خدا ئے برتر کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ جہاںہماری وادی ٔ کشمیر کوقدرتی حسن سے مالا مال کردیا ہے وہیں اس سرزمین پر جلیل القدر بزرگوں ،ریشیوں اور اولیا ئے کاملین کو جنم دے کرایک خصوصی مرتبہ عطا کیا ہے۔جس کے سبب اس وادیٔ گلپوش کو دنیا بھر میں ریشی واری یا پیرہ واری کے دلکش نام سے پُکارا جاتا ہے ۔حضرت سلطان العارفین ؒ بھی صفِ اول کے بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں۔چنانچہ چندرینیؔ خاندان میں سے ایک شخص، جس کا نام مُلچند ر تھا کشمیر آیا اور یہاں پر وہ وزارتِ عظمیٰ کے اعلیٰ منصب پر فائض ہوا۔اُس خاندان میں بڑی بڑی ہستیاں پیدا ہوئیں ،جن کے نمایاں کارناموں سے کشمیر کی تاریخ میں ایک عظیم اور سنہری باب کھل گیا ۔ملچندؔر کی اولاد وں میں سے ایک فردراون چندؔر بھی تھا۔یہ وہ پہلاشخص تھا جسے حکومتِ وقت نے خاندانی وجاہت اور نمایاں قومی خدمات سر انجام دینے کے سبب ’’رینہ ‘‘ کا خطاب بخشاتھااوربعد میں یہ خاندان ’’رینہ‘‘ ذات سے ہی مشہور ہوا۔جب حضرت سید شرف الدین بُلبُل شاہ صاحبؒ کی نگاہ ِ فیض سے بادشاہ ِ وقت رینچن شاہؔ دائرہ اسلام میں داخل ہوا تو راون چندرؔ رینہ نے بھی بحیثیت وزیر اپنے خاندان اور قبیلہ سمیت اسلام قبول کیا ۔اس طرح راون چندر کشمیر میںکنوج راجپوت شاخ کا پہلا فردتھا، جس کو اسلام کے دائرہ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔اور پھر راون چندر رینہ کے بجائے’’ راوَن رینہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا ۔بڑے بڑے حکومتی عہدوں میں فائز رہنے سے راون رینہ کی اولاد کو ’’ملک ‘‘کا خطاب ملا۔پھرایک جنگی معرکےمیںملک جہانگیر رینہ کے جان بحق ہونے کے بعد اس خاندان نے اقتدا ر میں رہنا ترک کردیا اور اسی دوران جہانگیر رینہ کے فرزند زیتی رؔینہ نے بحالت ِ مجبوری شہر چھوڑ کر اپنے والد کی جاگیر موضع ’تُجر‘ میں رہائش اختیار کرلی۔زیتی رؔینہ کے فرزند کانام بابا عثمان رینہ تھا۔ یہ وہ مایہ ناز ہستی تھی،جن کو حضرت محبوب العالمؒ کے والدِ بزرگوار ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔چنانچہ بابا عثمان رینہ کے والد گرامی حضرت بابا زیتیؔ رینہ شیخ الشیوخ حضرت بابا اسمٰعیل کبرویؒ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوکردنیا سے بے نیازہوکر طالب ِمولیٰ ہوئے تھےاور انہوں نے اپنی زندگی پرہیز گاری ،خدا ترسی اور خلوت نشینی میں ہی گذاری ۔جس کے سبب اُن کے فرزند حضرت شیخ حمزہ ؒکو مادر زاد ولی کامل ہونے کا عظیم مرتبہ حاصل ہوا۔آپ ؒنے دربار رسالت مآب ؐ میں شرف ِ باریابی حاصل کی۔یہ علم و عمل میں بے مثال مالک رہے ۔آپؒ کو بچپن سے حق طلبی ،حق شناسی اور حق آگاہی میں ایک امتیازی مقام حاصل تھا۔