ہے، جیسے کوئی نامراد مسافر جو راہ میں کسی کھوئی ہوئی شے کو ڈھونڈنے کے لیے ٹھہر جائے۔ شاید وہ کسی یاد میں قید ہو، شاید کوئی خواب اسے پکڑ کر روک لے، یا شاید کوئی ادھورا احساس اس کے قدم جکڑ لے۔ زندگی کا بہاؤ اپنی جگہ قائم رہتا ہے، لیکن انسان جذبات، تجربات اور زخموں کی گرہوں میں ایسا الجھتا ہے کہ وہ خود کو اس بہاؤ سے الگ محسوس کرنے لگتا ہے۔ کبھی ماضی کی کوئی صدا اسے پکڑ کر روک لیتی ہے، کبھی مستقبل کے اندیشے قدموں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں اور کبھی حال کی بے رنگی اسے بے حس کر دیتی ہے۔وہ جو سب کچھ جانتا ہے، جو دیکھ رہا ہے مگر خاموش ہے، وہی تو اصل حقیقت ہے۔ وہی جو ہر چیز کے پار دیکھتا ہے، جو جانتا ہے کہ ہوا کا جھونکا کب چلے گا، زمین کب ہری ہوگی اور وہ خاموشی کب ٹوٹے گی۔ مگر انسان کی آزمائش شاید اسی میں ہے کہ وہ انتظار کرے، اس لمحے کا جب کچھ باقی نہ رہے، کچھ چھوٹا نہ ہو، کچھ ہونے کی تمنا باقی نہ رہے، بس حقیقت کا در کھلے اور وہ بہاؤ میں پھر سے شامل ہو جائے۔یہ وہ لمحہ ہے جب انسان بھیڑ میں ہوتے ہوئے بھی تنہا ہو جاتا ہے، جب راستے موجود ہوتے ہیں مگر قدم رک جاتے ہیں، جب منزلیں اپنی جگہ قائم رہتی ہیں مگر مسافر کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔ یہ وہ سفر ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے، مگر انسان کہیں نہ کہیں خود کو کھو دیتا ہے۔ شاید وقت کے دھارے میں، شاید اپنے ہی خوف میں یا شاید اپنی ہی بے بسی کے اندھیرے میں۔ خوف جب دل و دماغ پر مسلّط ہو جاتا ہے تو انسان خود سے بیگانہ ہو جاتا ہے، وہ اپنی ہی پہچان سے کٹ جاتا ہے۔ وہ رشتے جو کبھی مضبوط تھے، وہ خواب جو کبھی روشنی تھے، وہ امیدیں جو کبھی سفر کا زادِ راہ تھیں، سب ایک لمحے میں دھندلا جاتے ہیں۔اور جب ہر چیز خالی ہو جاتی ہے، در و بام، راہیں، منزلیں، تب انسان کے پاس بس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے،خود سے ملاقات کا۔ چار دیواری میں قید ہو کر اسے احساس ہوتا ہے کہ شاید ساری زندگی وہ باہر کی دنیا میں خود کو تلاش کرتا رہا، مگر اصل دریافت تو اندر کی دنیا میں پوشیدہ تھی۔ یہ وقت ہے رُک کر سوچنے کا، خود سے سوال کرنے کا، اپنے کھوئے ہوئے وجود کو پھر سے جوڑنے کا۔ شاید یہی وہ موقع ہے جہاں سے ایک نیا سفر شروع ہو، وہ سفر جو حقیقت میں آگے لے جائے، جہاں انسان اور اس کی روح ہم قدم ہو جائیں، جہاں خوف کی جگہ یقین لے لے اور جہاں تنہائی خود سے قربت میں بدل جائے۔

یہی وہ سوال ہے جو صدیوں سے انسان کے دل و دماغ میں گونج رہا ہے۔ کیا وہ خود سے پہلے کبھی ملا تھا؟ کیا وہ خود کو جانتا تھا؟ یا وہ محض دھندلے عکس میں اپنی جھلک دیکھ کر سمجھتا رہا کہ یہی میں ہوں؟ زندگی کے ہنگاموں، خوابوں، خواہشوں اور رشتوں کی اُلجھن میں شاید وہ کبھی خود کو دیکھ ہی نہ پایا۔ وہ خود کو دوسروں کی نظروں سے پہچانتا رہا، دوسروں کی محبت، دوسروں کی رائے، دوسروں کے فیصلوں میں اپنی تصویر ڈھونڈتا رہا۔ مگر جب ہر چیز تھم گئی، جب باہر کی دنیا خاموش ہو گئی، جب غور کے سب حربے ناکام ہو گئے، تب اُسے احساس ہوا کہ وہ تو خود سے کبھی واقف ہی نہ تھا۔

