رئیس احمد کمار
حضرت سخی زین الدین ولی ریشیؒ، شیخ العالم شیخ نور الدین ولی ریشیؒ کے دوسرے خاص خلیفوں میں سے تھے ۔ باندرکوٹ کشتواڑ میں پیدا ہونے والے اس ولی کی وابستگی راجپوت خاندان سے تھی ، اصلی نام جے سنگھ تھا ۔ بچپن میں ہی اُن کے والد کو قتل کیا گیا تھا ۔ جے سنگھ ایک دن سخت بیمار ہوا، کافی علاج و معالجہ کے باوجود بھی ان کا صحت بگڑتا گیا، اچانک حضرت شیخ نور الدین ولیؒ کا گزر وہاں سے ہوا ۔جے سنگھ کی ماں کو روتے ہوئے دیکھا تو اپنی نظر عنایت سے جے سنگھ کو بیماری سے چھٹکارا دلایا، ٹھیک ہوجانے کے بعد جے سنگھ کو ماں نے شیخ العالم کی خدمت میں کشمیر بھیج دیا ۔ شیخ نور الدین ولی ؒ نےجے سنگھ کا نام، زین الدین اُس وقت رکھا، جب اُس کے تمام افراد خانہ نے اسلام قبول کیا۔ حضرت زین الدین ریشیؒ، حضرت بابا بام الدین ؒ کی خدمت میں رہے جو شیخ نور الدین ولیؒ کے پہلے خلیفہ تھے۔ جلد ہی وہ ایک باکمال ہستی بن گئے۔ زین الدین ریشی نے عبادت و ریاضت میںقدر مشغول رہے کہ اپنے مرشد و اُستاد حضرت بابا بام الدینؒ سے آگے بڑھ گئے ۔ پھر شیخ نور الدین ولیؒ نے اُن کےاعلیٰ اوصاف کے تحت اُنہیں’’ عیش‘‘ پہاڑی پر گھنے جنگل میں خلوت گزین ہونے کا حکم دیا،جوکہ دیووں اور پریوں کا مسکن تھا ۔ عیش سے یہ علاقہ بعد میں ’’عیش مقام‘‘ کہلانے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک آدم خور دیو نے لوگوں کا جینا حرام کیا تھا۔ زین شاہ صاحب ؒنے لوگوں کےاُس سے نجات دلائی۔ وہاں ایک غار بھی موجود تھا ، جسے سانپوں اور بچھوں نے اپنا ٹھکانہ بنایا تھا ۔ زین شاہ صاحبؒ کے باوصف وہ سب سانپ اور بچھو نہ صرف وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوئےبلکہ لوگوں کو کسی طرح کاکوئی نقصان پہنچانے سے اجتناب کیا۔ باوجود کثرت وہ سانپ اور بچھوں آج بھی نہ کسی کوڈستےہیں نہ ہی چھیڑتے ہیں ۔ زین شاہ صاحب اُسی غار میں محو عبادت رہےاور پرہیز گار زندگی گزاری ۔ زین شاہ صاحب اپنے مرشد سے براہ راست فیض حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھی چرارون، کیموہ، روپہ ون وغیرہ جاکر اُن سے ملتےتھے ۔کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک چرواہے نے زین شاہ صاحبؒ کی جائے نماز کے نیچے بکری کے بچے کی کھال، سر اور پاؤں دَبا کر رکھ گئے۔تاکہ زین شاہ صاحب وہاں سے نکل جائیں ۔ چنانچہ مقدمہ دائر کیا گیا کہ زین شاہ صاحب نے بکری کے بچے کو مارا ہے۔ چنانچہ جب شمس الدین بابا،جوکہ زین شاہ صاحبؒ کی خدمت میں تھے، کو بکری کاسر، کھال اور پاؤں اکھٹے رکھنے کے لئے کہا گیا ،تو زین شاہ صاحبؒ ربّ ِ تعالی کی طرف رجوع ہوئے،تو بزغالہ زندہ ہوگیا ۔ غنی چرواہے نامی شخص نے زین شاہ صاحبؒ کے پیروں میں پڑگئےاور اپنی غلطی کی معافی طلب کی ۔ شاہ صاحبؒ نے شمالی و جنوبی کشمیر کے کئی علاقوںمیں اشاعتِ دین اور وعظ و تبلیغ کی ۔ جب زین شاہ صاحب پنڈوبل جاکر یاد الہٰی میں محو ہو جاتے تھے تو جانور اور پرندے بھی ان کے اِردگرد جمع ہوجاتے تھے۔جب پنڈوبلؔ میں ہی قیام پذیر تھے تو خدمت گزار نے مرشد بزرگوار کے واصل بحق ہونے کی خبر دی۔ فوراً اپنے رفیقوں، جن میں بابا شمس الدینؒ، بابا دریاودینؒ، بابا شکردینؒ، بابا حنیف الدینؒ وغیرہ شامل تھےکے ہمراہ چرارونؔ پہنچے۔ بابا زین الدین ریشیؒ نے ہی اپنے مرشد شیخ نور الدین ولیؒ کے نمازِجنازہ کی امامت فرمائی۔بتایا جاتا ہے کہ ایک دن سلطان کشمیر زین العابدین بڈشاہ زین شاہ صاحب کی خدمت میں ملاقات کے لئے آئے۔ زین شاہ صاحب عبادت الٰہی میں محو تھے اور بادشاہ سے کچھ نہ کہا ،تو بادشاہ ناراض ہوکر واپس چلا گیا۔ زین شاہ صاحبؒ نے خدمت گزاروں سے کہا کہ سجادہ آلودہ ہو گیا ہے، اِسے دھو ڈالو ۔ جب سلطان کو یہ خبر پہنچی تو اسے جلا وطن کرنے کا حکم دیا گیا ۔ زین شاہ ؒ اپنے مریدوں کے ساتھ زمستان تبت کی طرف روانہ ہوئےاور بہت سے لوگوں کو وہاں مسلمان بنایا ۔ جب وہاں کے بادشاہ کا بیٹا اچانک فوت ہوا تو جہالت کے باعث زین شاہ صاحب پر تہمت لگائی کہ اُن کے یہاں آنے سے ہی بچہ مرگیا ۔بتایا جاتا ہے کہ زین شاہ صاحب نے بادشاہ کو ایک دن انتظار کرنے کو کہا اور دوسرے ہی دن بچہ زندہ ہوا۔ زین شاہ صاحب ؒتبت میں تھے تو بابا بام الدین ؒ کا انتقال بمزو اننت ناگ میں ہوا۔ زین الدین ولیؒ طے مکان کرکے بمزو پہنچے اور انہیں غسل دے کر تجہیز و تکفین کرکے پھر تبت پہنچے اور تبلیغ دین میں مصروف ہوگئے ۔ زین شاہ صاحب کو ملک بدر اور ترک وطن کرنے کے بعد بڈشاہ کو بہت مصیبت جھیلنی پڑی، وہ اور اُس کا بیٹا شدید بیمار ہوئے۔ جب حکیموں اور ڈاکٹروں کے علاج و معالجہ کے باوجود بھی افاقہ نہ ہوا، تو خود ہی کہا ’’ میرے درد کا علاج صرف وہی درویش کرسکتا ہے جسے میں نے جلاء وطن کیا ہے‘‘ ۔ بادشاہ نے اپنے بیٹے شہزادہ حیدر خان کو تبت بھیجا تاکہ وہ عذرومعذرت کرکے انہیں اپنے ہمراہ لے آئیں ۔ چناچہ زین الدین ؒ نے شہزادہ کی التجا قبول کی اور کشمیر کی طرف روانہ ہوئے ۔ باوجود شدید درد بادشاہ اپنے وزراء کے ساتھ زین الدین ولیؒ کے استقبال کے لئے نکلے۔ بادشاہ، زین الدین ولیؒ کے نزدیک آتے ہی صحت یاب ہو نے لگے، یہاں تک کہ بادشاہ بالکل تندرست ہوگیا ۔ کچھ دنوں بعد جب زین الدین ولی اپنی قیام گام پر تشریف آور ہوئے تو ان کے احترام اور استقبال کے لئے پرندے اور جنگلی جانور بھی جمع ہوئے ۔ وصال سے پہلے زین شاہ صاحب نے اپنے خلیفوں کو بتایا تھا کہ چالیس دن تک وہ غار کے اندر نہ آئے ۔ حضرت زین الدین ولی ریشی ؒ ۸۵۳ ہجری کو واصل بحق ہوگئے ۔ چالیس دنوں کا عرصہ گزرنے کے بعد جب زین الدین ولی کے خلفاء غار کے اندر تشریف لے گئے تو وہاں ان کے بیٹھنے کی جگہ پر سجادہ اور تسبیح دیکھی۔ حضرت زین الدین ولی ریشیؒ کا سالانہ عرس مبارک اپریل کے مہینے میں قمری کیلینڈر کے ۱۲ تاریخ کو منایا جاتا ہے ۔
[email protected]