Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

حقائق کیا کہتے ہیں ؟

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: April 3, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
18 Min Read
SHARE
نگہدار دبرہمن کار خود را
بہ کس ہرگز نگفت اسرار خود را
مرا گوید کہ از تسبیح بگذر
بدوش خود نہد زنار خود را!
ترجمہ: برہمن اپنی دھن کا پکا ہے، اپنا بھید کسی پر نہیں کھولتا، مجھ سے کہتا ہے تسبیح کے پرے پھینک، مگر اپنا زنار اپنے کاندھے سے ہرگز نہیں اُتارتا۔
ان اشعار کا اطلاق کشمیر کے حوالے سے ہندوستانی پروپیگنڈا مشینری پر بخوبی ہوجاتا ہے۔ جھوٹ بولنے کے لیے بھی کم از کم کوئی افسانوی بنیاد ہونی چاہیے ، اس ملک کے حکمران، ایجنسیاں اور میڈیا جھوٹ کی بے بنیاد کڑیوں کو ملا کر زمینی حقائق کی پردہ پوشی کرکے اپنے ہی ملک کے کروڑوں عوام گمراہ کررہے ہیں یا انہیں آدھا سچ بتارہے ہیں۔ کشمیر اور مسلم اکثریتی پیر پنچال اور وادی ٔ چناب کے بارے میں آج تک اپنے گناہوں اور گھناؤنے کارناموں کو چھپانے کے لیے میڈیا ، پولیس اور حکومت کے بڑے بڑے ذمہ دار بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ پہ جھوٹ تصنیف کر تے جارہے ہیں، وہ بھی روایتی بھونڈے انداز میں۔ یہ لوگ اپنی یہ نامعقول روش ترک کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں اور موقع بے موقع عام کشمیریوں کو مورد الزام ٹھہراکر اُنہیں اپنی غیرت اور حمیت بلکہ اپنی انسانیت تک چھوڑ دینے کو  برملاکہتے ہیں۔۲۸؍مارچ کو چاڈورہ میں پولیس اور فوج نے ایک مکان میں موجود عسکریت پسندکے خلاف جوں ہی کارروائی کا آغاز کیا تو آس پاس کے دیہات سے سینکڑوں نوجوانوں نے انکاونٹر والی جگہ کا رُخ کرکے حسب معمول فوج اور پولیس کے خلاف مظاہرے شروع کردئے، اس دوران نوجوانوں نے وردی پوشوں کے کارروائی میں رخنہ ڈالنے کے لیے سنگ باری بھی کی ، جس کی وجہ سے پولیس اور فوج کو عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، حالانکہ مکان میں موجود عسکریت پسندکو یہ نوجوان محاصرے سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئے ، البتہ اِنہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر راست گولیوں کا مقابلہ کرکے فوج اور پولیس کے ساتھ دو دو ہاتھ ضرور کئے۔فوج اور سی آر پی ایف نے آرمی چیف بپن روات کی پیشگی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے ان سینکڑوں نوجوانوں پر راست بندوق کے دہانے کھول کر تین معصوم نوجوانوں کو ابدی نیند سلادیا اور دیگر دو درجن کے قریب نوجوانوں کو بُری طرح سے زخمی کردیا گیا۔جس عسکریت پسند سے نبرد آزماہونے کے لیے پولیس، فوج اور سی آر پی ایف پورے لاؤ لشکر کے ساتھ چاڈورہ کی مخصوص بستی میں میدان جنگ سجا چکے تھے ، اُس کے بارے میں بعد میں میڈیا میں یہ تحقیق طلب رپورٹیں شائع ہوئی ہیں کہ وہ بیمار تھا اور اُس کے پاس صرف ایک پستول تھا۔ مبینہ طور بیمار عسکریت پسندپر’’فتح ‘‘ پانے کے لیے فوج اور پولیس کو نو گھنٹے کی طویل جنگ لڑنی پڑی، تین عام شہریوں کی جان لینی پڑی اور کروڑوں روپے مالیت کے مکان کو بارود سے اُڑانا پڑا۔