یہی وہ لمحہ ہے جب کائنات کی وسعت میں ایک انسان کی زیر لب پکار بھی سنی جاتی ہے، جب وقت رُک سا جاتا ہے، جب کوئی اسے خاموشی سے دیکھ رہا ہوتا ہے اور جب وہ اپنے خالق کے حضور یکسو ہو کر بیٹھنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ زندگی کہاں ہے؟ یہ وہ سب سے بڑا سوال ہے۔ اگر زندگی اندر ہے، تو باہر کا سارا شور کیا تھا؟ اگر باہر زندگی کی حقیقت ہے، تو اندر کی خاموشی کیوں اتنی گہری ہے؟ شاید زندگی دونوں کے سنگم پر ہے۔ ایک توازن، جہاں انسان اندر کی روشنی سے باہر کو منور کرے اور باہر کے تجربات سے اندر کی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ زندگی شاید کسی ایک جگہ محدود نہیں بلکہ ایک مسلسل دریافت کا سفر ہے، جہاں اندر اور باہر، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

یہی کائنات کا سب سے نازک مگر حیرت انگیز پہلو ہے۔ رنگوں کی رنگینی، خوشبو کی مہک، روشنی کی چمک، اور ہر ذرے میں پنہاں وہ لطافت جو خالق نے ودیعت کی۔ لیکن کیا یہ سب آزاد ہیں؟ کیا یہ کسی تعریف، کسی نظارے، کسی لمس کے محتاج ہیں؟ گُل اگر دید سے محروم رہ جائے، خوشبو اگر بے مقصد لوٹ آئے، تو کیا وہ اپنی حقیقت کھو بیٹھتے ہیں؟ شاید نہیں۔ کیونکہ رنگ، خوشبو، روشنی، یہ سب اپنی اصل میں آزاد ہیں، یہ کسی تعریف، کسی پذیرائی کے محتاج نہیں۔ یہ خالق کے عطا کردہ حسن کا وہ عکس ہیں جو انسان کے دیکھنے، محسوس کرنے اور سمجھنے سے ماورا بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔اور انسان؟ وہ بظاہر بانیِ راہ ہے، اسے اختیار دیا گیا، اسے تخلیق کے اسرار میں جھانکنے کا حق دیا گیا، لیکن اس سب کے باوجود، وہ ایک قید میں بھی ہے۔ وقت کی قید، جسم کی قید، خواہشات کی قید اور اپنی ہی بنائی ہوئی حدود میں مقید۔ تو پھر رہائی کس کو ملی؟ شاید وہی آزاد ہے جو ان سب قیدوں کو پہچان لے، جو ان سے اوپر اُٹھنے کا ہنر سیکھ لے۔ جو اس راز کو پا لے کہ آزادی صرف جسم کی نہیں، بلکہ روح کی ہے، وہی آزاد ہے جو اپنی حقیقت کو پا لے، جو خالق کے قریب ہو جائے، جو اپنی آنکھ سے رنگوں کو نہ دیکھے بلکہ رنگوں کے پار دیکھنے لگے، جو خوشبو کے لمس میں نہیں، اس کے پیغام میں اتر جائے، جو وقت سے آگے نکل کر اس لمحے کو پا لے جہاں سب قیدیں ختم ہو جاتی ہیں اور صرف حقیقت باقی رہتی ہے۔

یہی تو زندگی کا اصل راز ہے کہ یہ رنگین بھی ہے اور تنہا بھی، یہ شباب کا عالم بھی ہے اور زوال کا نوحہ بھی، یہ ترنگ میں بھی ہے اور سکون میں بھی، یہ اکٹھے ہونے کی کیفیت میں بھی ہے مگر پیوستگی سے خالی بھی۔ یہ تضادات کا ایسا امتزاج ہے جو بظاہر بکھرا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر درحقیقت ایک ہی حقیقت کی مختلف جہتیں ہیں۔ انسان کی شوخی، اس کی شرارت، اس کی عقل و فہم، یہ سب کائنات کے عناصر کے لیے ایک حیرانی کا سامان ہیں۔ پرندے، درخت، دریا، آسمان، ستارے، چاند سب اس کی جدوجہد، اس کے بھٹکنے، اس کے سنبھلنے اور پھر گرجانے کو دیکھ رہے ہیں، جیسے کسی کہانی کا ایک نہ ختم ہونے والا باب ہو۔

رات کی تاریکی اگر اپنی آغوش میں بے شمار ستارے سمیٹے ہوئے ہے تو یہ اس بات کی گواہ ہے کہ اندھیرے میں بھی روشنی چھپی ہوئی ہے، بس دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔ دن کی چہچہاہٹ اگر شور مچاتی ہے تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ زندگی ختم نہیں ہوئی، ابھی بھی حرکت باقی ہے، ابھی بھی کوئی امید ہے، کوئی صدا ہے جو بلند ہو رہی ہے اور وہ صدا ربّ کی صدا ہے۔ زندگی ربّ کی پناہ میں ہے، اس کی رضا میں ہے، اس کے قرب میں ہے۔ راستے چاہے کتنے ہی پرخار ہوں، دل چاہے کتنا ہی بوجھل ہو، التجائیں چاہے کتنی ہی بے چین ہوں، اصل منزل وہی ہے جہاں سب سوال ختم ہو جاتے ہیں، جہاں تسلیم کا در کھلتا ہے، جہاں انسان اپنے تمام تضادات، اپنے تمام بکھراؤ، اپنی تمام الجھنوں کے باوجود مطمئن ہو جاتا ہے، کیونکہ اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہی رضا کی راہ ہے، یہی اصل زندگی ہے۔

