حضرت بلالؓ اور حضرت فضہؓ کامرزبوم بردہ فروشی کیلئے بہت ہی مشہور تھا۔ اس ملک یعنی حبشہ کے انسانی وسائل (Human Resources) کا عمومی مصرف بردہ فروشی تھا۔انسانی تاریخ میں غلامی کی ثقافت کو جو فروغ ملا، اس میں یہ افریقی ملک یعنی ایتھوپیا مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ معاشی طور پر قدرے مستحکم اقوام وممالک زنجبار(جو حبشہ کا ایک اور نام ہے)کو سیاہ فام غلاموں کی کان سمجھتے تھے۔ یہاں سستے داموں قوی ہیکل اور سخت کوش غلام میسر ہوا کرتے تھے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قبل ِاسلام عرب معاشرے کا مستکبرانہ اجتماعی مزاج غریب ترین اور مستضعف ترین خطہ زمین سے تعلق رکھنے والے افراد کو کس نظر سے دیکھتاہوگا۔ اس لحاظ سے دور جہالت میں ہر دو افراد(حضرت فضہ ؓ اور حضرت بلالؓ )کا مقدر صرف اور صرف پیوند زمین ہونا قرار پاتا۔ مگر اسلام کی غلام پروری اور غریب نوازی نے انہیں انسانی تقدس کے ایسے خلعت سے نوازا۔ کہ امتداد زمانہ اسے بوسیدہ نہ کر پایا۔ اس کا زرق و برق آج بھی انسانی کمال کے جو یاسلیم الفطرت انسانوں کیلئے باعثِ کشش ہے جسے اس بات کا تعین کرنا کافی آسان ہے کہ رسولِ اکرمؐ پر لگائے گئے بردہ فروشی کے اوچھے اور بے بنیاد الزامات سراسر مبنی بر کذب ہیں ۔ اور ان الزامات کو رد کرنے کیلئے حضرت بلالؓ اور حضرت فضہؓ کا بالترتیب مردانہ اور زنانہ کردار زندہ و جاوید ثبوت ہے کہ جسے کو ئی کور چشم بھی رد نہیں کر سکتا ہے۔
حضرت فضہؓ… فرضی پستی اور حقیقی عروج:
طولِ تاریخ میں نوع انسانی کے جن طبقوں پر کسی نہ کسی بہانے سے گوناگوں مظالم روا رکھے گئے ہیں ان طبقوںسے حضرت فضہ ؓکا کوئی نہ کوئی تعلق ضرور رہا ہے۔ وطنیت کے اعتبار سے حضرت فضہؓ کا تعلق اسی غلاموں کی کان ایتھوپیا سے تھا۔ جس سے بقولِ استاد جواد نقوی بجاطور پر بردہ فروشی کی ایک عالمی منڈی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ نسلی اعتبار سے حبشن اور صنفی اعتبار سے ایک سیاہ فام کنیز تھی۔ وطنیت کا جائزہ لیا جائے تو آج تک یہ خطہ زمین غربت و افلاس کی آگ میں سلگتا آرہا ہے۔ اس جدید دور میں بھی یہ ملک قدیم زمانے کی یاد تازہ کررہا ہے۔ دورِ جاہلیت میں اس کی حالت کیسی رہی ہوگی؟ بحیثیتِ صنف عورت ذات کو ہر دور میں ظلم و تشدد کی کڑی دھوپ میں تپایا گیا۔ اس پر مستزادیہ کہ عورت کوپیدائشی لحاظ سے ہی پست وحقیرتصور کیا جاتا تھا۔ اب اگر یہی عورت رنگ و نسل اور سماجی اعتبار سے سیاہ فام کنیز بھی ہو تو اسے ظلم کی بھٹی میں جھونکنے سے کون روک سکتا تھا۔ اس دورکی مروجہ راہ و رسم کے مطابق حضرت فضہؓ ہر اعتبار سے موردِ جفا تھیں۔ لیکن دربارِ رسالت مآبؐ میں کیا آئیں کہ اس کے مقدر کی کایا ہی پلٹ گئی۔اور محبت و وفا کی زندہ علامت بن گئی۔
