قیصرمحمودعراقی
رشک ایک ایسا اچھا اور مثبت جذبہ ہے جس میں کسی دوسرے ، مگر اچھے اور نیک انسان جیسے ہونے کی خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے، مگر اس انداز سے کہ جس شخص کے جیسا بننے کی آرزوکی جارہی ہے، وہ بھی کوئی بہت اچھا اور قابل تقلید شخص ہو اور اس کی نقل کرنا باعث فخر ہو۔ اللہ کے بہت سے عبادت گذار بندے جب یہ دیکھتے ہیں کہ کچھ دوسرے لوگ ان سے زیادہ مخلص انداز سے اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہیں اور عبادات میں ان سے زیادہ اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہیں تو انہیں ایسے لوگوں پر رشک آتا ہے اور ان کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش!وہ بھی اطاعت ِالٰہی میں ایسے ہی درجے پر فا ئض ہوتے۔وہ ان لوگوں پر رشک کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں یہ توفیق عطافرمائی ہے ، وہ خود بھی ان جیسا بننا چاہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’صرف دو انسان ہیں جس پر رشک کرنا درست ہے، ایک وہ انسان جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایااور وہ اس مال کو اللہ کی راہ خرچ کرنے میں مصروف ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ رب العزت نے شریعت کے علم سے نوازا اوروہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور اسی کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘(بخاری ومسلم)مذکورہ بالا حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں کہ ہر معاملے پر اور ہر انسان کو دیکھ کر ہی رشک کیا جائے بلکہ رشک کرنے کی جائز صورت کو اللہ کے رسولؐ نے بیان کردیا ہے اور اس کے علاوہ رشک کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔ دوسری جانب حسد ہے جو ایک منفی ایک نقصاندہ جذبہ ہے اور یہ جذبہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ دوسروں کو دیکھ کر جلنا، کڑھنا ایک ایسا مرض ہے جو سوائے دُکھ کے اور کچھ نہیں دیتا۔ یہ جذبہ انسان کی روح کو گھائل کردیتا ہے اور اس جذبے کے منفی اثر سے ایک آدھ نہیں،کئی زندگیاں منتشر ہوجاتی ہیں۔ مثال کے طور پر بعض لوگ کسی کی کامیابی کو دیکھ کر اس سے جلنے لگتے ہیں کیونکہ وہ اس کی کامیابی کو برداشت ہی نہیں کرپاتے۔ مثلاًبعض لوگ اس انداز سے سوچتے ہیں کہ فلاں شخص ایسا کیوں ہے کہ یہ جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہے ، اُسے کامیابی کیوں ملتی ہے؟ یہ حسد ہے اور حسد بہت نقصاندہ چیز ہے، حسد انسان کی پوری زندگی کو تباہ وبرباد کردیتاہے ۔ یہ انسان کے اخلاق اور کردار پر بہت برا اثر ڈالتا ہے، جس سے وہ انسان معاشرے میں نمایاں ہوکر لوگوں کی تحقیر اور ناپسندیدگی کا نشانہ بنتا ہے اور مذہبی طور پر وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات سے روگردانی کا مجرم قرار پاتا ہے۔ حسد،جلن، بغض اور عداوت ایسی نفسیاتی کیفیات ہیں جن میں حاسد کسی دوسرے انسان کیلئے یہ چاہتا ہے کہ کس طرح اس کا نقصان ہوجائے، اُس کی کامیابی ناکامی میں بدل جائے اور اُس کی صلاحیت کو زنگ لگ جائے، وہ جو بھی کام کرے اس میں ناکامی ہی ملے۔
اسلام میں حسد کے منفی جذبے سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، اسے ایک ایسی بیماری قرار دیا گیا ہے جو انسان کی روہ کو تکلیف دیتی ہے، اسے زخمی اور لہولہان کرڈالتی ہے۔ حسد کی وجہ سے انسان اخلاق کے اعلیٰ درجے سے گر جاتا ہے، وہ معاشرتی طور پر بدنام ہوجاتا ہے اور لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ اس بات پر ہی غم زدہ رہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے بندوں میں سے کچھ کو کیوں نواز دیاہے۔ حالانکہ یہ تو اللہ کی دین ہے ، جسے چاہے نواز دے اور جسے چاہے محروم کردے۔ اس کی عطا اور اس کے فضل پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔حاسداپنی حسد کے چکر میں مارے جاتے ہیں، ان کے اندر آگ لگی ہوتی ہے جو ان ہی کو جلاکر خاکستر کررہی ہوتی ہے اور انہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ انہوں نے اپنا کتنا بڑا نقصان کرلیااور دنیا وآخرت دونوں جگہ رُسوائی مول لے لی۔ حسد کرنے والے لوگ رائندہ درگاہ ہوجاتے ہیں، جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ حسد کی آگ حاسد کو جلاکر راکھ کردیتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان اللہ سے توبہ کرے اور اس سے دعا مانگے کے وہ اسے ہمیشہ حسد جیسے منفی جذبے اور اس انتہائی موذی اخلاقی برائی سے محفوظ رکھے ۔ اللہ کے پسندیدہ بندوں کو دیکھ کر خوش ہونا ، ان سے عقیدت رکھنا اور ان جیسا ہونے کی آرزوکرنا بلاشبہ ایک اچھا اور منفی جذبہ ہے، مگر حسد سے بہر حال بچنا چاہئے، یہ انسان کو دنیا میں تو رُسوا کریگا ہی ،آخرت میں بھی ناکامی اس کا مقدر بن جائیگی۔