Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

حسرتوں کا تابوت

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: April 2, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
11 Min Read
SHARE
اُس نے ایک لمبی آ ہ بھرتے ہوئے نیلے آسمان کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھا۔ چہرے پرمتانت اور آنکھوں میںبیسیوں شکوے ۔ایسا لگ رہا تھا کہ رمضان جوؔ اپنے دل پر منّوں بوجھ لئے جی رہاہے اور اس بوجھ کے تلے اس کی حسرتیں دب کر خاک ہوگئی ہیں۔اُسے اپنے وہ لہلہا تے ہوئے کھیت  بار بار یاد آتے ہیںجہاں وہ فصلیں اُگاتا اور انھیں بھر پیٹ کھانے کو مل جاتا۔بچے تو دن میں تین تین مرتبہ کھانا کھالیاکرتے اور بڑے مزے سے ان کے دن گزرتے تھے۔ رمضان جو بڑا محنتی تھااور کھیتوں پر جی جان لگا کر کام کرتا رہتااور کام کے دوران جب جب اُس کی بیوی آمنہؔ کھانالے کر آجاتی تووہ دورسے ہی زور زور سے پکارتی۔’’رمزے۔۔۔میں کھانا لائی ہوں۔‘‘یہ سنتے ہی رمضان جوؔ کھیت کے کسی حصے سے نکل آتا اور تیز تیز قدم اُٹھا کر آمنہ کے پاس جاکر دبی زبان سے کہتا ۔’’مجھے بہت زیادہ بھوک لگی ہے کھانا پروسو۔‘‘وہ کھانا پروستی اور رمضان جوؔکھانے پر اس طرح جھپٹ پڑتا جیسے کئی دنوں کا بھوکا ہو۔کھانا کھا کر وہ کچھ دیر کے لئے آمنہ سے گپ شپ کرتا رہتا۔رمضان جوؔ کھیتوں سے بھر پور اناج پیدا کرتا تھا۔خود بھی کھاتے اور غرباء و فقراکو بھی اکثر کھلا تا۔ اور تواور کچھ اناج فروخت بھی کرتا جس سے چار پیسے ہاتھ آجاتے ا ور رمضان جوؔ بچوں کے روشن مستقبل کے لئے طرح طرح  کی ترکیبیں سوچتا رہتا۔مگرپھر ایک دن ایس آیا کہ اُس کی عقل میں فتورآگیا اور اس نے اپنے کھیت کوڑیوں کے دام بیچ دئیے۔ آج اُن کھیتوں پر چھوٹے بڑے کار خانے نظر آتے ہیں۔وہ پچھتاوے کی آگ میں ایسے سلگ رہا ہے جیسے تپتے ہوئے انگاروں پر لوہا۔اس زور وہ صبح تڑ کے سے ہی قطار میں کھڑا راشن گھاٹ کے منشی جی کا انتظار کر رہا تھا ۔اس کے گھر میں تھوڑے ہی چاول بچے تھے جبھی تو اسے فکر لاحق ہورہی تھی وہ سوچ  رہا تھا کہ اگر آج بھی وہ چاول لئے بغیر واپس لوٹا تو گھر میں قیامت کھڑی ہوجائے گی۔ بیوی آسما ن سر پر اُٹھا لے گی اور زور زور سے اُس کو نکما‘ ناکارہ  پکار کرسارے محلے والوں کی نیند حرام کرے گا۔ ’’ آج کسی بھی قیمت پر چاول خریدنے ہی ہونگے، نہیں تو گھر کرکٹ کھیل کا میدان بن جائے گا،شیشے رہیںگے نہ برتن۔ بیوی گھر کے سامان پر خوب غصہ اُتارے گی۔بچے بھی نہیں بخشیں گے کیونکہ انھیں کئی دنوں سے پیٹ بھر کے کھانا نہیں ملا ہے ‘‘ اسی اثنا میں دوکان کا شٹر کھلنے کی آواز سنائی دیتی ہے وہ چونک سا جاتا ہے اور منشی جی پر نظریں پڑتے ہی اس کی جان میں جان آجاتی ہے۔ منشی جی راشن کارڑ ہاتھ میں لئے ایک ایک کا نام پکارتا رہااور لوگ چاول لیتے ر ہے۔ رمضان جو کی نظریں راشن گھاٹ میں پڑے چاول کے ڈھیر پر پڑی تو سوچنے لگا’’کاش الہ دین کا چراغ ہاتھ لگ جائے تو میں جن کو حکم دیکر چاولوں کا یہ ڈھیر گھر میں جمع کر والیتا اور بچے خوب کر کھانا کھالیتے بیوی بھی خوش ہوجاتی اور کچھ  دن راحت کے نصیب ہوجاتے۔‘‘ رمضان جو بڑی بے صبری سے اپنی باری کاانتظار کر رہا تھا کہ دو آ دمی آپس میں تو تو میں میں کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھا پائی پر اُتر آ ئے۔ رمضان جو نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ۔’’بھائی یہ لڑنے جھگڑنے کاوقت نہیں ہے  چاول لے لو اور چلتے بنو ۔‘‘ یہ بات ایک آدمی کو نا گوارگزری وہ غصے سے لال پیلا ہو گیا۔ اُس نے رمضان جوکو ٹکر ٹکر دیکھ کر کہا ’’چپ ہو جائو۔۔نہیں تو میں آپے سے باہر ہو جائوں گا‘‘رمضان جو نے جواب میں بس اتنا کہہ دیا کہ مجھے آ نکھیں مت  دکھائو۔‘‘اتنی سی بات پر دونوں لڑ پڑے۔ رمضان جونے ا س کو زمین پر زور سے پٹخ دیا اور اس کاسر پتھر سے ٹکرا گیا ۔خون فوا رے کی طرح پھوٹنے لگا اور وہ غشی کی حالت میں زمین پر پڑا رہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُدھم مچ گیا۔کچھ لوگ اس کے ارد گرد کھڑے ہوئے ۔کچھ چلا رہے تھے ’کوئی جلد ی سے گاڑی لے آئو۔‘اُس آدمی کو گاڑی میں لٹا کر اسپتال پہنچایا گیاجہاں اس کے سر پر کئی ٹانکے لگائے گئے۔ اسپتال کے عملے نے  نزدیکی پولیس چوکی کو اطلا ع دی تو پولیس والے رمضان جو کی تلاش میں اس کے گھر پہنچے۔’رمضان جو کہاں ہے‘ ایک نے آواز دی اندر سے اس کی بیوی دوڑ تی ہوئی چلی آئی اور ڈری ڈری بولی۔’کیا بات ہے انسپکٹر صاحب‘وہ کڑک ہو کر بولا ’کہاں چھپا رکھا ہے کمینے کو۔ اس کو ہمارے حوالے کردو۔‘آمنہ نے پریشان ہو کر پھر پوچھا۔انسپکٹر صاحب آپ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کیا کیا ہے رمزے نے۔ کیا کیا ہے اس نے ایک آدمی کا سر پھوڑ دیا ہے‘۔’آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے وہ ایسی حرکت نہیں کرے گاوہ ایک شریف آدمی ہے‘۔’ہاں ہاں وہ اس کے کرتوت سے ہی پتہ چلتا ہے۔ اب سیدھے سیدھے اس کو ہمارے حوالے کرتی ہویا ہم سختی برتیں‘۔’مگر انسپکٹر صاحب ۔اس کا تو صبح سے ہی کوئی اتہ پتہ نہیں ہے وہ تو راشن گھاٹ پر چاول لا نے گیا تھا۔اس نکمے نے ہمیں پائی پائی کا محتاج بنا دیا ہے۔ میں نے اس کو بہت سمجھایا تھاکہ یہ کھیت مت بیچو، ان سے ہمیں اناج ملتا ہے مگر اس نے ایک نہ سنی۔اپنے سارے کھیت بیچ دئیے اب اس غلطی کی سزا بھگت رہا ہے اب مہینے بھر کے انتظار کے بعدچند کلو چاول راشن گھاٹ سے لے آ تا ہے اور بمشکل پیٹ کی آگ بجھ جاتی ہے‘۔انسپکٹر کچھ دیر کے لئے من ہی من میں سوچتا رہا ’پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے انسان کو کیا کچھ نہ کرنا پڑتا ہے۔ کاش رمضان جو نے ا پنے کھیت بیچ نہ دئیے ہوتے تو شایدچاول کے چند کلو کے لئے مارا ماری نہ کرتا۔‘انسپکٹر صاحب اس کو معاف کر دیجئے‘آمنہ بولی۔’آ ج اس نے کسی کا سر پھوڑ دیا ہے۔ کل کسی کا قتل کرے گااور تم کہتی ہو معاف کردوں۔ہر گز نہیں اس کو اپنے کئے کی سزا ملنی چاہیے۔آتے ہی اس کو چوکی پر بھیج دینا‘ اور وہ چلے گئے آمنہ اضطراری حالت میں ادھر اُدھر گھوم پھرنے لگی۔ ر مضان جو پولیس کی نظروں سے بچتے بچاتے ہوئے اسپتال پہنچ گیا، جہاں وہ اس آدمی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑاتا رہا’مجھے معاف کر دو ۔ مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔‘و ہ آدمی اپنے رویے پر پشیمان تھااور غلطی کامرتکب خود کو ہی ٹھہرا رہا تھا۔ وہ رمضان جو سے مخاطب ہوکر بولا۔’غلطی مجھ سے ہی ہوئی ہے جو میں نے آپ سے خواہ مخواہ میں غصہ کیا ۔