سرزمین کشمیر صدیوں سے ریشیت اور تصوف کی سرزمین رہی ہے۔ عظیم ریشیوں، صوفیا اور راہ حق کے طلبگاروں نے قدرت کی اس عظیم اور حسین شاہکار کو اپنا مسکن بنایا ہے۔ یہاں کے ہر علاقے اور بستی میں کسی نہ کسی ولی اللہ کا مزار،زیارت گاہ یا خانقاہ نظر آتا ہے، جہاں عقیدت مندوں کا آنا جانا رہتا ہے۔ ایسی ہی ایک بستی ضلع پلوامہ کا ترچھل گائوں ہے ،جہاں ایک ولی اللہ حضرت سید محمد سکندر اندرابی رحمتہ اللہ علیہ کا آستانہ ہر خاص و عام کا مرجع بنا ہوا ہے
حضرت سید محمد سکندر اندرابی رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت پلوامہ ضلع کے ہی پوچھل گائوں میں لگ بھگ انیسوی صدی کے آخری عشرے کے (1897کے آس پاس)میں ہوئی?۔حضرت سید سکندر اندرابی ?کا شجرہ حضرت میر میرک اندرابی رحمتہ اللہ علیہ سے جا ملتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ آخرالذکر کے ایک بیٹے میرسید احمد قاسم اندرابی ?پوچھل میں ہی مدفن ہیں ۔انکے تین بیٹے تھے، جن میں ایک کا نام میرہاشم اندرابی تھا۔ ان کی شاخ سے آگے میر سیف اللہ پیدا ہوئے?۔ اُنہی کے فرزند حضرت سید سکندر اندرابی ہیں۔ سید سکندر اندرابی کو قلندری وراثت میںیعنی اپنے والد میر سیف اللہ سے نصیب ہوئی?۔ انکا نکاح پوچھل کی ایک خاتون امتیازہ بیگم سے ہوا تھا لیکن شادی کے کچھ سال بعد ہی انکا انتقال ہواتھا۔بعد میں سید سکندر اندرابی?نے ایک اور خاتون سے نکاح ثانی کیا، جو کہ سندر صاحبہ کے نام سے جانی جاتی تھی ۔یہاں یہ بات درج کرنی بھی دلچسپ ہوگی کہ سید سکندر اندرابیؒ کے وصال کے بعد انکی شریک حیات انکی روحانی جانشین بنی اور اُنکے مریدین و محبین حاجت روا?ئی کی خاطر سندر صاحبہ کے پاس آتےرہتے تھے۔ بچپن سے ہی عشق الٰہی کی چنگاری حضرت سید سکندر اندرابی کے دل میں موجزن ہوئی?۔ راہ حق کی پیاس بجھانے کے لئے مرشد کی تلاش میں رخت سفر باندھا۔ اس زمانے میں کشمیر کی عظیم روحانی شخصیت اور جامع سلاسل حضرت میر سید عزیز اللہ حقانی اس تلاش میں تھے کہ کو?ئی راہ حق کی جستجو میں انکے پاس آ?ئے،چنانچہ لطا?ف الحقانی میں وہ رقمطراز ہیں "دنیا کی آلودگی سے میرے وجود میں کو?ئی خواہش باقی نہ رہی(یعنی مادیت سے لبریز اس دنیا کو دیکھ کر مجھےاس سے حاصل کرنے کی کوئی چاہت نہ رہی) ماسوائے اس بات کے،جو کہ میری ساری عمر کی خواہش رہی تھی کہ اے کاش کسی کو بلاغرض نفسانی اوردنیوی لالچ کے، خدا کی طلب ہوتی! زمانہ کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ ہر بْرے بھلے آدمی کو طمع باطل اور ہوا?ئےنفسانی میں مبتلا دیکھا ،ماسوا?ئےایک شخص کے جو موضع پوچھل کے پیرزادوں سے تھا۔