ابوالاثرحفیظ جالندھریؔ ہندوستان کے شہر جالندھر میں ۱۴جنوری ۱۹۰۰ء کو پیدا ہوئے۔ تقسیم ہندکے وقت ۱۹۴۷ء میں لاہور آ گئے۔ آپ کے والد شمس الدین حافظ قرآن تھے۔ حفیظؔ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی، مگر اس کمی کو انہوں نے خود پڑھ کر پوراکیا۔ انھیں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ حفیظؔنے محنت اور ریاضت سے نامور شعراء کی فہرست میں جگہ بنالی۔ حفیظ جالندھری ؔپاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر کے منصب پر بھی فائز رہے۔
حفیظ جالندھری ؔگیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ’ شاہنامہ اسلام‘ ہے جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں’ فردوسی ٔ اسلام‘ کا خطاب دیا گیا۔ حفیظ جالندھریؔ کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے۔ اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ حفیظ ؔجالندھری نے یہ خوب صورت قومی ترانہ احمد جی چھاگلہؔ کی دُھن پر تخلیق کیا تھا اور حکومت پاکستان نے اسے ۴،اگست ۱۹۵۴ء کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کیا تھا۔
حفیظ جالندھری ؔکی شاعری کی خوبی اس کی غنائیت ہے۔ وہ خود بھی مترنم تھے اس لیے انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جو غنائیت کے پیکر پر پورے اترتے ہیں۔ غنائیت کا سبب ان کی گیت نگاری بھی ہے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت لکھے تھے اور گیت کو بھی انہوں نے نئے پیکر عطا کیے۔ شاید اسی لیے آج تک حفیظ جالندھری کی شناخت’’ ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک پر اثر گیت ہے کیوں کہ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ اپنی جگہ پر نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور سامع کے دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ حفیظ کی غزلوں کا سرمایہ کافی ہے اور حفیظ خود کو غزل گو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے غزل میں بہت سے نئے تجربات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سلیس زبان کا استعمال کیااور گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ ایک طرح سے انہوں نے غزل کو فطری پوشاک عطا کی۔ ان کے یہاں روایت سے بغاوت ملتی ہے۔غزل کے آہنگ، نظم کی نغمگی، بحر کے ترنم اور احساسات کے بے ساختہ موسیقی کے شاعر… شاہنامہ اسلام، کے تخلیق کار، قومی ترانے، کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کے بارے میں اگر کہا جائے کہ ان کی روح مجاہد کی اور دل شاعر کا تھا تو غلط نہ ہو گا۔
۱۹۲۲ء سے ۱۹۲۹ء تک حفیظ جالندھریؔ نونہال، ہزار داستان، تہذیب نسواں اور مخزن جیسے معیاری ادبی رسائل کے ایڈٹر رہے۔ سترہ سال کی عمر میں ان کی شادی اپنی رشتے دار خاتون زینت بیگم سے ہوئی جن سے آپ کی سات لڑکیاں پیدا ہوئیں بیٹا نہ ہوا۔ ۱۹۳۹ء میں ایک کمر عمر انگلش خاتون سے دوسری شادی کی مگر یہ شادی کچھ عرصے بعد طلاق پر منتج ہوئی اور حفیظ جالندھری ؔنے اس غم کے زیر اثر یہ شعر کہا:
جو کامیاب محبت ہو سامنے آئے
میں کامیاب نہیں، ہاں میں کامیاب نہیں
’’سوز و ساز، نغمہ زار‘‘ کے علاوہ طبع زاد افسانوں کے مجموعے ’’ ہفت پیکر‘‘ اور ’چیونٹی نامہ‘ نے بہت پذیرائی حاصل کی۔ جنگ عظیم دوم کے زمانے میں حفیظ جالندھری ؔکو پبلسٹی آفیسر مقرر کیا گیا۔ وہ تحریک پاکستان کے سرگرم رکن تھے۔ ۱۹۴۸ء میں انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے جاری سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ قیام پاکستان کے بعد امور کشمیر کے نگران مقرر ہوئے۔ لاہور میں ہونہار بک ڈپو قائم کیا اور کتابوں کی اشاعت کی۔
۱۹۵۲ء میں قومی ترانے کی سلیکشن کمیٹی نے حفیظ جالندھریؔکا ترانہ ۷۲۳ترانوں میں سے منتخب کیا۔ ایس جی چھاگلہ کی دھن پر کمپوز کردہ ’’ پاک سرزمین شاد باد ‘‘کے جذبہ حب الوطنی سے سرشار اس ترانے نے قوم میں ایک عظیم الشان ملی جذبہ بیدار کیا۔ آپ کی یہ خدمت بے مثال اور پاک سرزمین پر احسان عظیم ہے۔ ۱۹۶۵ء میں جنگ کے بعد لاہور، سیالکوٹ اور سرگودھا کے شہروں کو شجاعت و بہادری کی علامت کے طور پر ’’ہلال استقلال‘‘ کے نام سے پرچم عطا کیے گئے۔ قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھریؔ نے اس پرچم کے لیے ’’ہلال استقلال‘‘ کے نام سے خوبصورت قومی نظم تخلیق کی ۔ ملاحظہ ہو ؎
پاک سرزمین شاد باد
کشورِ حسیں شاد باد!
