2010ایجی ٹیشن کو گزر چکے اب6برس ہوچکے ہیں اور ریاستی انسانی حقوق کمیشن کو آج یاد آئی کہ اُس ایجی ٹیشن کے دوران جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین اور دیگر لوگوں کو کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ اپنے کیسوں کی پیروی یا نمائندگی کرواسکیں۔ریاستی انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے حکمنامہ میں 2010ایجی ٹیشن کو فسادات کا نام دیاگیا ہے اور واضح کیاگیا ہے کہ اُن فسادات کے شکار ہوئے لوگوں کے خواہشمند نزدیکی رشتہ دار سنیچر اور اتوار کو کمیشن کے پاس رجوع کرسکتے ہیں۔گوکہ کمیشن کی تازہ پہل امید افزا ہے تاہم اب بہت دیر ہوچکی ہے اور اس دوران جاریہ سال کی ایجی ٹیشن کے دوران بھی100 کے قریب بے گناہ شہری فورسز کی گولیوں اور پیلٹ چھروں کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن گئے ۔حد تو یہ ہے کہ2016ایجی ٹیشن کے دوران مارے گئے افراد کے معاملات میں موجودہ حکومت نے ایک بھی کیس کی انکوائری کا حکمنامہ صادر نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی کیس کی جوڈیشل یا مجسٹریل انکوائری کی ہدایت دی گئی ہے، تو ایسے میں 6سال پرانے کیسوں کو کھول کر کمیشن کیا حاصل کرنا چاہتا ہے ،اس پر بات کرنا ابھی قبل از وقت ہے تاہم یہ کہنا شاید غلط نہیں ہوگاکہ یہ گھڑے مردے اکھاڑنے کے مترادف ہے ۔اگر کمیشن کو بشری حقوق کی اتنی ہی فکر ہے تو کمیشن کے چیئرمین کو چاہئے تھا کہ وہ جاریہ ایجی ٹیشن کے دوران جرم بے گناہی میں مارے گئے سو سے زائد شہریوں کی اموات کا از خود نوٹس لیتا اور ان کیسوں کے سلسلے میں اپنی سطح پر تحقیقات کا عمل شروع کرکے مہلوکین کے ورثاء کو انصاف فراہم کرنے کی کوشش کرتا لیکن اس کے بجائے کمیشن کو2010ہلاکتوں کی یاد آگئی اور وہ اب اُن ہلاکتوں کی تحقیقات عمل میں لانا چاہتی ہے جبکہ اس دوران متعدد ثبوت و شواہد تلف بھی ہوچکے ہونگے ۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کمیشن کے پاس اپنی تحقیقاتی ونگ موجود ہے اور آئی جی کی سطح کا ایک پولیس آفیسر کمیشن کے تحقیقاتی شعبہ کی سربراہی کررہا ہے تو ایسے میں کمیشن کے پاس سنہری موقعہ تھا کہ وہ حالیہ ہلاکتوں کے سلسلے میں حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کردیتا تاہم ان ہلاکتوں کی تحقیقات عمل میں لانے کی بجائے 2010ہلاکتوں کی تحقیقات سر نو شروع کرنے کا عندیہ دئے جانے سے کیا یہ نہیں سمجھا جا سکتا ہے کہ کمیشن اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی جستجو میں ہے ۔یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ2010ہلاکتوں کے سلسلے میں اُسو قت کی عمر عبداللہ سرکار نے جسٹس ریٹائرڈ موتی لال کول کی سربراہی میں یک نفری جوڈیشل کمیشن تشکیل دیاتھا اور پہلے کمیشن کو17ہلاکتوں کی تحقیقات کیلئے کہاگیا تھا تاہم جون2014میں کمیشن کوسبھی 120سے زائد ہلاکتوں کی تحقیقات کا منڈیٹ دیا گیاتھا ۔جسٹس کول کی سربراہی والا جوڈیشل کمیشن ابھی تحقیقات کے عمل میںہی مصروف ہے اور 6سال گزر جانے کے باوجود بھی یہ کمیشن اپنی رپورٹ پیش نہیں کرسکا ہے اور اب بتایا جارہا ہے کہ اس ماہ کے آخر تک رپورٹ مکمل ہوکر منظر عام پرلائی جائے گی تاہم ماضی کے تلخ تجربا ت کو مد نظر رکھتے ہوئے ابھی وثو ق کے ساتھ کچھ نہیںکہا جاسکتا ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرجوڈیشل کمیشن اُن ہلاکتو ں کی تحقیقات کررہا تھا توپھر انسانی حقوق کمیشن کو انہی ہلاکتوں کی دوبارہ سے تحقیقات کرنے کی ضرورت کیوں درپیش آئی جبکہ کمیشن آرام سے2016ہلاکتوں کی تحقیقات کرسکتا تھا کیونکہ ان ہلاکتوں کیلئے تاحال کوئی جوڈیشل یا مجسٹریل کمیشن قائم نہیں کیاگیا ہے اور ایسے میں انسانی حقوق کمیشن ہی واحد ادارہ بچتا تھا جو حکومت کے کہے بغیر از خود نوٹس لیکر تحقیقات کا عمل شروع کرسکتا تھا تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا کرنے کے بجائے کمیشن نے روایتی طرز عمل اپنا کر وہی کام دوبارہ شروع کیا جودیگر ادارے کر رہے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اگر کمیشن اب2010ہلاکتوں کی تحقیقات کرنے اورواقعی انسانی حقوق کی پاسداری میں سنجیدہ ہے تو کمیشن کو چاہئے کہ وہ2010ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ 2016ایجی ٹیشن کے دوران مارے گئے شہریوں کی ہلاکتوںکی تحقیقات بھی شروع کرے تاکہ کم از کم ملوثین کو کٹہرے میں کھڑا کرکے متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کی کوئی سبیل پیدا ہوسکے ۔حکومت وقت نے حالیہ ہلاکتوں کے حوالے سے اپنے لب سی لئے ہیں اور کوئی بھی حکومتی عہدیدار ان ہلاکتوں پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے ،ایسے میں بشری حقوق کمیشن اُمید ہی واحد کرن ہے، جو انصاف کا بول بالا قائم رکھ سکتا ہے وگر نہ یہی سمجھا جائے گا کہ کشمیر میں انسانی حقوق نام کی شئے ہی ناپید ہوچکی ہے اور یہاں عام شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