عام شہریوں کو جان بحق کرنے کی کارروائی کو جواز فراہم کرنے کے لیے شام کو سی آر پی ایف کے ترجمان نے اخباری نمائندوں کو واقعہ کی بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ آج کا دن ہمارے لیے مشکل ترین دن تھا کیونکہ ہمارے اہلکاروں کو دو محاذوں پر جنگ لڑنی پڑی۔ایک جانب عسکریت پسند تھا،دوسری جانب عام احتجاجی نوجوان سنگ باری کررہے تھے۔پولیس کی جانب سے بھی ایک بیان اخبارات میں شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ انکاؤنٹر کی جگہ پر نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے سے جمع کیا جاتا ہے اوراُنہیں سرحد پار سے ہدایات دی جارہی ہیں۔پولیس کے اس بیان کو بعد میں دلی کی مختلف ٹی وی چینلوں نے بنیاد بناکر ایسی ایسی فرضی کہانیاں گھڑکر شام کو پرائم ٹائم میں ایسے شو چلائے جو صحافتی معیار کے ادنیٰ کسوٹی پر بھی پورا نہیں اُترتے۔ یہ جھوٹ اور بے پرکی بڑی بے تکلفی سے اڑای گئی کہ تین تین سو اور چار چا سو روپے کی لالچ میں کشمیری نوجوانوں کو اپنی جان پر کھیلنے کو کہاجاتاہے ۔ان رام کہانیوں کی صداقت پر کسی بھی معمولی عقل وفہم والے کو ہنسی آسکتی ہے۔ گزشتہ  ستائیس سال سے ایسی ہی قصہ کہانیوں سے مظلوم کشمیریوں کی شبیہ بگاڑنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی ہیں۔ اس مدت کے دوران ہماری ایک ایسی گھٹیا تصویر دنیا کو دکھائی گئی  جیسے یہاں کے باشندوں نے کبھی دمڑی بھی نہیں دیکھی ہو اور دو دو تین تین سو روپیوں کی لالچ میں یہاں کے نوجوان آٹھ لاکھ ریگولر آرمی کے سامنے سینہ تانے کھڑا ہوجاتے ہیں۔ 
چاڈورہ میں ہوئی تازہ جھڑپ میں وردی پوشوں نے تین گھرانوں کے چشم و چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گل کردئے ہیں،پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی زاہد رشید گنائی، عامر فیاض وازہ اور اشفاق احمد کووردی پوشوں نے راست گولیاں مارکر ابدی نیند سلا دیا گیاہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ویڈیوز اور تصویر وں سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ پولیس اور سی آرپی ایف اہلکاروں نے نشانہ تان کر احتجاجی نوجوانوں پر گولیاں برسائی ہیں۔مانا کہ یہ نوجوان آوپریشن کو ناکام بنانے کے لیے پولیس اور فوج کے کام میں رخنہ ڈال رہے تھے، مانا کہ یہ سنگ باری کررہے تھے لیکن یہ کون سا قانون ہے کہ عام نوجوانوں کے خلاف بندوق کے دہانے کھولے جائیں، عام لوگوں کے خلاف اس طرح جنگ لڑی جائے جیسے کسی ریگولر آرمی کے ساتھ دوبدو لڑی جاتی ہو۔ کس ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ اپنے سیاسی حقوق کی مانگ کرنے والی عوام پر طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا جارہا ہو؟کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں ایک ملک کی آٹھ لاکھ ریگولر آرمی، نیم فوجی دستے اور پولیس پوری عوام کے خلاف برسر جنگ ہیں۔مہذب دنیا کا کوئی بھی قانون یا انسان پولیس اور سی آر پی ایف کی اس تھیوری کو تسلیم نہیں کرے گا کہ سنگ بازی کا مقابلہ راست گولیوں اور پیلٹ گن سے کیا گیا ہے۔