حفیظ میرٹھیؔ ۱۰ جنوری ۱۹۲۲ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۲ء میں جماعت اسلامی ہندمیں شمولیت اختیارکی اور سرکاری ملازمت کاقلادہ گردن سے اتار کر میرٹھ ہی میں ’ فیض عام کالج‘ سے منسلک ہو گئے۔ ان کے والد حکیم محمد ابراہیم خلیل کہنہ مشق شاعر تھے اور خیال یہی ہے کہ انھوں نے شاعری کا فیض والد سے ہی حاصل کیا۔ہندکی سیاست ، ۴۷ء میںہندوستان کی ’ولادتِ ثانی‘کے بعدعجیب وغریب ڈگرپرغامزن ہے۔چھوت اچھوت کی بیماری ابتداسے موجودہے ،جس کی وجہ سے آئے دن نچلی ذات سے وابستہ معصوم افراد زن ومرد،پیروجواںکُچلے جاتے ہیں،سیاست کی بھینٹ چڑتے ہیں۔ذہنوںمیںچھوت اچھوت کی ناپاکی موجودہے اور دوسری طرف ’سُوچ بھارت ابھیان‘ کے تحت گلی کوچوں کوصاف ستھرارکھنے کی مشق بھی زوروں پر ہے۔’گئوماتا‘کی عظمت انسانی جان سے بھی بڑھ کرہے۔جانوروںکے حقوق تومحفوظ ہیںالبتہ حضرت انسان بالخصوص مسلمانوںکے جملہ حقوق غیرمحفوظ۔۔۔!کتوںکی بڑھتی آبادی توکوئی مسئلہ نہیںلیکن انسانوںکی بڑھتی آبادی ’تھریٹ ٹونیشن‘ (Threat to Nation) کے زمرے میں آجاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک کی بڑی پارٹی، کانگریس کی سابقہ چیرپرسن اور وزیر اعظم آنجہانی اندھرا گاندھی جی نے جب۱۹۷۵ء میں ایمر جنسی نافذ کی اورملک کے باشندوں خاص کرمسلمانوںکوجبری نسبندی کروائی گئی۔ بے شمار سیاسی کارکنوں،جن میںہندو،مسلم، سکھ مذہب سے وابستہ لوگ شامل تھے، کو’ Defence of India‘رولزکے تحت پابندِسلاسل کیاگیا۔ حفیظ میرٹھیؔ کوبھی سیاسی کارکنان کی طرح تین ماہ تک ’سرکاری مہمان ‘ بناکرحبس بے جاِمیںرکھاگیا۔ ۱۹۷۵ء سے ۱۹۷۷ء تک جاری ایمرجنسی کے دوران آنجہانی اندرا گاندھی کاخاندان ہندوستان کو اپنی ذاتی جاگیر کے طور پر چلاتے رہے۔ پریس پر مکمل سنسر شپ عائد کیاگیا اور بنیادی حقوق معطل کئے گئے۔ ’جمہوریت کی اس دیونگری‘ میںجہاں جہاں عوام نے مذاحمت کی، حکومت نے بجبر اُن کو خاموش کرایا۔ حفیظؔ میرٹھی نے اپنے شعر میں اس تلخ حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا ؎
داد دیجئے کہ ہم جی رہے ہیں وہاں
ہیں محافظ جہاں قاتلوں کی طرح
اس آمرانہ دورمیں ہی ۱۹۷۶ء میں میرٹھ کے ٹائون ہال کے مشاعرے میں حفیظ میرٹھیؔ نے ہندوستان بھر میں جاری اس ظلم و جبر پر زبردست تنقید کرتے ہوئے غزل پڑھی۔اپنے مخصوص انداز میں انھوں نے ملک کی صورتحال کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ؎
آج کچھ ایسا طے پایا ہے حق کے اجارہ داروں میں