حضرت محبوب العالم کی ولایت نو سو ہجری کے اوآخر میں ہوئی تھی ۔خواجہ محمد اعظم دیدہ مری کے مطابق ان کی تاریخ ولادت خاص دھر ہے۔آپ کی جائے ولادت موضع تجر ہے جو ضلع بارہمولہ کا ایک مشہور و معروف گائوں ہے۔ان کے والد ماجد حضرت بابا عثمان رینہ نے اپنے فرزند کا اسم مبارک ’’حمزہ‘‘ رکھاتھا ،جس کا لفظی معنیٰ ’’شیر ‘‘ہے۔شیخ الاسلام حضرت بابا داود خاکی ؒ کے بیان کے مطابق حضرت شیخ حمزہ مادر زاد ولی ہیں۔ تولد ہونے کے وقت سے ہی آپ کو عنایت ِ ربانی شاملِ حال رہی۔اس سلسلے میں چند اہم واقعات کا ذکر کرنا یہاں پر موزون ہے۔تولد کے کچھ دن بعد ایک بزرگ نے خواب میں ایک محفل سجی ہوئی دیکھی، جس میں حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ایک نو زاید بچے کو نہایت محبت اور شفقت سے پیار فرماتے ہیں اور اس کی پیشانی کو چوم کر خیر وبرکت کی دعا فرماتے ہیں۔اس بزرگ نے نزدیک آکر عرض کی کہ یا حضرتؐ! یہ نو زاید بچہ کس کا ہے؟ حضور اکرم ؐ نے فرمایا :یہ تو عثمان رینہ کا بیٹا ہے لیکن معنوی لحاظ سے یہ ہمارا فرزند ہے۔اس کے اندر بے پناہ دینی اور روحانی صلاحیتیں موجود ہیں کیونکہ کُلّ تقّی الی‘‘ یعنی ہر پرہیز گار مسلمان ہماری اولاد میں شمار ہے۔حضور اکرمؐ نے اسی فرمان کے مطابق حضرت شیخ حمزہ کو اپنی طرف نسبت فرمائی۔اسی طرح اُن کے دودھ پینے کے متعلق ایک مشہور واقع ہے کہ حضرت شیخ کی والدہ ماجدہ بی بی مریمہ کے دودھ میں کمی تھی تو مجبور ہوکر قریب ہی ایک گائوں سے دودھ پلانے کے لئے ایک داعیہ کو لایا گیا لیکن شیخ حمزہ ؒ نے اس کا دودھ نہیں پیا، جس پر سبوں کو حیرانگی اور پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ بچہ دودھ کےبغیر کیسے زندہ رہ سکے گا ۔لیکن سب سے حیران کن بات یہ رہی کہ شیر خوار حمزہ کے نشو ونما اور طاقت و توانی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ عورت( دایہ) اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے گھر میں ایک چار مہینے لڑکی چھوڑ کر آئی تھی ۔اسی سبب سے حضرت محبوب العالم نے اس دایہ کا دودھ پینے سے احتراز فرمایا۔یہ تھا پیدائشی زمانے سے ہی ولایت کا حال ۔فرماتے ہیں کہ اگر کسی وقت نماز تہجد میں تاخیر واقع ہوجاتی تو کمرےکے دروازے پر ایک اونچی آواز میں پُکارا جاتا تھا ۔اٹھئے اُس وقت کو پالیجئے ۔غرض قدرت نے سن بلوغت سے ہی ان کے دل کو خدا پرستی ،نیک نیتی اور بُلندہمتی کا حوصلہ بخشا تھا اورا سی خصوصیت کی وجہ سے آپ بچپن ہی میں اپنے جائے مولد ’’تجر ‘‘کو چھوڑ کر شہرِ خاص تشریف لائےاوریہاں اپنے پیر طریقت حضرت بائی حضرت بابا فتح اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ایک سال کا عرصہ ان کی خدمت میں گذار کر قرآن شریف کی تعلیم مکمل کی۔