چاڈورہ واقعے پر پولیس ، سی آر پی ایف اور بھارتی میڈیا کی پروپیگنڈا مشینری کا واحد مقصد سویلین جانوں کے زیاں سے توجہ ہٹانا تھا۔پروپیگنڈا یہ کیا جارہا ہے کہ نوجوانوں کو گولیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تین تین سو ، چار چار سو دئے جارہے ہیں۔ ان عقل کے اندھوں سے کوئی یہ کیوں نہیں کہتا ہے کہ ایسا کون ہوگا جو محض دو سو یا تین سو روپے کے لیے اپنی جان گنوانے کے لیے تیا ر ہوگا؟بھارتی میڈیا پر بیٹھے لوگوں سے کوئی یہ  سوال پوچھنے کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتا کہ بھئی اگر سرحد پار سے پاکستان یہاں کے نوجوانوں کو پیسوں کی لالچ دے سکتا ہے ، آپ پھر اُن نوجوانوں کو چار سو کے بجائے ایک ہزار دے کر خاموش رہنے پر آمادہ کیوں نہیں کرپاتے ہو؟ تم لوگوں کو پھر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرنے کی ضرورت کیوں پڑجاتی ہے؟ پھر تو یہ تمہاری ناکامی ہے اور تمہیں اس بات کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ پڑوسی ملک کی ایجنسیوں سے تمہاری خفیہ ایجنسیاں اور حکومتی کارند ے نیند کے ماتو ہیں۔
کوئی بھی کشمیری یہ نہیں چاہتا ہے کہ اُن کے نونہالوں کے ہاتھوں میں ہتھیار ہو اور وہ روز اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہیں، کوئی بھی والد یہ نہیں چاہیے گا کہ اُن کا بیٹا فورسز اہلکاروں کے سامنے نہتا ہو کر بھی اُنہیں للکارے اور بدلے میں اُن کی گولیوں کا شکار ہوجائے، کوئی بھی ماں اپنے بیٹے کی لاش دیکھنے کی تمنا نہیں کرے گی، کسی بھی شخص کو اپنی نوجوان نسلوں کو بینائی سے محروم دیکھنا اچھا نہیں لگ ہی سکتا، کسی بھی کشمیری کی خواہش یہ نہیں ہوگی کہ رات کی تاریکیوں میں وردی پوش اُن کے گھروں میں گھس جائے اور اُن کے نونہالوں کو اُٹھاکر لے جائے ، اُنہیں تھرڑ ڈگری ٹارچر کرے اور اُنہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دے، کوئی بھی ادنیٰ سے ادنیٰ کشمیری بھی یہ خواہش نہیں رکھتا ہے کہ اُس کے بچوں کے ہاتھوں میں قلم اور کاغذ کی جگہ پتھر اوربندوق ہو… پھر کیا وجہ ہے کہ یہ سب نہ چاہتے ہوئے بھی یہاں کی نوجوان نسل پڑھائی کو خیر باد کہہ کر عسکریت پسندوں کے صفوں میں شامل ہورہی ہے، جھڑپ کے دوران سینکڑوں نوجوان اپنے والدین کی تلقین و تنبیہ اور آرمی چیف سے لے کر ڈی جی پی تک کی دھمکی کو فراموش کرکے سڑکوں پر نکل آتے ہیں، برستی گولیوں میں سینہ تان کر وردی پوشوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں؟پھر کیوں مزاحمت کا جنوں ہماری نئی نسل کے سر پر سوار ہے؟کیوں فطرتاً شریف اور امن پسند کشمیری قوم کے نونہال تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہورہے ہیں؟