سہیل سالم
فسوں ساز آنکھوں کا روپ دھار کر ایوان غزل میں داد و تحسین حاصل کرنے کے بعد ’’طائر خیال ‘‘لے کر ’’حسن تغزل ‘‘ کے گلستان میں اپنا آشیانہ تعمیر کرنے والے شاعر کا نام خورشید کاظمی ہے۔’’حسن تغزل ‘‘اُن کا تازہ شعری مجموعہ ہے جو کہ2024 میں منصہ شہود پر آگئی۔’’حسن تغزل ‘‘ غزلیات پر مبنی ہیں۔اس سے قبل ان کی کئی نثر و نظم پر مبنی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔خورشید کاظمی کی شاعری فطرت کی آغوش میں پروان چڑھتی ہے،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے گردونواح کے حالات کوایک منفرد اسلوب کا روپ دے کر غزل گوئی کے انداز میں پیش کرنے کی کا میاب کوشش کی ہے۔اسی لئے ان کے یہاں عام انسان کا رحجان یا اس کی زندگی مختلف رنگوں میں تڑپتی ہوئی نظر آتی ہے۔چونکہ انہوںنے زندگی کے نشیب و فراز کو باریک بینی سے دیکھا ہے اور زندگی کی مکرو فریبی میں خودکو بے بس بھی پایا ہے۔اسی لئے ان کے یہاں عصر حاضر کے بے بس لوگوں کی زندگی کی صحیح عکاسی دیکھنی کو ملتی ہے۔شاعر جس عہدے میں سانس لے رہا ہے وہ عہد اخلاقی بحران اور تعطلل کاشکار ہے ،انسانیت ،شرافت ،صداقت اور مروت جس تیز رفتاری کے ساتھ دم توڑ رہی ہے ،خورشید کا ظمی اس سے بخوبی واقف ہیں۔ان کی شاعری میں ناکامیوں اور پریشانیوں کی پرچھائیاں بھی تو عیاں ہوتی ہے لیکن وہ کہیں بھی ان سے دوری اختیار کیے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ وہ ہر پل ان کو مات دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔خورشید کاظمی نے سیاسی ، تہذیبی اور معاشرتی حالات کو بھی تشبیہات اور استعاروں کو انوکھا روپ دے کر سماج کے مردہ ضمیر کو کریدنے کی بھی کامیاب سعی کی ہے۔ اُن کی شاعری کائنات کا مطالعہ کیاجائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے سینے میں آندھی ،خزاں اور آگ سے متاثر ہونے والے بے بسوں اور بے کسوں کے لئے درمندی کا جذبہ ہر دم موجزن رہتا ہے۔غم ،اداسی ،افسردگی اور نئی فضا کی آلودگی سے بے بس لوگوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی کے رجحان کو دیکھ کے وہ تڑپ اٹھتے ہیں۔
رنج و الم کے مارے لوگ،افسردہ ہیں سارے لوگ
ٹل جاتے ہیں وعدوں پر ،کتنے ہیں یہ نیارے لوگ
ان کا بھی کوئی ساتھی ہو،جو ہیں غم کے مارے لوگ
خورشید کاظمی کی غزلوں میں فطرت کے مختلف رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ان کے فکری کینوس پر معاشرے کی زبوں حالی و کسمپرسی کا خاکہ مختلف مصائب و مشکلات میں الجھا ہوا دیکھائی دیتا ہے۔ وہ تعمیری فکر کو جنم دینے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ،سماج میں ایک نئی روش پر چلنے کے لئے تیر ہوتے ہیں اور سماج کی پستی و گمرہی پر اظہار تاسف کے علاوہ انھوں نے اس سے نجات کی راہیں بھی تلاش کی ہیں ۔ ان کی شاعری میں حوصلہ و عزم کے دریا بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔وہ اشاروں اور کنایوں کے توسط سے سماج کے باطن میں اُتر کر کام لینے کا ہنر جانتے ہیںاور زندگی کی حقیقت اور فلسفے کو خوبصورتی کے ساتھ اشعار کی لڑی میں پرو رکر غور فکر کرنے کی تلقین کرتے ہیں ہیں۔انہوں نے کائنات کی حقیقتوں اور زندگی کے کرب کو چن چن کر تشبیہات میں پُرویا ہےاورتیز رفتار زندگی کی بے بسی سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔بے چین شہروں کی گلیوں میں سانس لے کر انھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا آخری سفر جلد مکمل ہونے والا ہے کیونکہ اپنے ماحول کی گندگی ،بربادی اور انسانیت کو لہو لہان دیکھ کر ذہنی تنائو میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔جب وہ اپنے شہر میں مکرو فریب ، انسانیت کی ناقدری ،ہمدردی کا قتل ،دھوکہ اور جھوٹ کی پذیرائی کو دیکھتے ہیں تو اس طر ح اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں ۔
تھا کبھی دور مسرت میرےبھی اس شہر میں
سب کو تھی سب سے عقیدت میرے بھی اس شہر میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدمی ہے آدمی کے خون کا پیاسا یہاں
کیسی پھیلی یہ نحوست میرے بھی اس شہر میں
سادگی کے ساتھ اپنی بات کو کہنے اور اپنا مدعا بیان کرنا آسان نہیں ہوتا مگر یہ فن بھی خورشید کاظمی کو خوب آتا ہے ۔اُن کی غزلوں کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے خواب وخیالات کی دنیا محدود نہیں ہے۔ وسعت اور معنویت سے بھر پور ان کی غزلیں روح کی گہرائیوں میں اتر کر پیدا ہونے والی کیفیت کو جلا بخشتی ہیں۔ان کی غزلوں میں جو حسن ،تازگی ،شگفتگی اور جو جدت طرازی ہے ،وہ ان کی شاعری کو توانائی بخشنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔’’حسن تغزل‘‘ کے مطالعے و مشاہدے کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ خورشید کاظمی دبستان جموں وکشمیر کے حسین اور کامیاب شاعر ہیں ۔ ان کا تخلیقی تجربہ قابل قدر ہے ان کی فکر فطری شاعری کی ظرف مائل ہے اور انھوں نے فکر وفن کے دامن کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ کر شعر و سخن کی دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔بقول خورشید کاظمی
’’تیرے نزدیک آ کے دیکھ لیا،تجھ کو اپنا بنا کے دیکھ لیا،تشنگی تو سفر کی کم نہ ہوئی ،ہم نے منزل پہ جا کے دیکھ لیا۔‘‘
رابطہ ۔9103930114
[email protected]