ہم پر جو ایمان نہ لائیں، چنوا دو دیواروں میں
اک جابر کا مجبوروں نے ایسا استقبال کیا
آ نکلا ہو کوئی مسیحا جیسے درد کے ماروں میں
یہ حکومتِ وقت کے ظلم و تشدد پر براہِ راست چوٹ تھی۔ اس مزاحمت کا ’پھل‘ اُن کو دوبارہ جیل کی کال کوٹھری کی صورت میں ملااور ۱۹۷۷ء میں ایمر جنسی کے ’انتقالِ پرملال‘ تک سرکارکے ’مہمان‘رہے۔ہرمومن اورراست باز کی طرح انھیںبھی جیل کی سختیاں اپنے موقف اور نصب العین سے ہٹا نہ سکیں۔ انھوںنے ہتھیارتونہیںچھوڑے بلکہ ڈنکے کی چوٹ پرحق بات سناتے رہے اورظلم کے خلاف مزاحمتی ادب کی تخلیق کرتے رہے ؎
بے عصا اپنی کلیمی ہے تو کیا
وقت کے فرعون سے ڈر جائیں کیا
حفیظؔ مرحوم کی مشہور نظم ’’ زنجیریں‘‘ اسی عہدِ اسیری کی یادگار ہے۔ جس میں اُنھوں نے پیش گوئی کی تھی کہ مقصدتک رسائی کے لئے آگ کے دریاسے گزرنا ہی پڑتاہے۔ زنجیر،کال کوٹھری،جیل اورظلم کی جوبھی شکل ہے،وہ عزم واستقلال میںکمی واقع نہیںکرتی بلکہ امیدکی کرن ہرآن موجودرہتی ہے۔سختیاںمستقل نہیںبلکہ عزائم پختہ ہوںتویہ زنجیریں ہی آزادی کی نویدسنادیتی ہیں اورظلمت کی کالی گھٹائیں،سورج کی ایک کرن سے ہی دم توڑدیتی ہیں۔
تقسیم ہندنے ایک طرف تومسلمانوںمیںامیدکی فضاقائم کی لیکن دوسری طرف ہندکاانتخاب کرنے والے مسلمانوںکومخمصے میںمبتلاکیا۔ان کایہ انتخاب کتناصحیح رہااورکتناغلط ،عیاںراچہ بیاں،کھلی کتاب کی طرح دنیااس وقت اس کامشاہدہ کررہی ہے۔ہندوستان کی آزادی کے لئے جس قوم نے برطانیہ کومیدان میںشروع میں للکارا،جنہوںنے اپنی جان،جائداد،عزت ،روٹی غرض سب کچھ دائو پرلگایا۔جن لوگوںنے ہندوستانیوں کوتہذیب سے آشناکیا۔تمدن کی داغ بیل ڈالی،علم و ہنرکے چشمے جاری کئے،انسانیت کابھولاہواسبق ازبرکرایا،ادب وفلسفہ کی تعلیم دی،وطن کے ناموس کے لئے بے شمارقربانیاںدیں،وہی مسلمان قوم آج اس دیش میںاپنی پہچان کاجنازہ نکلتے دیکھ رہاہے۔اپنے ملک میںہی وہ غریب الغرباء ہے۔حفیظ ؔمیرٹھی کو اس بات کا ادراک تھا ۔ان کامانناتھاکہ مسلمانوں کو تمام تر مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود ہندوستان میں ہی رہنا ہے اور اپنے لیے قومی زندگی میں ایک با عزت مقام حاصل کرنے کے لیے انتھک جدو جہد کرنی ہے۔ہندوستان سے موصوف کاقلبی تعلق تھا۔جابجااپنے اشعارمیںاس بات کااظہارانھوںنے شاعرانہ اسلوب میںکیاہے ؎
کبھی قفس سا،کبھی آشیاںسالگتاہے
یہ میراگھرمجھے ہندوستاںسالگتاہے