ان سوالات کا جواب ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ جب دلی خواہشات کے ا ظہار پر پہرے بٹھائے جارہے ہوں ، جب سیاسی خوابوں کی تکمیل کے تمام پرامن ذرائع ممنوع قرار دئے گئے ہوں، جب نعرے بلند کرنے پر بھی قدغن ہو، جب اپنے بنیادی حقوق کی مانگ کرنا جرم ٹھہرایا جاتا ہو، جب سرکاری سطح پر عوام کے جذبات پر نمک پاشی کی جارہی ہو، جب معززین کی عزتیں اچھالی جارہی ہوں، جب سانس لینے پر پابندی ہو، جب پیر وجوان اور بچوں پرجیل اور زندان کے پھاٹک کھولے جارہے ہوں ، جب عوام کے خلاف سرکار کے ہر جرم اور گناہ دیش بھگتی کا ثبوت سمجھ کر سند قبول مل رہا ہو تو پھر تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق کمزور سے کمزور تر انسان بھی آخری چارۂ کار کے تحت انتہائی اقدام پر مجبور ہوجاتا ہے ۔یہاں آج تک یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ یہاں ترقیوں کے لیے فرضی انکاونٹروں کا ڈراما رچایا گیا، یہاں بلاوجہ نوجوانوں کو پولیس تھانوں میں بلاکر طرح طرح سے ہراساں کیا جاتا رہاہے تاکہ ان سے تاوان وصولا جائے، یہاں پڑھی لکھی قوم کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے کی روایت قائم کی گئی ہے۔ برق رفتار انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ا س دورمیں پرورش پانے والی نوجوان نسل کو جب آپ بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیں گے تونتائج ایسے ہی ہونے ہیں، پھر دنیا کی بڑی آرمی کا جنرل عام لوگوں کو دھمکی دینے پر مجبور ہوجاتا ہے خبردار، اور پولیس چیف کو وارننگ جاری کرنا پڑتی ہے ۔یہ لوگ اپنی کارروائیوں کا جواز فراہم کرنے کے لئے پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہیں حالانکہ حالات کو خود اس قدر ابتر بنانے میںان کو اپنا ہاتھ کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ سیاست دانوں کی ووٹ بنک سیاست کے لئے ہٹ دھرمیاں ، وردی پوشوں کا اپنی ترقیوں او رمفادات کے لیے من مانیاں کرنا، ظلم و جبر ڈھانا ، انسانی حقوق کی بے حرمتیاں کر نے کے رواج نے یہاں کی نوجوان نسل کو اب بے خوف بنادیا ہے۔ اس نسل نے تمام دروازے بنددیکھ کر اب خود اپنے راستے تلاشنے شروع کردئے ہیں۔آپ اس صورت حال کے سوشل میڈیا کو ذمہ دار گردانتے ہیں، اور آپ کے نزدیک شاید مسئلہ کا حل یہ ہے کہ پوری آبادی کو گھروں یا قبروں میں مقید کرکے قبرستان کی خاموشی قائم کی جائے جسے بحالی ٔامن کانام دیا جائے۔یہ پہلے سے کی گئیں غلطیوں پر ایک اور خوف ناک غلطی کا اضافہ ہوگا۔سوشل میڈیا پرپابندی عائد کرکے آپ غم اورغصہ کا اظہار کرنے کے پیلٹ فارم سے یہاں کی نوجوان نسل کو محروم کرکے اُنہیں نئی راہیں تلاش کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔
ہماری نوجوان نسل کو شدت پسندی کی جانب دھکیلنے کے اس پورے منظرنامے کا اگرغیر جانب داری سے تجزیہ کیا جائے تو صاف صاف نظر یہی آئے گا کہ اس کے لئے حکومت ہند، یہاں کی مقامی انتظامیہ اور مختلف فورسز ایجنسیاں ذمہ دار ہیں۔ ہاں ان کا کچھ نہیں بگڑرہاہے بلکہ نقصان ہمارا ہورہا ہے، نسل کشی ہماری ہورہی ہے، گھر ہمارے برباد ہورہے ہیں، حکومت ہند پوری کشمیری قوم کو دشمن تصور کررہی ہے، فورسز ہماری نسل کشی سے اطمینان محسوس کررہی ہیں حالانکہ اُنہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کسی قوم کو طاقت سے دبانے کے نتائج الٹے بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی زیر تسلط قوم میں جو آگ غالب قوت لگادیتی ہے، اس کی چنگاریاں کبھی نہ کبھی آگ کے کھلاڑیوںکو بھی بھسم کرکے ہی دم لیتی ہیں۔