اْس نے فقر حقیر سے راہِ خدا طلب کی۔ دانا?ئی میں (یعنی فہم و شعور سے) دیوانگی کو اپنا شیوہ و شعار بنایا۔ ننگ و ناموس کے پردہ کو تار تار کردیا۔ مولیٰ کے دریا?ئےوحدانیت میں متحیر ہوکر ڈوب گیا۔ اہل سویہ بگ کے بغیر جو مراج اور کامراج سے کچھ لوگ راہ خدا حاصل کرنے کی غرض سے اس فقیر کے پاس پہنچے لیکن وہ نام کے دیکھے کام کے نہیں ’’
در کو?ئےجانان گزر کردن کار مردان است‘‘ یعنی معشوق کی گلی سے گزرنا مردوں کا کام ہے اللہ کی توفیق سے۔۔۔۔میں اپنے عزیزوں کو ایک نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کہ دنیا کو ناپا?یدار اور فانی جانیں ،اس میں دل نہ لگا?ئیں اور آخرت کے لئے کام کریں۔نیک اعمال میں مشغول رہ کر ہوشیار رہیں تاکہ قیامت کے دن نجات پاکر سرخ رو ہوجا?ئیں‘‘۔
چنانچہ جس شخص کی روحانی تڑپ کو اْس زمانے کے برگزیدہ ولی اللہ نے مہر ثبت کی ہو، اُس کا عالم کیا ہوگا۔ خاندانی جاہ و حشمت کو لات مار کر حضرت سید محمد سکندر اندرابی نے گھر چھوڑ کر تنہا?ئی اختیار کرنے کی غرض سے ٹہاب گائوں کو اپنا مسکن بنالیا ۔معاصرین کا کہنا ہے کہ وہاں ذکر و فکر میں رہ کر وہ کبھی کہتے کہ یہاں رہ کر ترچھل کی جانب انکی پشت رہتی ہے ،جو انکے نزدیک موزوں نہیں تھا، چنانچہ بعد میں ترچھل میں ہی تشریف فرما ہو?ئےاور بقید حیات وہیں پر قیام فرمایا۔
ترچھل میں رہ کر لوگوں کا ان کے ہاں تانتا بندھا رہتا۔لوگ اپنی مرادیں لے کر ان کے پاس آتے اور اْن سے دعائیں لیتے۔ بہت سے واقعات لوگوں کو آج بھی یاد ہیں۔ ماسٹر عبدالرحیم کا کہنا ہے کہ شیخ محمد عبداللہ کی کابینہ میں وزیر بخشی غلام محمد حضرت سید سکندر صاحب کے پاس ترچھل تشریف لا?ئےاور کسی بیماری کی شفا یابی کی عرضی پیش کی۔ حضرت سید سکندر صاحب?نے جواباً کہا کہ مرض کی شفا یابی تو معمولی بات ہے، آپ کو میں جموں و کشمیر کے وزیراعظم بننے کی پیشن گو?ئی سناتا ہوں۔
ایک اور شخص نے ایک اور واقعہ بیان کیا کہ یہاں ترچھل کے ایک شخص عبدالمجید علا?ئی کا بیٹا بہت علیل ہوا، جگر کی بیماری لاحق تھی۔ ڈاکٹروں نے اس سے لاعلاج قرار دیا۔وہ تھک ہار کر حضرت سکندر صاحب کے پاس آیا اور اپنے بیٹے کی بپتا سنائی?۔ انہوں نے قہوے کا ایک پیالہ نوش فرمانے کے لئے دیا۔بیمار بیٹا شفا پاکر تندرست ہوا۔
انکا وصال جمعتہ المبارک کی صبح 29 محرم الحرام 1373 ہجری مطابق 8 اکتوبر 1953 عیسوی کو ہوا اور ان کا روضہ ترچھل میں ہر خاص و عام کے لئے آج بھی روحانی مرکز بنا ہوا ہے اور ہر سال 29 محرم کو اُن کاعرس عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