نرما۔اجمیر
ہمارے ملک میں آج بھی خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو زندگی کے کسی بھی شعبے میں ترقی کے لیے پدرانہ معاشرے کے ساتھ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ کبھی جدیدیت کے نام پر اور کبھی ثقافت و روایت کے نام پر اس کے پیروں میں زنجیریں ڈالنے کا کام کیا گیا ہے۔ تعلیم ہر رکاوٹ کو دور کرنے کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے۔ لیکن خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو اس شعبے میں سب سے زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں تعلیم حاصل کرنے اور بااختیار بننے سے روکا جاتا ہے۔ اگرچہ شہری علاقوں میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں حائل رکاوٹیں دور ہونا شروع ہو گئی ہیں، لیکن ملک کے دیہی علاقوں کی لڑکیوں کو تعلیم کے حصول کے لیے اب بھی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق راجستھان بھی خواندگی کے لحاظ سے ملک کی تین کمزور ترین ریاستوں میں شامل ہے۔ جہاں خواندگی کی شرح قومی اوسط 74.04 فیصد کے مقابلے میں صرف 67.06 فیصد ہے۔ ایسے میں یہاں کی خواتین میں خواندگی کی شرح کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے اور جب ہم درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی خواتین کی شرح خواندگی کی بات کریں گے تو یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہو گا کہ یہ تعداد کتنی کم ہو گی۔
ریاست کے اجمیر ضلع میں واقع گاؤں ناچن باڑی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ ضلع کے گھوگھرا پنچایت میں واقع اس گاؤں میں درج فہرست قبائل کالبیلیا برادری کی اکثریت ہے۔ پنچایت میں درج اعداد و شمار کے مطابق گاؤں میں تقریباً 500 گھر ہیں۔ زیادہ تر مرد اور خواتین مقامی چونے کے بھٹے پر مزدوری کرتے ہیںاور دن بھر محنت کرنے کے بعد بھی انہیں صرف اتنی اجرت ننہیں ملتی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کی کفالت کر سکیں۔ کمیونٹی میں کسی کے پاس کھیتی باڑی کے لیے اپنی زمین نہیں ہے۔ ان کے خانہ بدوش طرز زندگی کی وجہ سے اس کمیونٹی کے پاس پہلے کوئی مستقل رہائش نہیں تھی۔ تاہم بدلتے وقت کے ساتھ اب یہ برادری نسل در نسل بعض مقامات پر مستقل طور پر رہنے لگی ہے۔ اس معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کا درجہ اب بھی پست ہے۔اگرچہ پہلے کے مقابلے کالبیلیہ برادری کے لوگوں نے اپنی لڑکیوں کو سکول بھیجنا شروع کر دیا ہے لیکن اکثر لڑکیوں کی شادیاں 12ویں کے بعد ہو جاتی ہیں۔اس سلسلے میں 37 سالہ خاتون شانتی بائی کا کہنا ہے کہ ’’ناچن باڑی میں صرف ایک پرائمری اسکول ہے جہاں پانچویں جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے، گاؤں کے تمام بچے اس میں پڑھنے جاتے ہیں۔ لیکن اس سے آگے بچوں کو تین کلومیٹر دورگھوگھرا جانا پڑتا ہے۔ جہاں والدین بڑی عمر کی اپنی لڑکیوں کو بھیجنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔‘‘ شانتی بائی بتاتی ہیں کہ ان کی تین لڑکیاں ہیں جو 10ویں، 9ویں اور 6ویں جماعت میں پڑھنے کے لیے گھوگھرا گاؤں جاتی ہیں۔ یہ کمیونٹی کی پہلی لڑکیاں ہیں جنہوں نے پانچویں جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنا شروع کی ہے۔اب کچھ والدین نے اپنی بچیوں کو ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے گھوگھرا گاؤں کے ہائی اسکول میں داخل کرایا ہے۔شانتی بائی کی بڑی بیٹی روشنی، جو کہ دسویں جماعت کی طالبہ ہے، کہتی ہیں کہ وہ اور اس کی بہنیں پڑھنا پسند کرتی ہیں۔وہ بڑی ہو کر ڈاکٹر بننا چاہتی ہے لیکن اسکول میں سائنس ٹیچر کی پوسٹ خالی ہے اس لیے وہ گھر پر اس مضمون کی تیاری کرتی ہے۔ شانتی بائی کہتی ہیں کہ اس کا شوہر مقامی چونے کے بھٹے پر یومیہ اجرت پر کام کرتا ہے۔ جس میں صرف اتنی اجرت دی جاتی ہے جس سے کسی طرح خاندان کا گزر بسر ہو سکے۔ اس کے باوجود وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلانا چاہتی ہے۔ ایسے میں انہیں امید ہے کہ ایک دن روشنی اور اس کی بہنوں جیسی نئی نسل تعلیم یافتہ ہوگی اور معاشرے کی سوچ اور حالت ضرور بدلے گی۔
48 سالہ سداناتھ کالبیلیا کا کہنا ہے کہ ان کی برادری میں کوئی بھی تعلیم کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے۔ زیادہ تر لڑکے آٹھویں کے بعد پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے گھر والوں کے ساتھ مزدوری کرنے جاتے ہیں یا تاش اور جوئے جیسی بری سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ والدین بھی انہیں پڑھنے کی ترغیب نہیں دیتے ہیں۔ ایسے میں یہ معاشرہ لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں کہاں سوچے گا؟ ان کا کہنا ہے کہ کالبیلیا برادری کی زیادہ تر لڑکیاں پانچویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکیں۔ لیکن اب اس میں تھوڑی سی تبدیلی آئی ہے اورکچھ والدین نے پانچویں جماعت سے آگے کی تعلیم کے لیے لڑکیوں کو دوسرے دیہات میں بھیجنا شروع کر دیا ، لیکن یہ رجحان بہت زیادہ نہیں ہے۔ اگر ناچن باڑی گاؤں میں ہی دسویں یا بارہویں جماعت تک کے اسکول کھول دیے جائیں تو شاید اس سمت میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔وہ اپنے بچوںکو پڑھانا چاہتے ہیں لیکن لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے معاشرے کا منفی رویہ اس سمت میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔ خصوصاً جب گھر کے بزرگ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے بجائے ان کی شادی کے لیے دباؤ ڈالنے لگیں تو والدین کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے وہ اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس حوالے سے مقامی سماجی کارکن وریندرا کا کہنا ہے کہ کالبیلیا کمیونٹی میں تعلیم کے حوالے سے بیداری ابھی بھی بہت کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک اس کمیونٹی کی کوئی لڑکی 12ویں سے آگے کی تعلیم حاصل نہیں کر سکی ہے۔ 10 ویں کے بعد سے والدین پر کلبلیہ برادری کی جانب سے لڑکی کی شادی کے لیے دباؤ بڑھنے لگتا ہے۔ تاہم حکومت کی طرف سے اس کمیونٹی میں تعلیم کی سطح کو بڑھانے کے لیے بہت کوششیں کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر کئی رضاکار تنظیمیں بھی لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے پروگرام چلاتی ہیں۔ لیکن یہ تمام کوششیں اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب کا لبیلیا معاشرہ خود بھی حکومتی اقدامات اور تنظیموں کے ساتھ آگے بڑھے۔ اس کے لیے معاشرے میں شعورپھیلانا ہوگا تاکہ اس معاشرے کی نوعمر لڑکیوں کو تعلیم جیسے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد نہ کرنی پڑے۔ (چرخہ فیچرس)