بی بی فضہ ؓ اسلامی قلعے میںپناہ گزین:
حضرت فضہؓ کے وجود کو چو طرفہ خطرہ لاحق تھا۔لیکن اسلام کے قلعے میں پناہ گزینی سے تمام خطرات اپنے آپ فرو ہو گئے۔ چند ایک روایات کے مطابق اسے حبشہ کے بادشاہِ وقت نے تحفتاً آنحضورؐ کی خدمت میں بھیج دیا۔ اس کنیز کا اصل نام نوبیہ تھا جس کو تبدیل کرکے رسولِ کریمؐ نے فضہ نام رکھا۔اور عربی لغت میںلفظ فضہ کا مطلب چاندی ہے۔ گویا فضہ جیسانام انتخاب کر کے آنحضورؐ نے یہی باور کرایا کہ جہالت پر مبنی انسانی تعظیم کے غیر منصفانہ معیارات میںانسانی پوست کے رنگ کو جو اہمیت دی جا رہی ہے ۔اسے اسلام کے معیارِ عزت وکرامت میں کوئی عمل دخل ہی نہیں۔ یہاں ر نگِ رخسارکے بجائے اب کیفیت ِدل کو دیکھا جائے گا۔ حضرت فضہؓ کے لئے دوسرا اہم مسئلہ بے خانمائی کا تھا جس کا خوبصورت حل یہ نکل آیا کہ رسول اکرمؐ نے اس بے گھر کنیز کو ایسے گھر میں پناہ دلوادی کہ جس کے چرچے روئے زمین پر ہی نہیںبلکہ عالم ِ ملکوت میں بھی ہیں۔حضرت ِ فضہ ؓکے داغِ کنیزی کو شہزادیٔ کونین حضرت زہرا ء ؓکی ہم نشینی نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹا دیا۔نیز ان کی غریب الوطنی کو اسلامی مدنیت نے اپنے اندر سمو دیا۔
نفسیاتی سہارا:
حضرت فضہؓ اس مثالی گھر میںجب وارد ہوئیں تو اس نے تمام افرادِ خانہ (بلا امتیاز صغیر و کبیراور زن و مرد )کو بیکسوں، مفلسوں، غلاموں اور کنیزوں کے تئیں بے انتہا شفیق و مہربان پایا۔ بلکہ اس نے یہ مشاہدہ کیا کہ ان کا معیارِگزربسر ایک نادار و مفلس شخص سے بھی کم تر ہے یہاںاکثر فاقوںپر فاقے لگ رہے ہیں۔ اس گھرمیں رسولِ کائناتؐ کے سب سے چہیتے افراد کی معاشی حالت ایک عام انسان سے کسی طور بھی بہتر نہیں۔ وہ عیش و عشرت، خود پسندی، خود پروری، نفس پرستی اور تن پروری سے کوسوںدور ہیں۔ وہ کسی کی جسمانی حرارت کو اپنی راحت کیلئے استعما ل کرنے کے خوگر نہیںہیں۔ یہاں ایثار ہر فرد کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اس نے سوچا کہ ایک طرف اس بیت الشرف میںایسی عظیم المرتبت ہستیاںرہ رہی ہیں اور اس پر ان کی تواضع اور انکساری کا یہ عالم کہ ایک کنیز کو کسی بھی لحاظ سے پست تر نہیں سمجھتے ہیں ۔ اسے یہ احساس ہوا کہ میرے لئے غربت و اخلاص اور غریب الوطنی اب کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اسے نفسیاتی کمک فراہم ہوئی۔ وہ اس گھرمیں کنیز بن کر آئی تھی اور بہت جلدفردِ خانہ کی حیثیت سے رہنے لگی۔ نہ صرف اس کے ماتھے سے داغ کنیزی مٹ گیا بلکہ چند ہی دن بیت الشرف میں رہ لینے کے بعد اس کے دل و دماغ سے احساسِ کمتری مکمل طور پر محور ہوگیا ۔
رابطہ۔7006889184 َ