اس کے بعد حضرت بابا فتح اللہ کی اجازت سے ایک بڑے مدرسے ’’جود الشفا ‘‘ میں داخلہ حاصل کیا ۔چنانچہ کم عمرہونے کی وجہ سے حضرت شیخ کو ایک بڑے طالب علم کے سپرد کیا گیا ،جس کی عادت تھی کہ وہ نماز تہجد میں سورۂ کہف تلاوت کرتا تھا ۔حضرت شیخ کی قوتِ حافظہ کا یہ عالم تھا کہ کچھ دن بعد ہی اس بڑے طالب علم سے درخواست کی کہ میں بھی نماز تہجد میں سورہ کہف پڑھنے کا خواہشمند ہوں ۔انہوں نے جواب دیا کہ یہ سورہ شریف حفظ کرنا آسان نہیں ،جبکہ میں بہت مدت کے بعد یہ سورہ حفظ کرنے میں کامیاب ہوسکا ۔حضرت محبوب العالم نے کہا ’’مجھے یہ سورہ شریف محض آپ کے پڑھنے سے ہی حفظ ہوچکا ہے،اس پر آپ کا ساتھی حیران ہوا۔اُسی وقت سے حضرت شیخ مسلسل تہجد گذاری کرتے رہے اور اُس میں باقاعدہ سورہ کہف پڑھا کرتے تھے۔غرض مدرسہ دارالشفا میں بھی شہرت حاصل ہوئی اور اس میں آپ نے تعلیم کے بیشتر مراحل و منازل طے کئے ،جب عمر بیس برس کی ہوئی توریاضت ،شب بیداری ،قرآن خوانی ،اَوراد و اذکار میںاس حد تک کمال کو پہنچے کہ جسمانی آرام کوہی رخصت کردیا تھا۔کوئی لمحہ یا کوئی گھڑی ایسی نہ تھی جس میں اشاعتِ اسلام ،تبلیغ ِ دین ،مجاہدہ نفس کا اہتمام نہیں ہوتا ۔سردی ہو یا گرمی ،آدھی رات کو ہی سرد پانی سے غسل کرکے تہجد نماز کی ادائیگی ان کا معمول بن گیا تھا۔چنانچہ ایک دن کا واقع ہے ۔سرما میں سردی کا سخت زور تھا ، ندی یا دریا کے پانی سے نہانا یا وضو کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف تھا ،اسی سبب سے انہوں نے حمام میں جاکر گرم پانی سے وضو فرمانے کا رادہ فرمایا ،چنانچہ قریبی حمام میں تشریف لے گئے ۔کافی وقت تک دروازہ کو دستک دیتے رہے لیکن اندر سے کسی نے دروازہ نہ کھولا اور حمام سے واپس تشریف لاکر اسی یخ دار پانی سے غسل فرمایا اور تہجد ادا کی۔ہاں! تہجد نماز میں ذرا تاخیر ہونے کے سبب دل میں سخت رنج ہوا ۔چنانچہ ان کے طالب خاص حضرت علامہ داود خاکیؒاپنی تصنیف ’’ورد المُریدین ‘‘جو اُن کے مرشد برحق حضرت شیخ حمزہ ؒ کی حیات طیبہ اور اُن کے کشف و کرامات اور روحانی اسراو رموز کی ایک عظیم شاہکار ہے،میں اُن کی ریاضت کا اس طرح ذکر کرتے ہیں۔؎
باریاضت ساختہ علم الیقین عین الیقین
حق الیقین از لطفِ حق حق و رشد است
یعنی حضرت سلطان العارفین نے زور ریاضت اور عبادت سے علم الیقین سے بڑھ کر عین الیقین کی منزل میں قدم جمایا ۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق الیقین کے رہنما اور صدر نشین بناکر اپنے فضل و کرم کا خوب مظاہرہ فرمایا ۔شعر کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ِ شیخؒ نے ریاضت ،تزکیہ نفس اور علم لُدنی یعنی اعلیٰ مرتبے حاصل کئے ۔