شوکت احمد میر
یوں تو تاریخ اسلام میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے فاتحین میں سے گزریں جس نے مقدونیہ کے Alexander The Great ( اسکندر اعظم)کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔اسلام قبول کرنے سے قبل عمر ؓ مشرکین میں سے تھے۔چونکہ عرب میں جاہلیت کا دور دورہ تھا۔اس دور میں نہ سماجی اصول تھے نہ اخلاقی پاسداری تھی اور نہ قوانین کے ضوابط ،جو جس کےجی میں آتا تھا کرتاتھا۔ہر طرف عیاشی کا بازار گرم تھا، بُرائی اور بدکاری عام تھیں۔شراب نوشی کا اڈا بدبودار ہوا میں ٹھاٹھیںمار رہا تھا۔غرض یہ زمانہ جاہلیت تھا لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا ان تمام برائیوں سے پاک کرنا پورے کائنات کے لیے معجزہ تھا۔پہلے سے ہی آسمان سے صدائیں گونجنے لگیں کہ اللہ نے اعلان کردیا کہ میں ایک پیغمبر عرب زمین پر اتارنے والا ہوں جس کا نام ’’محمد‘‘ ہوگا۔جو تمام عالم اسلام کے لئے رحمت ہی رحمت ہوگا اور اس پاک زمین اپنا اللہ کا قانون نافظ کر ے گا،بہرحال ایسا ہی ہوا ۔حضورؐ کا آنا اس جہالت کے دلدل سے لوگوں کو نکالنا اس رب العالمین کی ذات میں تھی۔والدین اتنے سخت بن چکے تھے کہ اپنی کم سن بچیوں کو در گور کرتے تھے۔لڑکی کا پیدا ہونا ایک بری عیب تھی ۔یہ سارا منظر عیاں تھا ہر کوئی اس منظر کا تماشا بین بنا تھا۔اس وقت کوئی کہنے والا نہیں تھا ۔خیر یہ وقت بھی نہیں رہا ظالم کب تک ظلم کرتا رہے گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب بچیوں پر ترس آیا کہ ان کے والدین انہیں زندہ در گور کرتے ہیں۔ آپؐ نے ایسے غلط عمل کرنےسے روکااور اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے ان سے کہا کہ اسلام ہمیں یہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔پیارے نبیؐ کی دعوت ان برائیوں کے خلاف ایک زبردست للکار تھی،مشرکوں میں (عمر ؓ) نے جب یہ آنکھوں سے دیکھا تو ان سے رہا نہ گیا۔وہ آپؐ کو ستانے لگے۔ نعوذ باللہ قتل کا سوچ رہے تھے۔آپؐ نے دعا فرمائی تھی:’’ اے اللہ ! خطاب کے بیٹے عمر یا ہشام کے بیٹے عمرو کو ہدایت فرما، ان دونوں میں جو بہتر ہو، اس کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دیں۔‘‘
عمر کی اٹھتی ہوئی جوانی تھی ،وہ عزم و حوصلے کا پتلا تھا۔طاقت اس کے اندر بے پنا تھی۔چہرہ سرخ رہتا تھا۔جوکرنے کا ارادہ کر لیتا، کر کے ہی دم لیتا۔یہی وجہ ہے وہ اسلام دشمنی میں بھی آگے آگے تھا۔پہلے بھی ذکر ہوا کہ ایک دن عمر نے ارادہ کر لیا کہ آج نعوذ بااللہ محمدؐ کا سر قلم کر کے ہی دم لوں گا !وہ کمر سے تلوار لگا کر گھر سے نکلا اور تیزی سے چل پڑا کہ آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قصہ ہی پاک کر دے اور روز روز کی فکر اور بے چینی سے سب کو نجات مل جائےگی۔راستے میں بنی عدی کے ایک آدمی سے ملاقات ہوگئی۔یہ نعیم بن عبدااللہ تھے، پہلے ہی اسلام قبول کر چکے تھے۔لیکن کسی کو خبر نہ تھی،انہوں نے دیکھا، عمر بہت جوش میں ہے۔کمر سے تلوار بھی لٹک رہی ہے پوچھا : ’’ خطاب کے بیٹے عمر! کدھر چلے جارہے ہو ؟‘‘
عمر:’’اسی بددین کے پاس جو ہمارے دیوتاؤں کی توہین کررہاہے،جو قبیلوں کا سارا نظام درہم برہم کر رہا ہے‘‘۔ نعیم بن عبدااللہ عمر کا غصہ جانتے تھےاور ذہن میں ایک تدبیر آئی، بولے :’’ عمر ! کس دھوکے میں ہو؟‘‘محمد ؐ کو قتل کروگے تو عبد مناف تمہیں جیتا چھوڑ دیں گے؟ اور ذرا پہلے گھر کی تو خبر لے لو! وہاں آپ کی بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوگئے ہیں۔‘‘
عمر یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔جیسے سارے بدن میں آگ لگ گئی۔بہرحال وہ دونوں قرآن کی تلاوت کررہے تھے کہ اچانک عمر آئے اور ان پر برس پڑے۔مار مار کر ان کا بُرا حال کر دیا۔ قرآن کی تلاوت سن کر عمر جلد ہی پتھر سے موم اور بے رحم سے رحم والا بن گیا۔خباب ؓ قریب ہی چھپے ہوئے تھے وہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔ جلدی ہی سامنے آگئے۔بڑی ہی مسرت اور اطمینان کے لہجے میں فرمایا:”’’عمر! رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تھی کہ خدایا ! ہشام کے بیٹے ابوالحکم یا خطاب کے بیٹے عمر سے اسلام کی مدد فرما۔‘‘