قیام پاکستان کے بعد ہندوستانی مسلمان کافی عرصے تک صدمے اور سکتے کے عالم میں کسی مؤثر رہنماکے بغیر زندگی بسر کرتے رہے اورحقیقت یہ ہے کہ ابھی بھی ہندوستان کے مسلمان’قحط الرّجال‘کے مرض میںمبتلاہیں۔کوئی مخلص رہنمادکھائی نہیں دیتا۔’قائدِاعظم ثانی‘ جیسارجل رشیدپیداہی نہیںہوتا۔بہت سے رہنمامصلحت کی چادریں اوڑھے ہوئے موجودہ دورکی حزبِ اقتداریاحزبِ مخالف گروہوںمیںضم ہوگئے۔مسلمانوں کی سیاسی قوت رو ز بروز گرتی چلی گئی۔پاکستان کاوجود ہندو اکثریت کی نظروںمیں بہت بڑا جرم ہے۔ ان کے خیال میں مسلمانوںنے تخلیقِ پاکستان کی صورت میںاپناحق وصول کرلیا۔اور اب ’اکھنڈبھارت ‘ پر ان کا کوئی حق باقی نہیں رہا۔ اپنی پہچان دائو پر لگتی دیکھ کے مسلمانوں نے اپنی ایک منظم اور متحدہ آواز اُٹھانے والی جماعت کے قیام کے بارے میںغوروفکرکرناشروع کیا ،یہ سوچ بتدریج اُبھرنے لگی ۔حفیظ ؔمیرٹھی نے اسی سوچ کے تحت جماعت اسلامی ہند میں شمولیت اختیار کی اور بے مثال شاعری کے ذریعے اپنے نصب العین کو اُجاگر کرتے رہے ؎
حصارِجبرمیںزندہ بدن جلائے گئے
کسی نے دم نہیںمارامگردھواںبولا
پے درپے ذاتی حوادث کے باوجود حفیظ ؔمیرٹھی کی شاعری میں ذاتی غم کے بجائے ہندوستان میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے پورے دور کے تاریک شب و روز کی عکاسی ہے۔ ہندوستان جیسے’ آزاد ملک‘ میں مسلمان ایک طرح سے محاصرے کی زندگی گذار رہے ہیں، اِسے حفیظ ؔ نے’’ حصارِجبر ‘‘ کا نام دیا تھا۔ اُن کی شاعری میں مشعلوں کی طرح جلتے ہوئے مکان ، محافظوں کے روپ میں قاتلوں کے گروہ اور نوازنے کے نام پر دامن کی دھجیاں اُڑانے جیسی تلخ حقیقتوںکا اظہار غزل کی زبان میں بڑی قوت کے ساتھ ہوا ہے ؎ ؎
کہا نہ تھا کہ نوازیں گے حفیظؔ تجھے
اُڑا کے وہ مرے دامن کی دھجیاں ، بولا
موصوف گردشِ ایام کابغورمشاہدہ وتجزیہ کرتے ہوئے اس نتیجے پرپہنچے کہ چہارسوغمناکی ونمناکی کی بنیادی وجہ موجودہ فاسدنظام ہی ہے ؎
ہائے یہ کیامقام ہے،ہائے یہ کیانظام ہے
عشق کہ آستین بھی نم،حسن کی آستین بھی نم
فاسدنظام کے ان مکروہ نتائج کودیکھ کرحفیظؔ المِ بغاوت بلندکرتے ہیں۔ ایوانوںتک صدائے احتجاج بلندکرتے ہیں۔ظلمت کے پرستاروںکوبھولاہواسبق یاددلاتے ہیںاورمستقبل میںھاصل ہونے والی متوقع کامیابی کامژدہ یوںسناتے ہیں ؎
طلسم ٹوٹ رہا ہے نطامِ باطل کا
اجالے آئے اندھیرے فرارہوتے ہیں
