محمداشرف بن سلام
وادی کشمیر کے مشہور معروف روحانی بزرگ حضرت شیخ داؤ د المعروف بتہ مول ؒ کے نام سے مشہور معروف ہیں، نہایت ہی پر ہیز گار اور دیندار شخصیت تھے ،حضرت شیخ داودؒ کی زندگی خدمت ِخلق میں گذری اور تابناک اور قابل عمل زندگی کا نمونہ رہی تھی۔ انہیں جیسےولیوں کی بدولت وادی کشمیر کو ’پیروار‘ کا لقب ملا ہے۔ اہل کشمیر حضرت شیخ داود ؒ کے ساتھ والہانہ عقیدت رکھتے ہوئے اُنہیں احتراماً’’ بتہ مول‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ حضرت شیخ داودؒ اپنے منفرد اور معتبر مقام کی بدولت باشندگانِ کشمیر کے قلب وجگر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ حضرت شیخ داؤدؒ اپنے معاش کےلئے کھیتی باڈی کرتے تھے اور رشد ہدایت میں مصروف رہتے تھے۔آپ ؒ کے زمانے میں ایک بار سخت قحط سالی ہوئی تھی تو آپؒ ایک بڑے برتن میں کھانا تیار کرواتے اور سبزیاں پکواکرلوگوں کو کھلاتے تھے۔جو کوئی بھی اُن کے لنگر میں آتا ، سیر ہوکر چلا جاتا تھا ۔تب سے حضرت شیخ داؤد ؒ کو’’ بتہ مول‘‘ کے نام سے مشہور معروف ہوئے۔ جب حضرت شیخ داؤد بتہ مول صاحبؒ اِس دنیا سے رخصت ہوئے تو تب سے وہاں کے لوگ عرسِ بتہ مولؒ کے موقعے پر صرف سبزیوں کے پکوان تیار کر کے مہمانوں کو کھلاتے اور خود بھی کھاتے ہیں۔ تقریباً چارسو برس ہوچکے ہیں مگریہ سلسلہ جاری ہےاور حضرت شیخ داؤد بتہ مولؒ کشمیر کے تاریخی بزرگانِ شخصیات میں ایک ناقابل فراموش شخصیت کےنام سے یاد کئے جاتے ہیں ۔
حضرت شیخ داؤدؒ کے متعلق تاریخی کشمیر اعظمٰی، جس کے مورخ خواجہ محمد اعظم دیدہ مری ؒہیں، اُسی کے کچھ اقتباسات کے مطابق ،’’ پل و دیار کے جوار میں ودیارن ونی کا رہنے والا مردِ توانا تھے۔ تنہ سے نمک لا کر فروخت کرتا تھے۔ جب آپ کے دل میں خدا طلبی پیدا ہوئی تو خواجہ یوسف کانجو کی خدمت میںاِرادت کے ساتھ پہنچا۔ خواجہ یوسف ایک پرہیز گار اور تقویٰ شعار انسان تھے اور ہو مزار بلہ کواة میں مدفون ہیں۔ اُن کی وساطت سے وہ الدریشہ بابائے ہجراری کے دِل آگاہ خدمت میں پہنچا۔ یہ بابا ارشاد دستگاہ حضرت ہروی بابا کے خلیفہ تھے۔ یہاں انہوںنے اُن سے تربیت کے حقیقی معنی پائے۔ اگرچہ وہ ناخواندہ اور ظاہری علم سے بے بہرہ تھے تاہم وہ صاحبِ باطن ہو ئے، علم لدنی سے بہرہ ور ہوکے معتبر حالا ت کا مالک ٹھہرے۔ آپ نے صاحب ِ احوال اصحاب اکٹھے کئےاور کرامات کونیہ کے اِظہار کے باعث عوام میں بڑی شہرت حاصل کی ، یوں وہ مرجع خاص و عام ہوا۔ اس کے باوجود وہ حدیث مبارکہ اطلبو الزرق من خبایاسی الارض (زمین کے اندر سے اپنا رزق تلاش کرو) کے مطابق زراعت سے اپنی روزی روٹی کے سامان کرتے رہے۔ راقم حروف نے اپنے مرشد کی زبان سے اور آنجناب حضرت ولایت مرتبت لوزہ بابائے پروانہ ، جو خلیفہ خاص تھے سےسُنا کہ ہمارے پیر کشف و کراما ت میں شیخ حمزہ قدس سرہ سے کمتر نہ تھے، لیکن کسی نے بھی ان کے احوال قلم بند نہ کئے۔‘‘
حضرت شیخ داؤد ؒکے دربا میں ایک آدمی نے ایک جِن کےخلاف شکوہ کیا اور اُن سے مدد چاہی۔ انہوںنے اُس جِن کو اپنی خدمت میں طلب فرمایا اورنرم و گرم نصیحت کی۔ پھر اُس بیمار آدمی سے فرمایا کہ اسی آدمی نے تجھ پر تصرف کر رکھا تھا، اب اسنے چھوڑ دیا ہے۔ وہ بڑی تیزی سے اس کے پیچھے بھاگا تاکہ اسے پکڑ لے۔ جب دروازے پر پہنچا تو اسے کچھ بھی نظر نہ آیا، یہ دونوں واقعات ان کے روضہ کے ایوان میں پیش آئے۔ نہ مالو جیو کے تصرفات اور خوارق عادات کے بارے میں لوگوں کی زبانوں پر بے حد و حساب حکایات ہیں۔حضرت شیخ داود ر بتہ مولؒ کے وصال کے زائد از چار صدیوں بعد آج بھی کشمیر کے اس روحانی بزرگ کی شان و شوکت کا یہ عالم ہے کہ کہ روزانہ عقیدت مندوں اور زائر ین کی ایک بڑی تعداد حاضری دے کر فیض حاصل کرتی ہے اور آداب و تعظیم سے اپنا سر خم کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ کیونکہ لوگ اس مردِ خدا کے ظاہر و باطن کمالات سے آراستہ تھے اوراسی جذبے سے شیخ داؤد ؒ کے خدمت میں اپنانذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ حضرت شیخ داؤد بتہ مول ؒ کے رحلت فرمانے کے بعد ملا محسن خوشنویس نے اُن کی تاریخ وفات لکھنے کا خیال کیا،اُنہیں حضرتؒ خواب میں نظر آئے اور بولے فلانے تو کس لئے دردِ سری کاشکار ہے میری تاریخ وفات’’ع غ‘‘ ہے، یعنی 1070ھ اور ہر برس 23 شوال کے روز عرس مبارک ہوتا ہے۔ حضرت علمدار کشمیر شیخ العالمؒ کے اشعار پر اختتام کرتا ہوں۔(ترجمہ): نیک لوگوں کی صحبت اختیارکر ے ، اور اُن سے محبت رکھ لے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہر وقت قبلہ روہوتے ہیں ،یعنی ہرقدم خدائے کعبہ کے حکم کے تحت اُٹھاتے ہیں ۔ نیک لوگوں کی صحبت دِل کو نورانی اور بُروں کی صحبت دِل کو سیاہ بناتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس پاکیزہ بندہ اور راہ حق کے مجاہد ؒ کے فیوض حیات بخش کو تاقیام قیامت جاری رکھیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان نیک لوگوں کی صحبت میں رکھے اور توحیدو سنت کی پیرروکاربنائے اور ہمارے وادیٔ گلشن کو ہر بَلا سے نجات دے۔آمین
) اوم پورہ بڈگام۔رابطہ۔ 9419500008)