تْو نشانِ عزمِ عالی شان
ارضِ پاکستان!
مرکزِ یقین شاد باد!
پاک سرزمین کا نظام
قوّتِ اْخوّتِ عوام
قوم، ملک، سلطنت
پائندہ تابندہ باد!
شاد باد منزلِ مراد
پرچمِِ ستارہ و ہلال
رہبرِ ترقّی و کمال
ترجمانِ ماضی، شانِ حال ،جانِ استقبال!
سایہ خدائے ذوالجلال!
حفیظ جالندھری ؔکے قومی ترانوں اور ملی نغموں نے قوم کا مورال بلند کیا۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مستند ہو جائے تو وہ مظلوم بھی بن جاتا ہے ہمہ جہت اور شہرت عام سے بہرو ور ہو تو ہر کس و ناکس کا تختہ مشق بھی بنتا رہتا ہے۔ شاعر و ادیب حساس ہونے کے سبب ایسے رویوں کا ادراک بخوبی کر لیتے ہیں اور جرات اظہار کے راستے بھی تلاشتے ہیں۔ حفیظ جالندھری ؔنے خوش طبعی اور روایت سے بغاوت کے اسلوب کو اپناتے ہوئے بڑے لطیف انداز میں ہم عصروں، دوستوں اور ناصحوں کے رویوں کو شعر کا حسن عطا کیا ہے۔ آپ کے بہت سے اشعار سہل ممتنع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی چھ دہائیوں پر مشتمل ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے ان کو ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ اور ’’ہلال امتیاز‘‘ سے نوازا۔ حفیظ جالندھریؔ ۲۱دسمبر ۱۹۸۲کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ ماڈل ٹائون لاہور میں تدفین ہوئی بعد ازاں آپ کے جسد خاکی کو مینار پاکستان کے نزدیک مزار میں منتقل کیا گیا جہاں پر اس یقین کے ساتھ وہ ابدی نیند سو رہے ہیں ؎
شعر و ادب کی خدمت میں جو بھی حفیظؔ کا حصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں یہ نصف صدی کاقصہ ہے
قومی ترانہ،کسی بھی قوم کے جذبات ابھارنے اور انہیں حب الوطنی کے جذبات سے سرشار کرنے کا نام ہے۔اس کے الفاظ کوئی عام الفاظ نہیں بلکہ اپنے اندر جادو، اثراور تاثیر رکھتے ہیں۔ہر ملک کا الگ قومی ترانہ ہے۔اس کی حیثیت گویا ایک الگ تشخص کی سی ہے جس سے کوئی بھی دستبردار نہیں ہوتا۔اس کے تقدس کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ جب بھی قومی ترانہ مخصوص دھن کے ساتھ گایا جاتاہے۔چھوٹا بڑا، ادنی و اعلیٰ سب بصداحترام ہاتھ باندھ کر خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ خصوصیت سوائے مخصوص مذہبی مناجات کے اور کسی کلمات میں نہیں۔یہاں پر قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ صرف قومی ترانہ کی ہی اہمیت نہیں، اس کے ساتھ ساتھ بجنے والی دْھن بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ قومی ترانہ لفظوں کے ساتھ نہیں، صرف دھنوں کے ساتھ بجتا ہے اور اسے بھی وہی احترام حاصل ہوتا ہے جو کہ شاعری کے ساتھ قومی ترانہ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ دھن اور قومی ترانہ دونوں یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔دراصل قومی ترانے کے ذریعے قوموں کی جدوجہد اور ان کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔
