رئیس یاسین
آج ملکی اور قومی لحاظ سے بھی اور عالمی لحاظ سے بھی زندگی کو سنورنے کے لیے زیادہ توجہ طلب شعبہ تعلیم کا شعبہ ہے۔ اسی کی درستی پر ہماری اپنی سلامتی کا بھی انحصار ہے۔ ہم اپنے نظام تعلیم کی دُرستی کے لیے نبی کریمؐ کی معلمانہ حیثیت کو سامنے رکھ کر مفید ارشادات و نکات اخذ کرسکیں گے۔ سیرت کو سامنے رکھ کر مفید ارشادات و نکات اخذ کرسکیں گے۔ جب کبھی کوئی نبی اٹھتا ہے تو وہ ایک ہمہ گیر تہذیبی انقلاب اور ایک تعلیمی تحریک کا علم بردار بھی ہوتا ہے۔ حضوراکرمؐ بھی زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی لانے کے لیے دین حق کو لے کر مبعوث ہوئے اور عقائد و افکار سے لے کر احکام و قوانین تک ہر چیز کی تعمیر نو کا کام آپؐ کے سامنے تھا۔ اتنا بڑا کام انجام دینے کے لیے حضورؐ معلم الناس ہی نہیں تھے، ایک وسیع تعلیمی تحریک کے سربراہ بھی تھے۔ دین حق کی تعلیمی تحریک کے سربراہ کی حیثیت سے حضوراکرمؐ کے لیے پورا معاشرہ کلاس روم تھا اور آپ ذہنی و فکری لحاظ سے بھی تعلیم دینے والے تھے۔ آپ ؐ نے عملاً تعلیمی تحریک چلا کر توسیع علم کے لیے جو کام کیا اس کا بڑا نمایاں نتیجہ یہ نکلا کی اتھاہ پیاس پیدا ہو گئ اور جوں جوں دین حق پھیلتا گیا ہر قسم کی عملی ترقیات کی رفتار تیز ہوتی چلی گئی۔ قرآن پاک میں ایک سے زیادہ مرتبہ حضورؐ کو معلم کتاب وحکمت قرار دیا گیا ہے۔ حضورؐ نے خود اپنے آپ کو معلم قرار دیتے ہیں۔ مسجد نبویؐ میں بیک وقت آپ ؐ ایک طرف حلقہ ذکر دیکھتے ہیں اور دوسری طرف مجلس تعلیم و تعلم، تو دونوں کا استحسان کرتے ہوئے مجلس تعلیم کو ترجیح دے کر اس میں جا شریک ہوتے ہیں۔ وضاحت سے بات پہنچا دینا اور تفہیم کا حق ادا کردینا سچے مسلمان کی معلمانہ ذمے داری ہے۔چنانچہ حضوراکرمؐ کو جو حکمت کی تعلیم سکھائی گئی۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ معلم نرم خو ہو، تند خو نہ ہو، بہ صورت دیگر یا تو زیر تعلیم جماعت تتر بتر ہوجائے گی یا آج کل کے نظام میں اگر اسے کلاس روم میں بیٹھنے کا پابند کیا گیا تو کم سے کم طلبہ کے دل و دماغ ضرور کلاس روم سے فرار کر جائیں گے۔ حضوراکرمؐ کے سامنے اپنا تعلیمی نصب العین پوری طرح واضح تھا یعنی امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر کار بند ایک ایسی مرکزی جماعت کا تیار کرنا جو ساری انسانیت کے سامنے خدا پرستانہ نظام حیات کی صداقت کی گواہی دے سکے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ اس نظام حیات کو چلانے کے لیے ایمان و کردار سے آراستہ لیڈر، افسر، کارکن اور شہری تیار کیے جائیں۔ تعلیم کے مشنری کام کو انجام دینے کے لیے اوپر کے اشارات کے مطابق معلم میں جہاں اپنے مخاطبین کے لیے محبت و خیرخواہی اور نرم خواہی اور نرم خوئی کے جذبات ہونے چاہئیں۔ وہاں حضورؐ کے مسلک کا تقاضا یہ ہے کہ خوش آئند طرز تکلم اختیار کیا جائے اور بحث و اختلاف کا موقع پیش آئے تو جدال احسن سے کام لیا جائے یعنی خوش گوار انداز میں تبادلہ خیالات کیا جائے۔
حضور کریمؐ کی حکمت تعلیم میں ایک اصولی بات یہ ملتی ہے کہ آپ مخاطب جماعت کی اُکتاہٹ کا پورا خیال رکھتے تھے کہ تعلیم و خطابت کا سلسلہ اتنا بوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ اکتانے لگیں۔حضورمحترمؐ ہمیشہ مختصر تعلیمی خطاب فرماتے تھے جو تیر بہدف ہوتے تھے۔’’العلم‘‘ کے علاوہ آپؐ نے ہر قسم کے مفید علوم و فنون کے سیکھنے کی طرف توجہ دلائی۔ صحت زبان کے اہتمام کی تلقین کی، فن کتابت کے لئے ہدایت دیں۔ صحابہ کرام کو عبرانی زبان سیکھنے اور تورات کا علم حاصل کرنے پر متوجہ کیا۔ خواتین کو اس دور کی ضرورت کے مطابق چرخہ کاتنے کی نصیحت کی۔ حضورنبی کریمؐ نے جدید دور کے فلسفیوں سے بہت پہلے اس حقیقت کو واضح کردیا کہ تعلیم کا آغاز مہد سے لحد ہونا چاہیے اور اس کا تسلسل لحد تک جاری رہنا چاہیے۔بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں حضور ؐ نے والدین کو یہ تاکید بھی کی کہ وہ اپنی ساری اولاد سے مساوات کا معاملہ کریں۔ یہی اصول اجتماعی نظام تعلیم پر بھی لاگو ہوگا۔توسیع تعلیم کے لئے آپ کا یہ ارشاد بڑا اہم ہے کہ اچھے لوگ ہیں جو معلم ہوں یا متعلم۔ لکھنے کا ہنر عام کرنے کے لئے بدر کے قیدیوں کے لئے یہ فریہ میں بھی مقرر کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کو لکھنا سکھا دیں۔ حضورؐ کے توسیع علم کے منصوبے کا ایک اہم جُز یہ تھا کہ ہر مسجد مرکز تعلیم بھی تھی خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں مدینہ میں نو مسجدیں ایسی تھیں جہاں بڑوں اور بچوں کو دین اور قرآن کی اور معاملات زندگی کی تعلیم دی جاتی تھی۔
رابطہ۔7006760695
[email protected]