ریاستی عوا م کو اس خبر نے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ جموںوکشمیر میں سٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن کو وہ اہمیت حاصل نہیں، جس کا قانون کے روئے سے یہ متقاضی ہے، جبھی تو رواں برس کمیشن کی طرف سے حکومت کو بھیجی گئی59سفارشات میں سے 44کو مسترد کر دیا گیا ہے اور ان میں سے بیش تر سفارشات اُن معاملات کی شنوائی کے بعد پیش کی گئی ہیں، جن میں ریاستی پولیس یا سیکورٹی فورسز پر پامالی حقوق کے الزامات عائید کئے گئے تھے اور جنہیں کمیشن نے تحقیقات کے بعد مختلف عنوانات سے درست پا کر متاثرین کے نقصان کی بھر پائی کرنے کے لئے کہا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ حکومت کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہے لیکن اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ کمیشن ایک ایسا عضو فاضل ہے ، جس کی انتظامیہ کے سامنے کوئی اہمیت نہ ہو۔ 1997ء میں جموںوکشمیر پروٹیکشن آف ہیومن رائٹس ایکٹ کے تحت معرض وجود میں لائے گئے اس ادارے کو قانونی طور پر یہ ذمہ داری تفویض کی گئی ہے کہ وہ یہ ممکن بنائے کہ انتظامیہ کی طرف سے لئے جانے والے کسی بھی فیصلے سے عام انسانوں کو آئین اور قانون کی رو سے حاصل شدہ حقوق تلف تو نہیں ہو رہے ہیں اور جہاں کمیشن کو ثبوت و شواہد سے ایسا لگے تو سرکار کی جانب سےاسکا ازالہ کرانے کےلئے سفارشات پیش کرنا کمیشن کا فرض منصبی قرار پایا ہے۔ اب ایسے حالات میں اگر حکومت کی جانب سے ان سفاشارت کو روبہ عمل لانے کی بجائے انہیں مسترد کیا جاتاہے تو اس سے اُن مقاصد کی بنیاد پر زد پڑجاتی ہے، جنکے حصول کے لئے اس ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ کمیشن کے پاس جوڈیشل او رایڈمنسٹریٹو شعبوں کے ساتھ ساتھ معاملات کی خصوصی تحقیقات کےلئے آئی جی پی رینک کے ایک آفیسر کی سربراہی میں تفتیش و تحقیق کا شعبہ بھی موجود ہے، جو پیشہ وارانہ اور ماہرانہ طور طریقوں سے شکایات کی تحقیقات کرکے ہی اپنے نتائج پیش کرتا ہے اور اس تحقیق و تفتیش اور انکے قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کمیشن اپنی قطعی سفارشات حکومت کو ارسال کرتا ہے۔ لہٰذا حکومت کی یہ اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان سفارشات کو خاطر میں لاکر انہیں نافذ العمل کرکے عملی طور پر یہ ثابت کرے کہ کمیشن ایک آئینی اور قانون ادارہ ہے نہ کہ ان سفارشات مسترد کرنے کے عمل کو ایک پالیسی کی حیثیت عطا کی جائے، جیسا کہ فی الوقت نظر آرہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ سفارشات حکومت کی جانب سے قائم کردہ اُن کو بااختیار کمیٹیوں کی طرف سے مسترد کی گئی ہیں، جو داخلہ، پولیس ، سی آئی ڈی اور قانون کے محکموں کے افسران پر مشتمل ہوتی ہیں یا پھر ضلعی سطح کی سکریننگ کمیٹیوں کی طرف سےایسا کیا جاتا ہے۔ یہ کہنا غالباً غلط نہ ہوگا کہ حقوق انسانی کی پامالیوں کی بیش تر شکایات قانون نافذ کرنے والے اداروں سے متعلق ہوتی ہیں اور ان ہی اداروں کے افسران و اہلکاروں پر مشتمل کمیٹیاں ہی ان سفارشات کو مسترد کر دیتی ہیں، جس کی وجہ سے حق تلفیوں کے ازالہ کے سارے نظام پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ ایک تازہ معاملےمیں حکومت نے بیروہ کے فاروق احمد ڈار نامی اُس نوجوان، جسے پارلیمانی انتخاب کے دن ایک فوجی افسر نے جیپ کے آگے باندھ کر ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا، کے حق میں کمیشن کی جانب سے 10لاکھ روپے معاوضہ کی سفارش کو مسترد کر دیا تھا، حالانکہ ریاست کی سیاسی و مزاحتمی جماعتوں کی بات ہی نہیں ملک بھر میں اعتدال پسند حلقوں نے اس کاروائی کو حقوق انسان کی بد ترین خلاف ورزی قرار دیا تھا۔جبکہ عالمی س سطح پر اسکی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ اس حرکت کے مرتکب فوجی اہلکار کو زیر تعزیر لانے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ مگر حکومت کی جانب سے مذکورہ نوجوان، جسکو نفساتی طور پر ڈھیر کر دیا گیا ، کو انصاف فراہم کرنا کیوں گوارانہ ہوا اور ا س حوالے سے حقوق کمیشن کی سفارشات کو کیوں مسترد کر دیا گیا، اسکی غالباً وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس امر سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ اور سر بلندی کے معاملے میں ریاستی حکومت کا معیار دوہرا ہے اور یہ طرز عمل عمومی طور پر صورتحال میں بہتری پیدا کرنے کی بجائے مزید ابتری کا سبب بن سکتا ہے۔ حکومت فی الوقت ریاستی عوام کو مین اسٹریم دائرے میں لانے کے لئے تمام طور طریقے آزمانے میں مصروف ہے، لیکن اگر حقوق انسانی کے حوالے سے کھلم کھلا دہرا معیار اختیار کیا جائے تو ان کوشش سے کیا حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر ریاستی سرکار کو سنجیدگی اور نیک نیتی سے غور کرنا چاہئے ۔