۱۴؍ اگست۱۴۹۷ء سے پہلے پاکستان کا قومی ترانہ وجود میں نہیں آیا تھا۔جب ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کے موقع پر پاکستان کی آزادی کا دن ،پاکستان بننے کے بعد پہلی دفعہ منایا گیا، اس وقت قومی ترانے کی جگہ ’’پاکستان زندہ باد، آزادی پائندہ باد‘‘کے نعروں سے یہ دن منایا گیا تھا لیکن اس موقع پر حساس اور محب وطن شاعر اور ادیبوں کے ذہن میں فوراً یہ بات آئی کہ پاکستان کا ایک الگ سے قومی ترانہ بھی ہونا چاہیے۔جو دلوں کو گرما دے اور الگ قومی تشخص کی دنیا بھر میں پہچان کا ذریعہ ہو۔
تاریخ کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ جگن ناتھ آزادؔ نے لکھا تھا جو کہ ایک ہندو شاعر تھے اور ان کا تعلق لاہور سے تھا۔انہوں نے یہ قومی ترانہ قائداعظم محمد علی جناح کی ذاتی درخواست پر لکھا تھا۔اس قومی ترانے کی منظوری دینے میں قائداعظم محمد علی جناح نے کافی غوروفکر کیا اور لگ بھگ ڈیڑھ سال بعد اسے باقاعدہ سرکاری طور پر بہ طور قومی ترانہ کے منظوری حاصل ہوئی۔ جگن ناتھ آزادؔ کے قومی ترانے میں بعض جگہ پر حب الوطنی کی خاصی کمی محسوس کی گئی تھی اور اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ نئے سرے سے قومی ترانہ لکھوایا جائے۔جگن ناتھ آزادؔکاترانہ طویل تھا،کچھ اشعارملاحظہ ہوں:
اے سرزمین ِپاک !
ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک
تندی ٔ حاسداں پہ ہے غالب تیرا سواک
دامن وہ سل گیا ہے جو تھا مدتوں سے چاک
اے سرزمین ِ پاک!:
حفیظ جالندھری ؔکی حیات کے کئی ایسے پہلو بھی ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔ ان کی زندگی کا ایک بہت اہم رخ یہ تھا کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے اور اس عقیدت نے ہی ان سے ’شاہ نامہ اسلام‘ تخلیق کروایا۔ ان کی اسی عقیدت نے انھیں مفکر پاکستان علامہ اقبال ؔسے قریب تر کیا اور بعد میں ان کے اور علامہ اقبال کے گہرے روابط قائم ہوئے۔ علامہ اقبال ؔنے حفیظ جالندھری ؔکی روانگی حج کے موقعے پر ان سے بالخصوص کہا تھا کہ وہ روضہ ٔرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان کے لیے بھی دعا کریں۔ حفیظ جالندھری ؔکے خود ان کی زبان سے نکلے ہوئے حرف و صورت کے آئینے ان تاریخی الفاظ کا ذکر بھی اہمیت کا حامل ہے جو مرزا محمد منور نے عزیز ملک کی لکھی ہوئی ایک کتاب میں کیا ہے، کہتے ہیں:
’’ایک رات میں اور حفیظ صاحب لاہور میں ایک کرم فرمائے محترم سے مل کر ماڈل ٹاؤن کی طرف لوٹے، رات کے دس بجے کا عمل ہوگا، چاندنی چٹکی ہوئی تھی، لاہور میں فروری اور نومبر کی چاندنی خاصی بے ایمان ہوتی ہے۔ حفیظ صاحب موڈ میں تھے۔ مجھ سے کہنے لگے، منور یار! غور تو کرو حفیظ کیا تھا کیا بن گیا۔ ساتویں جماعت سے بھاگا مگر شاعر اسلام، احسان الملک اور فردوسی اسلام کہلایا۔ غریب تھا، ریلوے اسٹیشن سے باہر قلیوں کی طرح لوگوں کا سامان اٹھایا کرتا تھا۔ اب ملا جلا کر دو ہزار تنخواہ پاتا ہے۔ مستقل وظیفہ الگ ہے۔ ابھی لڑکا تھا، گھر چھوڑنا پڑا۔ سر چھپانے کو جگہ نہ تھی، اب ایک کوٹھی یہ ہے ایک کوٹھی وہ ہے۔ ایک لان، دوسرا لان، یہ درخت وہ درخت، وہ پھول۔ حفیظ ایک گمنام تھا مگر اس کی شہرت براعظم پاک و ہند کی حدود کو پار کرکے بیرونی ممالک میں پہنچ گئی ہے۔ اس کا کلام منبر پر پڑھا جارہا ہے، ریڈیو پر الاپا گیا ہے۔ حفیظ کو خلفاؤں میں بلایا گیا، اس کو درباروں میں ممتاز مقام پر بٹھایا گیا، منور یار! اللہ نے یہ سب مجھے کیوں عطا کردیا، اس کا سبب فقط ایک ہے اور وہ یہ کہ میں حضور اکرمﷺکا نام لیوا ہوں اور لطف یہ ہے کہ یہ نام بھی گلے کے اوپر ہی اوپر سے نکلتا رہا۔ اگر یہ نام دل کی گہرائیوں سے نکلتا تو میں نہ جانے کیا ہوتا، اور پھر بڑے جذبے سے نعرہ زن ہوئے، ’’ہوجاؤں میں گم اور مجھے پا جائیں محمد۔‘‘
مذکورہ بالا الفاظ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حفیظ جالندھری ؔکی نظر میں ان کی زندگی کے نشیب و فراز کیا حیثیت رکھتے تھے اور وہ کتنے صاف گو، کھرے آدمی تھے پھر ان کے مزاج میں کتنا انکسار تھا، حفیظ جالندھری ایک عظیم انسان تھے۔ماہنامہ ’’افکار‘‘ کے حفیظ نمبر میں جناب جمیل الدین عالی رقم طراز ہیں:
’’اس کٹے پھٹے غریب مگر میرے لیے محفوظ پاکستان کے حصول کے لیے حفیظ صاحب نے اپنی بساط بھر کام کیا تھا۔ مثلاً وہ مسلم لیگ کے بڑے بڑے جلسوں میں ناخواندہ مگر آزادی کے آرزو مند مسلم عوام کے دل ’’شاہ نامہ اسلام‘‘ سے گرماتے تھے۔ میلاد کی بڑی بڑی تقریبات میں سلام پڑھتے تھے اور جن سرکاری اور سیاسی حلقوں اور مجلسوں تک ان کی پہنچ تھی وہاں پاکستان ہی کی بات کرتے تھے۔ ان کی قومی نظموں، نعتوں اور سلاموں کی مستقل ادبی حیثیت الگ متعین ہوتی رہے گی، مگر اس میں شک نہیں کہ ان کی وقتی افادیت بھرپور تھی۔‘‘
حفیظ جالندھریؔ کی کچھ غزلیں اور نظمیں بھی ایسی ہیں جو اردو ادب میں زندہ جاوید ہو چکی ہیں اور انہی میں سے ایک ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ہے ؎
ابھی تو میں جوان ہوں
ہوا بھی خوش گوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے
بہارِ پْر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا
اٹھا سبْو، سبْو اٹھا
سبْو اٹھا، پیالہ بھر
پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سمت کر نظر
سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں
افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجومِ مے کشاں
ہے سوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ہے بد گماں
سمجھ نہ مجھ کو ناتواں
خیالِ زہد ابھی کہاں
ابھی تو میں جوان ہوں
حفیظ جالندھری بہر حال اردو کے شعری ادب میں قابل ذکر حیثیت کے مالک ہیں اور انہوں نے اردو شاعری کو جو کچھ دیا ہے اس کا اردو ادب میں نمایاں مقام ہے۔
رابطہ :ریسرچ اسکالر،شعبہ اردوکشمیریونیورسٹی،سرینگر