‘اتنے میں ہی اسپتال عملے کے کسی ملازم نے پولیس انسپکٹر کو اطلاع دی اور پلک جھپکتے ہی وہ اپنے کچھ سپاہیوں کے ساتھ اسپتال پہنچ گیا۔’پکڑو کمینے کواور حوالات میں بند کر دو‘رمضان جو ان کے سامنے گڑ گڑاتا رہا’مجھے معاف کر دو ۔مجھ سے غلطی ہوئی ہے‘مگر انھوں نے اس کی ایک نہ سنی۔ اس کوپکڑ کر لینے ہی لگے تھے کہ بیڈ پرلیٹا زخمی آدمی بولا ۔’انسپکٹر صاحب ۔ اسے معاف کر دیجئے اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں‘۔’ایک دو گھنٹے حوالات میں رہے گا تو اس کی عقل ٹھکانے آئے گی‘پھر رہا کر دیں گے۔ انھوں نے اس کو حوالات پہنچا کر بند کر دیا۔رمضان جو بیٹھے بیٹھے سوچنے لگا ’میں نے اپنے آپ کو پائی پائی کے لئے  محتاج  بنا دیا ہے۔ اگر میں نے کھیت بیچ نہ دئیے ہوتے تو شاید یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔‘یہ سوچتے سوچتے رمضان جو کی آنکھ ر ا ت کے کس پہر لگ گئی اُسے کچھ خبر نہیں۔ رات بھر کی قید کے بعد جب اُس نے اگلی صبح آنکھیں کھولی تو وہ بہت زیادہ پریشان ہوگیا۔اس نے سپاہی کو آ واز دی۔’میرے گھر والے پریشان ہو رہے ہونگے مجھے چھوڑ دیجئے۔میں آ پ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔‘ سپاہی نے کرخت لہجے میں کہا ’اب عقل ٹھکا نے آئی۔چلو بڑے صاحب کے پاس۔‘ وہ ٹوٹا ہوا صاحب کے سامنے کھڑا ہوگیا۔’دیکھو !رمضان جو۔تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اس لئے چھوڑ دیتا ہوں۔آئیندہ خیال رہے۔‘رمضان جو کی آنکھیں بھر آئیں۔اُس نے جاتے ہوئے صاحب سے کہا پیٹ پاپی ہے صاحب۔ اس کو راہ چلتے ہوئے وہ لہلہاتے ہوئے کھیت پھر یاد آئے، جن سے اس کی خوشحالی تھی اوروہ یہی سوچتے ہوئے بوجھل قدموں گھر پہنچ گیا تو بیوی بولی’ رمزے۔۔ تم نے ایک بار بھی ہمارے بارے میں نہیں سوچا۔‘ اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ـ’رمزے گھر میں چاول ختم ہوچکے ہیں چاول لے آئو۔‘’ مگر‘’مگر ۔۔کیا رمزے  ۔’میری جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے‘۔’میں نے کھیت بیجنے سے منع کیا تھا لیکن تم نے ایک بھی نہ سنی اور وہ کیچن میں جا کر الٹے پائوں لوٹ آئی۔ کہا۔’یہ لو۔۔کشکول۔‘اس کے بچے بڑی معصومیت کے ساتھ اسے دیکھے جارہے تھے، جیسے ان کی حسرتوں کا تابو ت ان کے بابا کے ہاتھ میں ہو۔اور ان کے سارے معصوم سپنے اس میں سمٹ گئے ہوں۔
رابطہ؛دلنہ بارہمولہ،موبائل نمبر:-9906484847
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

کشمیر سے کنیا کماری تک اب محض ایک نعرہ نہیں بلکہ حقیقت ہے: منوج سنہا
تازہ ترین
وزیر اعظم نریندر مودی نے کٹرا سے سری نگر وندے بھارت ایکسپریس کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا
تازہ ترین
جموں و کشمیر: وزیر اعظم نریندرمودی نے دنیا کے سب سے اونچے ‘چناب ریل پل’ کا افتتاح کیا
تازہ ترین
لیفٹیننٹ جنرل پراتیک شرما کا دورہ بسنت گڑھ، سیکورٹی صورتحال کا لیا جائزہ
تازہ ترین

Related

کالممضامین

آدابِ فرزندی اور ہماری نوجوان نسل غور طلب

June 5, 2025
کالممضامین

عیدایک رسم نہیں جینے کا پیغام ہے فکر و فہم

June 5, 2025
کالممضامین

یوم ِعرفہ ۔بخشش اور انعامات کا دن‎ فہم و فراست

June 5, 2025
کالممضامین

حجتہ الوداع۔ حقوق انسانی کاپہلا منشور فکر انگیز

June 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?