یہ وہ لمحہ تھا جب انسان کو ٹھہرنا تھا، غور کرنا تھا، خود سے سوال کرنا تھا، مگر اس سے پہلے کہ وہ خود رُکتا، اسے روک دیا گیا۔ وہ جو ہمیشہ دوڑتا رہا، اپنی عقل پر فخر کرتا رہا، اپنی قوت پر نازاں رہا، جب بے بسی کی سرحد پر پہنچا تو کہنے لگا،یہ سب قدرت کا کرنا ہے! مگر کیا وہ جان پایا کہ قدرت کا مالک کون ہے؟ وہ زرّہ جو زمین پر بے مقصد بکھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس کے دل میں چرنے کا ہنر کس نے رکھا؟ وہ پتے جو ہوا میں جھومتے ہیں، انہیں سرگوشی کرنے کی زبان کس نے بخشی؟ وہ دریا جو بہتے ہیں، ان کے بہاؤ میں روانی کس نے پیدا کی؟ وہ دل جو دھڑکتا ہے، اس میں زندگی کی رمق کس نے ڈالی؟سب کی بے بسی پر، ہر قید و بند پر، ہر بند دروازے پر، ہر رک جانے والے سفر پر، کس کا حکم عیاں ہے؟ وہی جو وحدہ لا شریک ہے، جو بے نیاز ہے، جو زندہ اور قائم ہے، جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے انسان ہمیشہ بھولتا رہا، مگر جب اس کے قدم رک گئے، جب اس کے پاس کوئی راستہ نہ بچا، جب اس کی فریادیں لوٹ آئیں، تب اسے معلوم ہوا کہ یہ زمین کسی اور کی ہے، یہ زندگی کسی اور کی عطا ہے، یہ سانسیں کسی اور کی امانت ہیں۔ اور پھر ایک ہی آواز آئی:’’کل من علیھا فان‘‘ ہر چیز کو فنا ہے!۔’’ویبقی وجہ ربک ذو الجلال والاکرام‘‘ بس تیرے ربّ کی ذات باقی رہے گی، جو جلال اور کرم والا ہے! یہی وہ لمحہ ہے جب انسان کو احساس ہوتا ہے کہ سب کچھ ،جس پر اسے بھروسہ تھا، جس کے پیچھے وہ دوڑ رہا تھا، جسے وہ اپنی کامیابی سمجھتا تھا، سب مٹ جانے والا ہے۔ باقی صرف وہ ہے جو ہمیشہ سے ہے، جو ہمیشہ رہے گا، جو ربّ العالمین ہے۔وہی ہے جو چاہے تو رنگینیاں بکھیر دے، چاہے تو چراغ گُل کر دے، چاہے تو ظلمات میں ایسی قید سے آشنا کر دے جو نہ دیکھی ہو، نہ سمجھی ہو۔ مگر وہی ہے جو ہر اندھیرے میں نور کی کرن رکھتا ہے، وہ نور علیٰ نور ہے۔
(رابطہ۔09422724040)
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
۔ ₹ 2.39کروڑ ملازمت گھوٹالے میںجائیداد قرق | وصول شدہ ₹ 75لاکھ روپے 17متاثرین میں تقسیم
جموں
’درخت بچاؤ، پانی بچاؤ‘مشن پر نیپال کا سائیکلسٹ امرناتھ یاترا میں شامل ہونے کی اجازت نہ مل سکی ،اگلے سال شامل ہونے کا عزم
خطہ چناب
یاترا قافلے میں شامل کار حادثے کا شکار، ڈرائیور سمیت 5افراد زخمی
خطہ چناب
قومی شاہراہ پر امرناتھ یاترا اور دیگر ٹریفک بلا خلل جاری
خطہ چناب

Related

کالممضامین

! دُنیا میںحقائق کو مٹانے کا بڑھتا ہوا رُجحان دنیائے عالم

July 9, 2025
کالممضامین

وادیٔ کشمیر میں امرناتھ یاترا کی دائمی روح| جہاں ایشورتاپہاڑوں سے کلام کرتی ہے آستھا و عقیدت

July 9, 2025
کالممضامین

! موسمیاتی تبدیلیوں سے معاشیات کا نقصان

July 9, 2025
کالممضامین

دیہی جموں و کشمیر میں راستے کا حق | آسانی کے قوانین کی زوال پذیر صورت حال معلومات

July 9, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?