بے شک علم سے دل کو روشنی ملتی ہےاور علم کی سب سے بڑی خوبی اس کے عمل کرنے میں ہے۔کیونکہ علم پر عمل کرنے سے ہی انسان میں نرم مزاجی،کم سخنی اورخرد مندی پیدا ہوجاتی ہے،جس سے اُسے ہر دل عزیزی حاصل ہوتی ہے۔اسی لئے اسلام نے لڑکوں اور لڑکیوں کو دینی و دُنیوی تعلیم حاصل کرنے کا حق بخشا ہےتاکہ وہ تمام خوبیوں کا مجموعہ بنیں اور دوسروں کے لئے راہِ مشعل بن جائیں۔مگر افسوس صد افسوس!آج جب ہم اپنے کشمیری معاشرےکے طلاب پر نظر ڈالتے ہیںتو عصرِ حاضر کے بدلتے ہوئےحالات کے ساتھ ان میں اخلاقی پستی تیزی سے پروان چڑھتی جا رہی ہے اور غیر اخلاقی عادات بڑے پیمانے پر پنپ رہے ہیں۔نہ صرف والدین بلکہ اساتذہ بھی معاشرے کے نوجوان طالب علموں کی ناشائستہ حرکتوں سے پریشان حال ہیں۔اول تو نوجوان طلاب کی ایک بڑی تعداد اپنے بڑے بزرگوںکا ادب و احترام کرنےکے جذبے سے محروم ہوچکی ہے۔دوسرا، دورِ حاضر کا طالب علم ،حصول ِ علم کے اصل مقصد سے غافل ہو کر بُرائیوں اورخرابیوں کے تباہ کُن راستوں پر چل رہا ہے۔نوجوان طلاب کی ایک کثیر تعدادمیںعلم و تعلیم سے دوری بڑھ رہی ہے،حصول ِعلم کی جستجومعدوم ہوتی جارہی ہے،جس کے نتیجے میں اُن میںنہ بہترسوچ اورمثبت خیالات پروان چڑھتےاور نہ وہ جدید علوم ،ٹیکنالوجی و تحقیق کی طرف مائل ہورہے ہیں،ایسے طلاب فکری طور پر جمود کا شکار ہوکرہر میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور بالآخر غربت و پسماندگی کا شکار ہو کر وہ جہالت کو فروغ دیتے ہیں،جو مستقبل میںقوم یا معاشرے کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ آج کل مختلف سکولوں ، کالجوں اور کوچنگ سینٹروں کے دروازوں پرہمارے زیادہ تر طلاب سر پھیروں کی طرح مجنون بن کر اپنا دل اپنے ہاتھوں میں لئے گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور علم کی لذت سے آشنا ہونے کے بجائے نہ صرف اپنے بیش قیمتی وقت ضائع کررہے ہیں بلکہ والدین کی کمائی کو بھی برباد کر رہے ہیں۔بیشتر طلاب فیشن پرستی، دیکھا دیکھی، غنڈہ گردی، نشہ بازی اور چوری جیسی بُری عادات کا شکار ہوگئے ہیں، انہیں اپنی معاشرتی اقدار، مادری زبان، تہذیب و تمدن کچھ بھی راس نہیں آتا ہےبلکہ وہ ہر معاملے میں اور ہر سطح پر دوسری تہذیبوں کی نقال بن گئےہیں، خاص طور پر مغربی تہذیب کے نقال بننے پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ بعض عوامی حلقوں کی رائے ہے کہ اس بگڑی ہوئی صورت حال کی ایک اہم سبب قومی اور خاص طور پر بین الاقوامی الیکٹرانک میڈیا سے ٹیلی کاسٹ ہونے والے وہ پروگرام، جو سرے سے ہی فحش اور غیر اخلاقی ہوتے ہیں ۔ان پروگراموں کا بلا خوف نظارہ کرنے سے طلاب میں گندی ذہنیت اور غیر اخلاقی سوچ پیدا ہوتی ہےاور وہ اِن ہی رنگوں میں رنگ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ اس غلط راستے پر چل کر انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔لہٰذا، والدین کے بعد اساتذہ کرام پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ طالبعلموں کے دلوں کو اپنے اخلاق حسنہ اور خاص شفقتوں سے سرشار کرائیں، انہیں اپنی حقیقی پیار سے زندگی کے تاریک راہوں اور ظلمتوں سے نکال کر حیات نو کا پیغام دیں۔ انہیں تہذیب و تمدن، شائستگی اور بہترین معاشرتی عادتوں کی تعلیم دیں اور انہیں یہ بات بھی ذہن نشین کرائیں کہ علم کا مقصد بڑی بڑی ڈگریاں اور نوکریاں حاصل کرنا ہی نہیں بلکہ علم انسان کو روشن خیالی، ذہنی افق کی وسعت اور حق کی تلاش سکھاتا ہے۔طلاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم کو زندگی کا نور سمجھ کر پورے دھیان سے اساتذہ صاحبان کی نصیحتوں کو سنیں اور پوری لگن سے ان پر عمل کریں کیوں کہ عمل کے بغیر کوئی بھی کوشش بارآور ثابت نہیں ہوسکتی۔ہمارے پیارے نبیؐکا فرمان ہے کہ علم بغیر ِ عمل وبال ہے اورعمل بغیر علم گمراہی ہے۔اس لئےضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اور اساتذہ کرام طلاب کو اخلاق حسنہ کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کرانے کی ہر ممکن کوشش کریں،تاکہ وہ اللہ کے نیک بندے بنیں ،حصول ِ علم کے اصل مقصد کو سمجھیںاور آثار ِقدرت کے علم سے واقف ہوسکیں۔