حفیظ ؔکے کلام میں اکثریت کے تسلط کے خلاف احتجاج کی ایک بلند آہنگ آواز بڑی قوی اور نمایا ں ہے۔ ترقی پسند اپنے آپ کو بزعم خود انقلابی ہونے کا دعوے دار بنا کر پیش کرتے تھے اور اُن کے حلقے سے باہر کے لوگ رجعت پسند ٹھہرائے جاتے تھے۔ لیکن حفیظ ؔنے جس جرٔت کے ساتھ مسلمانوں کو درپیش مسائل کو اپنی شاعری میں پیش کیا ۔ ان کے کلام میںہرطبقے کی آوازشامل ہے اوریہی اصل انقلابی شاعری ہے ؎
سمٹے بیٹھے ہوکیوں بزدلوں کی طرح
آئو میدان میںغازیوںکی طرح
۱۸مئی ۱۹۸۱ء کوحفیظ میرٹھی ’فاران‘ کے ایڈیٹراورمشہورادیب ماہرالقادری مرحوم کی یادمیں کراچی میںمنعقدہ مشاعرے میںحصہ لینے کیلئے پاکستان گیے۔حفیظ کی مرصع اورانتہائی بامعنی غزل اورمخصوص اندازمیںپڑھنے کاسحرپوری فضاپرچھاگیااورغزل مکررپڑھوائی گئی ؎
کون رکھتاہمیںموتیوںکی طرح
مل گئے خاک میںآنسئووںکی طرح
روشنی کب تھی اتنی مرے شہرمیں
جل رہے ہیںمکاںمشعلوںکی طرح
داددیجیے کہ ہم جی رہے ہیںوہاں
ہیںمحافظ جہاںقاتلوںکی طرح
زندگی اب ہماری خطابخش دے
دوست ملنے لگے محسنوںکی طرح
کیسے اللہ والے ہیںیہ اے خدا
گفتگو،مشورے،سازشوںکی طرح
نصف صدی سے زائدعرصہ میںاردوادب اورشاعری کے تحقیقی وتنقیدی سرمائے کابیشترحصہ ترقی پسندمصنفین کی تحریروںپرمشتمل ہے۔ان حضرات نے بڑے اہتمام سے ایسے ادیبوںاورشعراء کواپنے مطالعے،تحقیق اورتنقیدسے نظراندازکیا،جوان کے ترقی پسندقبیلے میںشامل نہیںتھے یاجن کاتعلق کسی طرح سے بھی نظریاتی طورپران کے مخالف کیمپ سے تھا۔حفیظؔ نے شاعری کی ابتدا۱۹۴۰ء کے عشرے میںکی۔انہوںنے ادبی وکلاسیکی شاعری میںاپنے لئے اعلٰی مقام حاصل کرلیاتھا۔ہندوستان اوربیرونی ممالک میںہونے والے اہم مشاعروںمیںوہ خصوصی طورپرمدعوکیے جاتے تھے لیکن چونکہ وہ عملی طورپرجماعت اسلامی ہندکے کارکن تھے،اسلئے ان کی شاعری اورادبی مقام کوتحقیق اورتنقیدکی حدتک نظراندازکیاگیااوراردودنیاہنوزاس جرم کی مرتکب ہے۔اجارہ داری ادب میںبھی سرایت کرچکی ہے۔منظورِنظرلوگ کہاںسے کہاںپہنچے اورنطریاتی اختلاف رکھنے والے ادباء کویہ ’مشاہیر‘کسی شمارمیںہی نہیںلاتے۔
۲۵ اگست ۱۹۸۱ء کولندن کے نواحی علاقے’چگ ویل‘میںیو۔کے اسلامک مشن کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پرمشاعرہ ہوا،جس کی صدارت برطانیہ میںمقیم تحریک اسلامی سے وابستہ قادرالکلام شاعرعبدالرحمان بزمیؔ نے کی۔مشاعرے کی ابتداحفیظ میرٹھی ؔنے اپنے نعتیہ کلام سے کی ؎
کسی قیصر،کسی کسرٰی کوخاطرمیںنہیںلاتے
غلامانِ محمدکی اداسب سے نرالی ہے
