مسعود محبوب خان
نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا تعلق دین ِ اسلام کا ایک بنیادی ستون اور ہماری زندگی کا مرکز و محور ہے۔ یہ تعلق محض ایک عقیدے یا نظریے تک محدود نہیں بلکہ ہماری زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے۔ خاتم الانبیاءؐ کی ذاتِ مبارکہ ایمان کی تکمیل کا ذریعہ، محبت کا مرکز، اطاعت کا معیار، اور زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی کی سب سے کامل مثال ہے۔ آپؐ سے ہمارا رشتہ وہ بنیاد ہے جو ہماری دینی شناخت کو قائم رکھتی ہے اور ہمیں دنیاوی و اخروی کامیابی کی طرف گامزن کرتی ہے۔
یہ تعلق دراصل ایمان کی گہرائی، محبت کی شدّت، اطاعت کی مضبوطی اور سنّتِ رسولؐ کی پیروی میں مضمر ہے۔ خاتم النبیینؐ سے تعلق صرف ایک جذباتی یا مذہبی وابستگی نہیں بلکہ ایک عملی شعور ہے جو ہماری زندگیوں کو سنوارنے، ہماری اخلاقیات کو بلند کرنے اور ہمیں بہترین انسان اور کامیاب مسلمان بنانے کا ذریعہ بنتا ہے۔
ایمان: ایمان کی بنیاد پر نبی اکرمؐ سے تعلق اسلام کی اصل روح ہے۔ یہ تعلق اس یقین پر مبنی ہے کہ حضرت محمدؐ ،اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور آپ کی رسالت کو تسلیم کیے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ قرآن و سنّت اس تعلق کی وضاحت کرتے ہیں اور اسے مسلمانوں کی نجات کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا: ’’محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔‘‘ (الاحزاب: 40) یہ آیت نبی کریمؐ کی رسالت کو آخری اور مکمل حیثیت دیتی ہے۔ اس پر ایمان ہر مسلمان کے عقیدے کا مرکزی حصّہ ہے۔ رحمت اللعالمینؐ کی رسالت پر ایمان لانا اسلام قبول کرنے کی پہلی شرط ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ یہ گواہی نہ دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔سورۃ آل عمران کی آیت 64 میں اللہ تعالیٰ تمام اہلِ کتاب اور دیگر انسانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ یہ آیت نبی اکرمؐ کی تعلیمات کے عمومی پیغام کو ظاہر کرتی ہے، جو توحید پر مبنی ہے اور ایمان کو مضبوط کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ ایمان نبی کریمؐ سے محبت، اطاعت اور اتباع کی بنیاد ہے۔ نبیؐ پر ایمان لانے سے انسان کے اندر وہ یقین پیدا ہوتا ہے جو اسے زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کے احکامات اور رسولؐ کی سنّت کے مطابق عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ ایمان ہی ہے جو نبی رحمتؐ سے تعلق کو قائم رکھتا ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔
محبت: نبی اکرم حضرت محمدؐ سے تعلق کی دوسری اہم بنیاد محبت ہے، جو ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو اور اس کی شخصیت کا بنیادی حصہ ہے۔ محبت ِ رسولؐ محض جذباتی وابستگی نہیں بلکہ دل، زبان اور عمل سے آپؐ کی عظمت اور تعلیمات کو تسلیم کرنے کا نام ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے لیے اس کے والدین، اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم) یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ محبتِ رسولؐ ایمان کا معیار اور پیمانہ ہے۔ محبتِ رسولؐ کا مطلب صرف زبان سے محبت کا دعویٰ کرنا نہیں بلکہ عمل سے اس کا ثبوت دینا ہے۔ آپؐ کی سنّت پر عمل کرنا، آپؐ کی تعلیمات کو اپنانا، آپؐ کے اخلاق و کردار کو اپنی زندگی میں داخل کرنا، یہی محبت کا حقیقی اظہار ہے۔صحابۂ کرامؓ کی زندگیاں محبتِ رسولؐ کی روشن مثال ہیں۔ حضرت علی بن ابی طالبؓ کا فرمان اسی حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ ایمان محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ صحابہؓ نے اپنی جان، مال اور ہر چیز کو نبی اکرمؐ پر قربان کر کے اپنی محبت کا عملی مظاہرہ کیا۔ نبی کریمؐ سے محبت دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’قیامت کے دن انسان اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) یہ حدیث اس بات کی ترغیب دیتی ہے کہ محبت ِ رسولؐ کو اپنے دل و دماغ میں راسخ کیا جائے تاکہ آخرت میں آپؐ کی قربت نصیب ہو۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’کہہ دیجیے! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔‘‘ (آل عمران: 31)یہ آیت محبتِ رسولؐ کو اللہ کی محبت کے حصول کا ذریعہ بتاتی ہے اور ہمیں آپؐ کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دیتی ہے۔ محبت ِ رسولؐ ہر مسلمان کے لیے ایمان کی روح اور کامیابی کی کلید ہے۔ یہ محبت ہمیں نہ صرف آپؐ کی سنّتوں پر عمل پیرا ہونے کا درس دیتی ہے بلکہ ہماری زندگی کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب دیتی ہے۔
اتباعِ سنّت: نبی اکرم حضرت محمدؐ کی زندگی مسلمانوں کے لیے ایک مکمل اور جامع نمونہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:’’تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب: 21) نبی اکرمؐ کی سنّت کو اپنانا ایمان کا ایک اہم تقاضا ہے۔ سنّت وہ عملی مظاہرہ ہے جس کے ذریعے آپؐ نے قرآن کے احکامات کو اپنی زندگی میں نافذ کیا اور دنیا کو ایک مثالی طرزِ زندگی پیش کیا۔ سنّت پر عمل کرنے سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ یہ ہمیں دنیاوی اور اخروی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔ سنّت ہماری زندگی کو روحانی اور اخلاقی طور پر بلند کرتی ہے۔
اتباعِ سنّت کا مطلب صرف ظاہری اعمال کی تقلید نہیں بلکہ ان کے پیچھے موجود روح اور مقصد کو سمجھنا اور اپنانا ہے۔ عبادات میں سنّت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسے فرائض کو نبیؐ کی تعلیمات کے مطابق ادا کرنا، اخلاق میں سنّت، نبیؐ کے اخلاق، صبر، حلم اور شفقت کو اپنانا، معاملات میں سنّت، صدق، امانت، عدل اور خدمتِ خلق جیسے اصولوں کو اپنی زندگی کا حصّہ بنانا، نبی اکرمؐ کی سنّت انسانی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے، چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی۔ ذاتی زندگی، کھانے پینے کے آداب، لباس اور صفائی ستھرائی کے اصول، خاندانی زندگی، والدین، بیوی بچّوں اور رشتہ داروں کے حقوق و فرائض، معاشرتی زندگی، دوسروں کے ساتھ حسن سلوک، بھائی چارہ اور مساوات۔
اتباعِ سنّت سے انسان کے اعمال میں برکت اور زندگی میں سکون پیدا ہوتا ہے۔ یہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور نیکیوں کی طرف راغب ہونے میں مدد دیتی ہے۔ سنّت پر عمل پیرا ہونے سے معاشرے میں عدل و انصاف اور امن کا قیام ممکن ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو کچھ رسول تمہیں دیں اسے لے لو، اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔‘‘ (سورۃ الحشر: 7)یہ آیت نبیؐ کی سنّت پر عمل کرنے کی واضح ہدایت دیتی ہے اور اسے دین کی تکمیل کے لیے ضروری قرار دیتی ہے۔ نبی اکرمؐ کی سنّت پر عمل کرنا ہر مسلمان کی دینی، اخلاقی اور روحانی ترقی کا ذریعہ ہے۔ آپؐ کی زندگی کے ہر پہلو کو اپنانا اور ان کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصّہ بنانا ہی حقیقی ایمان اور محب ِ رسولؐ کا عملی مظہر ہے۔ سنّت کی پیروی دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی کنجی ہے۔(جاری)
رابطہ۔09422724040
[email protected]