دانشمندی اسی میں ہے کہ مسئلہ کشمیر متعلقہ فریقوں کے مابین افہام و تفہیم سے منصفانہ بنیادوں پر حل کیا جائے، اس کے لئے صرف بات چیت کا راستہ اختیار کیا جائے، بنیادی مسئلے یعنی مسئلہ کشمیر کو ایڈریس کیا جائے، پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے اُن کے ساتھ امن اور ودستی کی زبان میں گفتگو کی جائے، ان کو بھی چاہیے کہ ہر سنجیدہ اقدام کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی روش ترک کریں، دونوں ملک اپنی کشمیرپالیسی کو شیش خانوںمیں وضع کر نے کی بجائے یہاں کے زمینی زمینی حقائق کا ادارک کر نے کی خو اپنے اندر پیدا کریں ، کشمیر حل کے ضمن میں علی الخصوص یہاں کی ایثار پیشہ نوجوان نسل کے جذبات کی حقیقی ترجمان قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔ بھارتی ہیوم منسٹر کہنے کو ضرور کہتے ہیں کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن محض بیان برائے بیان نہیں بلکہ خلوص نیت کے ساتھ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی جانب اگر کوئی ٹھوس پہل کی جاتی ہے تو قیادت کیوں کنی کترائے؟دلی سرکار کو سمجھنا چاہیے کہ ماضی میں فوجی طاقت سے خوف پیدا کیا جا سکتا تھا مگر اب یہاں اس کا الٹا اثر ہورہا ہے، کشمیری قوم بے خوف ہورہی ہے۔ اگر وردی پوشوں کی جانب سے ظلم و جبر کا یہ بے قابو سلسلہ یونہی چلتا رہا تو پھر کشمیری عوام میں اس کاردعمل کیاہو،ا س کا شاید دلی اور اس کے مقامی حواریوں کو پیش بینی نہیں۔بہتر یہی ہے کہ دلی بالغ نظری سے کام لے کر اپنی روایتی ضد اورہٹ دھرمی کوترک کشمیر حل کے پروسس پر فوری توجہ دے ۔ اس وقت بھاجپا کے پاس مطلوبہ سیاسی طاقت موجودہے مگر اس میں اول ہمت نہیں ، ودم ووٹ بنک کی سیاست آڑے آرہی ہے۔ بایں ہمہ ایک بار سنگھ پریوار اس دردسر کا موثراور قابل قبول سیاسی علاج ومعالجہ کرتی ہے تو بر صغیر میں امن اور خیر سگالی کی مشعلیں فروزاں ہونے میں دورائے نہیں ۔اس حوالے سے دلی کو کشمیری قوم سے زیادہ کوئی Co-operative نہیں ملے گا مگر شرط یہ ہے کہ کشمیر حل اس کامطمح ِ نظر ہو۔
رابطہ9797761908
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

کشمیر سے کنیا کماری تک اب محض ایک نعرہ نہیں بلکہ حقیقت ہے: منوج سنہا
تازہ ترین
وزیر اعظم نریندر مودی نے کٹرا سے سری نگر وندے بھارت ایکسپریس کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا
تازہ ترین
جموں و کشمیر: وزیر اعظم نریندرمودی نے دنیا کے سب سے اونچے ‘چناب ریل پل’ کا افتتاح کیا
تازہ ترین
لیفٹیننٹ جنرل پراتیک شرما کا دورہ بسنت گڑھ، سیکورٹی صورتحال کا لیا جائزہ
تازہ ترین

Related

کالممضامین

آدابِ فرزندی اور ہماری نوجوان نسل غور طلب

June 5, 2025
کالممضامین

عیدایک رسم نہیں جینے کا پیغام ہے فکر و فہم

June 5, 2025
کالممضامین

یوم ِعرفہ ۔بخشش اور انعامات کا دن‎ فہم و فراست

June 5, 2025
کالممضامین

حجتہ الوداع۔ حقوق انسانی کاپہلا منشور فکر انگیز

June 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?