یہ دعا قبول ہوگئی اورعمر کا دل اسلام کی طرف راغب ہوگیا ۔اس طرح سے عمر ؓ اسلام کے دائرے میں آگیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیت کی۔یہ وہی عمر ؓ ہے جس کے ساتھ پشتوں میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا تھا۔ آپؓ بھیڑ بکریاں اور اونٹ چراتے چراتے بڑے ہوئے تھے۔اور آپ ؓ نے تلوار بازی اور تیر اندازہ بھی کسی اکیڈمی سے نہیں سیکھی تھی۔اگر دیکھا جائے تو کل ملا کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دس برسوں میں 22 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا اور اس میں روم اور ایران کی دو Supper Power بھی شامل تھیں۔ آج کل کے جدید دورمیں جو مواصلات ، سٹلائٹ، میزائل اور برق رفتار آبدوزوں کے دور میں بھی دنیا کے کسی حکمران کے پاس اتنی بڑی سلطنت نہیں جو حضرت عمر فاروقؓ نے نہ صرف گھوڑوں کی پیٹھ پر سواری ہوکر فتح کرائی تھی۔ان کی خلافت سب اصول و ضوابط کے قائل تھی ۔شریعت کے اصول قائم کئے گئے ۔بلکہ اس کا انتظام و اہتمام بھی چلایا تھا۔جب بھی حضرت عمر فاروقؓ جانثاروں کو حکم کرتا تو کسی جانثار کو اُن کے حکم سے سرتابی کی مجال نہ ہوتی تھی، وہ ایسے کمانڈر تھے کہ آپؓ نے عین میدان جنگ میں عالم اسلام کے سب سے بڑے سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدؓ کو برطرف کر دیا اور کسی کو یہ حکم ٹالنے کی جرأت نہ ہوئی۔ آپؓ نے سعد بن ابی وقاصؓکو کوفے کی گورنری سے ہٹا دیا۔ آپؓ نے حارث بن کعبؓ سے گورنری واپس لے لی۔ آپؓہ نے حضرت عمر و بن العاصؓ کا مال ضبط کر لیااور آپؓ نے حمص کے گورنر کو واپس بلا کر اونٹ چرانے پر لگا دیا۔لیکن کسی کو حکم عدولی کی جرأت نہ ہوئی۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دنیا کو ایسے system دئیے جو آج تک پوری دنیا میں رائج ہیں۔ آپؓ رضی اللہ عنہ کے عہد میں نماز تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔ آپؓ نے شراب نوشی کی سزا مقرر کی، سنہ ہجری کا اجراء کیا، جیل کا تصور دیا، مؤذن کی تنخواہیں مقرر کیں، مساجد میں روشنی کا بندو بست کرایا، پولیس کا محکمہ بنایا، ایک مکمل عدالتی نظام کی بنیاد رکھی، آب پاشی کا نظام قائم رکھا، فوجی چھاؤنیاں بنوائیں ، فوج کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا اورتعلیمی درسگاہوں کا افتتاح کیا۔انصاف کے جرگے بنائے۔آپؓ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواؤں اور بے آ سراؤں کے وظائف مقرر کیے۔ آپؓ نے دنیا میں پہلی بار حکمرانوں، سرکاری عہدے داروں اور والیوں کے اثاثے declare کرنے کا تصور دیا۔ آپؓ نے منصفانہ عدالتیں قائم کیں اور عدل سے کام کرنے پر زور دیااور بے انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ آپؓ کی تاریخ اسلام میں ایک منصفانہ عدالت تھی اور آپؓ نے دنیا میں پہلی حکمران کلاس کی accountability شروع کی۔ آپؓ راتوں کو تجارتی قافلوں کی چوکیداری کرتے تھے۔آپ حجاج کے لئے انتظام کراوئےاور ان کی سہولت کے لئے کوشاں تھے۔آپؓ کے اقوال صداقت کی ترجمانی کرتے ہیں ، آپؓ فرمایا کرتے تھے،’’ جو حکمران عدل کرتے ہیں وہ راتوں کو بے خوف سوتے ہیں۔‘‘آپؓکا فرمان ہے،’’ قوم کا سردار قوم کا سچا خادم ہوتا ہے۔‘‘آپؓ کی مہر پر لکھا تھا:’’ عمر ! نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہ کے دسترخوان پر بھی دو سالن نہیں رکھے گئے، آپؓ زمین پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سوجاتے تھے، کوئی کپڑے والے سراہنے نہیں ہوا کرتا تھا۔ آپؓ جب کسی کو گورنر بناتے تو اسے نصیحت فرماتے تھے ،’’ کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑے نہ پہننا،چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی پر دروازہ بند نہ کرنا۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ،’’ ظالم کو معاف کر دینا مظلوموں پر ظلم ہے۔‘‘ اور آپؓ کا یہ فقرہ آج انسانی حقوق کے charter کی حیثیت رکھتا ہے۔’’ مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں تم نے انہیں کب سے غلام بنا لیا؟‘‘ فرمایا، میں اکثر سوچتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں:’’ عمر بدل کیسے گیا۔‘‘آپؓ اسلامی دنیا کے پہلے خلیفہ تھے جنہیں ’’امیر المومنین‘‘ کا خطاب دیا گیا۔
(پی ایچ ڈی اسکالر جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دلی)
فون نمبر: 9149737247
[email protected]