’انجمن ترقی اردوبرطانیہ‘ کے زیراہتمام ۵ستمبر۱۹۸۱ء کوحفیظ میرٹھیؔ کے اعزازمیںخصوصی شعری نشست کااہتمام کیاگیا۔اس محفل میںبرطانیہ میںمقیم ہندوپاک کے مقامی اُردو شعراء اوربا ذوق اشخاص نے شرکت کی۔حفیظؔ کواس مشاعرے میںاپنی شعری تخلیقات کوکھل کرپیش کرنے کاموقع ملا ؎
ہم تودیوانے ٹھہرے ہیں،کیاہوخبر
جانے کیوںہنس پڑے،جانے کیوںرودیے
’اردومرکز‘کے تحت ۲۱ ستمبر۱۹۸۷ء کولندن میںہی ایک مشاعرہ ہوا۔جس میںہندوپاک کے شاعروںنے شرکت کی۔مشاعرے کی صدارت ہندوستان کے مشہورشاعرکیفی اعظمیؔ نے کی۔شعراء میںحفیظؔ کے علاوہ مہندرسنگھ بیدی سحرؔ،قتیل شفائیؔ،ضیاء جالندھریؔ،حسن رضویؔ اوراحمدفرازؔشامل تھے۔حفیظؔ ترقی پسندشعراء کے ساتھ اسٹیج پرتھے اورسامعین میںبھی انہی شعراء کے عقیدت مندوںکی تعدادغالب تھی۔حفیظؔ نے اس موقعہ پرحسبِ حال ایک مرصّع غزل پیش کی۔غزل میںغضب کی روانی اورخیالات میں بے پناہ جدّت ہے ؎
دل فروشوںکیلئے کوچہ وبازاربنے
اورجاںبازوں کی خاطررسن وداربنے
بس یہی دوڑ ہے،اس دورکے انسانوںکی
تیری دیوارسے اونچی مری دیواربنے
غیرسے چھین کراپنوںنے مجھے قتل کیا
آپ ہی ڈھال بنے،آپ ہی تلواربنے
حفیظ میرٹھی شاعری صلے اور داد کے لیے نہیںبلکہ جذبات و مشاہدات کے اظہار کے لیے کرتے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی نے ایسی شاعری کے بارے میں لکھا ہے کہ :’’ یہ وہ آگ ہے جو خود مشتعل ہوتی ہے، ایک چشمہ ہے جو خود اُبلتا ہے، ایک برق ہے جو خود کوند تی ہے ، صلہ و انعام ، داد و دہش اور تحسین و آفرین سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘
حفیظ نے اپنے بارے میں خود کہا ہے ؎
اثر ہوا تو یہ تقریر کا کمال نہیں
مرا خلوص مخاطب تھا، میں کہاں بولا
۷ جنوری ۲۰۰۰ء میں یہ آفتاب ادب میرٹھ میں ہی غروب ہوا۔ موت سے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک شعر میں مومن کی موت کو ہلاکت یا دائمی خاتمے کے بجائے نئی اور پائیدار زندگی کی سحر سے تعبیر دیتے ہوئے کہا تھا ؎
حفیظ ہو گیا آخر اجل سے ہم آغوش
تمام شب کا ستایا ہوا سحر سے ملا!
بعدازمرگ حفیظؔکاساراکلام’’ کلیاتِ حفیظ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ۔ لازم ہے کہ اُردو دنیا ،تعصب کی عینک اتارکراوراقرباء پروری چھوڑکرحفیظ میرٹھی ؔاوراُن جیسے دیگرفن کاروں وتخلیق کاروںکی زندگی اور تخلیقی کارناموں پر نقدو نظر کا سلسلہ قائم کرکے اردوادب کے ساتھ انصاف کرے ؎
تہذیبِ نوکے عہدمیںانسانیت کے ساتھ
انسان نے کیاسلوک کیا؟دیکھتے چلیں
……………………..
رابطہ :ریسرچ اسکالرشعبہ اردوکشمیریونیورسٹی،سرینگر