بایں ہمہ حضرت شیخ ایک ایسے رہبر یا پیر کامل کی تلاش اور آرزو میں تھے جن کا حضرت سید المُرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ برابر تسلسل ہو ۔چنانچہ ان کے اس نیک مقصد کی تکمیل کچھ اس طرح ہوئی کہ آپ نے حضرت سرورِ کائنات ؐ کو خواب میں دیکھا اور حضورؐ نے فرمایا کہ ہم نے آپ کے مرشد یعنی رہبر کامل کا انتظام کیا جو مسلسل ہمارے ساتھ منسلک ہے۔چنانچہ کچھ ہی دن بعد حضرت سید جمال الدین بخاری ؒ وارد کشمیر ہوئے اور موصوف خواجہ احمد یتو کی خانقاہ جو محلہ ملک صاحب میں واقع تھی ،میں تشریف فرما ہوئے اور یہاں ہی حضرت شیخ حمزہؒ کی رہبری فرمائی اور ان کو ذکر ِ چہار ضرب کی تعلیم فرمائی۔غرض حضرت محبوب العالم ایک طرف ایک اعلیٰ پایہ کے ذاکر اور عابد تھے ،دوسری طرف ایک عظیم مفکر اور مجددِ دین تھے۔آپ نے بڑے باطل پرستوں ،مکاروں سے برسرپیکار رہنے میں ہر ممکن حوصلے اور جوانمردی کا ثبوت پیش کیا اور اس مسلسل جدو جہد میں پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آنے دی،گویاکہ حضرت سلطان العارفین ؒ اعلیٰ صفات کے جامع تھے ۔اُس وقت کے اولیا کاملین کو ان کی طرف سر تسلیم خم تھا جس کا ذکر حضرت بابا دائود خاکی ؒ اس طرح فرماتے ہیں۔ ؎
وَالزینَ جا ھَدو وَخوندہ چو سعی وَجَہدُکرد
حق نمودش راہ پس ہادی مجرو بر شُد است
یہ قرآن شریف کی اس آیت مبارکہ کی طر ف اشارہ کرتا ہے :وَالذینَ جا ھَدُو فینا لہَدینَھُمُ سُبلَنا ‘یعنی جو ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ،خواہ وہ جہاد بالیف ہو یا بالنفس ،ہم ضرور اس عمل کے بدولت اپنوں کی صحیح راستوں کی رہبری اور رہنمائی کرتے ہیں ۔اس حُسن عمل اور سعی نیتی کے طفیل حضرت شیخ حمزہ ؒ بحروبر کی رہنمائی کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوئے۔اس کے بعد مولانا خاکیؒ فرماتے ہیں۔ ؎
’’در ریاضت سالہانہ نہاد پہلو بر زمین
حاصلش ایں مرتبہ چوں از کرد سہر شُد است‘‘
یعنی محبوب العالم ؒ نے اپنے مولیٰ کی اس قدر عبادت کی یعنی اُن کی ریاضت کا یہ عالم تھا کہ برسوں تک آپنے اپنا پہلو زمین پر نہیں رکھا ۔غرض آپ نے ولایت کا عظیم ترین مقام تب حاصل کیا جب وہ رات و دن بیدار رہ کرذکر ِ الٰہی کرنے میں مشغول رہتے اور اَن گنت راتوں کا آرام اپنے لئے حرام کیا تھا ۔اس سے صاف ظاہر ہوا کہ عارف ،سالک ،پیر صوفی،درویش ،فقیر ،مولوی یا مرشد ِ کامل اگر حقیقی طور پر خدا دوست بن کر قربِ الٰہی کے خواہاں ہوں تو اُن کو سب سے پہلے شریعت کی پابندی اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منابعت اور دوسری پیروی کرنی لازمی ہے۔ہاں !جب حضرت محبوب العالمؒ نے اس کا اصلی ثبوت پیش کیا تو تب ہی انہوں نے ایسا مرتبہ حاصل کیا ،جس کی طرف حضرت علامہ خاکیؒ اس طرح اشارہ فرماتے ہیں ؎
’’بازیراں در سلوک تا مقام اصل رفت
از جناح جذبۂ حق چوں بہ بال و پرشُد است‘‘
یعنی حضرت سلطان العارفینؒ کُلہم سلوک کے منازل اور مقامات پے درپے اور سرعت سے طے کرنے میں شاہین کے مشابہ ہیں ۔یہ سارا عنایت ربانی کا ثمر ہے، یعنی حضرت مخدوم شیخ ؒ قل سلوک کے منازل اور مقامات طے کرنے میں شاہین کی طرح تیز رو ہیں ۔چنانچہ آپ کسی دشواری یا مشکل کے بغیر اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے ۔شعر کے دوسرے حصے میں کوئی شخص دریافت کرتا ہے کہ حضرت شیخ میں اتنی کیا خصوصیت تھی کہ آپ نےبالکل قلیل وقفے میں راہ سلوک کے تمام مقامات اور مراحل طے کئے ،اس کے جواب میں حضرت مولانا خاکیؒ فرماتے ہیں کہ عنایت ربانی اور اس کی کششوں نے حضرت محبوب العالمؒ کو ایسے بازو عطا کئے تھے جو روحانی سفر طے کرنے میں سَرتا پا بال و پَر بن گئے۔اور نہایت آب و تاب سے منزل مقصود طے کرتے گئے۔اسی کو کہتے ہیں ’’ذالک فضل اللہ یُو تیہِ من یَشائُ‘‘ البتہ اس سفر میں مرشد کامل کی رہنمائی کے بغیر کامیابی اور کامرانی کی اُمید رکھنا نہ صرف عبث بلکہ ایک ناکام کشمکش میں مبتلا ہونے کے مترادف ہے۔آگے علامہ خاکیؒ فرماتے ہیں ؎
بود مرغ روح اواعرش منظر آشیاں
پس بدُنیا بیقرار از شوق آں منظر شُد است
یعنی شیخ حمزہؒ ایک ایسے اعلیٰ مرتبہ کے طائر لا ہوتی ہیں کہ روح کا مقام عرش معلیٰ ہے۔اسی وجہ سے آپ اس دنیا میں بے قرار اور بے آرام رہتے ہیں۔کیونکہ آپ کو معلوم ہے ،میں اس دنیا میں عارضی اور چند دنوں کے لئے مہمان کی حیثیت رکھتا ہوں۔مختصر یہ کہ مومنوں اور خد ا دوستوں کی روحوں کا مقام یا جائے قرار جوار ِقدس میں ہے۔تو وہ دنیا میں قدرتی طور بے چین و بے قرار ہوگا۔بلکہ اس دنیا کے ساتھ کوئی دل چسپی نہیں ہوگی۔یعنی اس کے لئے تارک الدنیا ہونا ضروری ہے۔بہر حال اس سے صاف ظاہر ہوا کہ اہل طریقت صرف وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو شریعت کے عامل اور پابند ہوں ۔جو لوگ شرعی احکام سے لاپروا اور غافل ہوکر طریقت اور حقیقت کے مدعی ہوں ،وہ سراسر الحاد اور گمراہی کی ظلمتوں میں پڑے ہیں۔حضرت محبوب العالم ؒ ایسے لوگوں سے سخت بے زار اور ناراض ہیں ۔لہٰذا جو شخص حضرت شیخ ؒ کی راسخ عقیدت اور والہانہ محبت رکھتا ہو،بلا شک آپ کی محبت ہم سب کے لئے دینداری ،ایمانداری اور ایمان کی واضح نشانی ہے۔جیساکہ حضرت مولانا خاکیؒ نے حضرت محبوب العالمؒ کی سرکائی میں حاصل ہوئی ،دولت ایمان کا بصیرت افروز واضح اشارہ فرمایا ہے۔؎
اللہ حال من ہر لحظہ نیکو ترشد است
شیخ شیخاں شیخ حمزہ تا مرارسیر شد است
رابطہ۔ پنجورہ شوپیان، فون نمبر۔ 962258711