Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

حریت کے خلاف میڈیائی جنگ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: August 12, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
16 Min Read
SHARE
حریت کانفرنس کے کچھ نمایاں چہروںپر بھارت سرکار کی نیشنل تحقیقاتی ایجنسی نے مزاحمتی تحریک کی فنڈنگ کے سلسلے میں سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ان الزامات کے زمرے میں حریت کے دونوں دھڑوں کے کچھ رہبر اور اُن سے وابستہ افراد شامل ہیں۔در حال حاضر مبینہ الزامات کے دائرے اِن اشخاص کے خلاف بھارت سرکار کی نیشنل تحقیقاتی ایجنسی نے عدالت سے ریمانڈ حاصل کیا ہے۔یہ ریمانڈ ایف آئے آر (FIR)درج کروانے کے بعد حاصل کئے گئے ہیں ۔ریمانڈ حاصل کرنے کا قانونی پہلو یہ ہے کہ ریمانڈ کے دوران تحقیقاتی ایجنسی چارج شیٹ کو ترتیب دیتی ہے جس میں مبینہ الزامات کی تفصیلات ہوتی ہیں۔ عدالتی بحث میں جج صاحبان سرکاری وکیل اور دفاعی وکیل کی بحث کے بعد اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ سناتے ہیں ۔ٹرائل کورٹ کے بعد طرفین کو یہ حق ہوتا ہے کہ اگر مقدمے کا فیصلہ اُن کے خلاف ہو تو سیشن کورٹ میں اپیل دائر کریں۔اِس کے بعد بھی انصاف کے دروازے کھلے ہوتے ہیں اور فیصلہ خلاف ہونے کی صورت میں ہائی کورٹ حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ قانون کے اِن مراحل کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ حریت کے بعض رہبروں کے خلاف جو الزامات عائد کئے گئے ہیں وہ در حال حاضر ابتدائی سٹیج میں ہیںاور قانونی جرح وتعدیل کا مرحلہ نہیں آیا ہے بلکہ نیشنل تحقیقاتی ایجنسی ریمانڈ حاصل کر کے چارج شیٹ ترتیب دینے میں لگی ہوئی ہے لیکن اس سے پہلے ہی بھارتی میڈیا خصوصاََ الیکڑانک میڈیا میںقانونی جرح شروع ہو چکی ہے بلکہ فیصلے بھی سنائے جا رہے ہیں۔
بھارتی ٹیلی ویژن چنلوں پہ پرائم نیوز ٹائم میں عدالتی فیصلوں سے پہلے ہی جو میڈیا ٹرائل شروع کر دی گئی ہے، اُس کے بارے میں پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا میڈیا ٹرئیل سے انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں؟ یہاں ایک ایسی صورت حال ہے جہاں ٹیلی ویژن چنلوں پہ مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی جرم کو ثابت شدہ قرار دیا جاتا ہے اور فیصلے بھی سنائے جا تے ہیں۔بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہنے والے یہ جواز پیش کر سکتے ہیں کہ جمہوریت میں میڈیا پہ پابندی نہیں لگائی جا سکتی ۔یہ سچ تو ہے لیکن اُس سے بڑا سچ یہ ہے کہ پیش رفتہ جمہوری ملکوں میں جہاں جمہوریت صدیوں سے قائم ہے وہاںایک پریس کوڈ ہوتا ہے جو میڈیا کی نشریات پہ اخلاقی حدیں قائم کرتا ہے اور اِس کا اطلاق پرنٹ میڈیا پر بھی ہوتا ہے اور الکٹرونیک میڈیا کی نشریا ت پر بھی اخلاقی حدیں قائم کر لی جاتیں ہیں تاکہ کسی مظلوم کی حق تلفی نہ ہو۔بات ملزم کے جرم کو ثابت شدہ قرار دینے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فیصلے سنانے کے ساتھ ساتھ نا زیبا زباں استعمال کرنے پر بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔میڈیا ٹرئیل سے ایک خاص قسم کا ماحول بنتا ہے اور سماج میں اُس کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔جج صاحباں اِسی سماج میں رہتے ہیں اور وہ کتنے ہی غیر جانبدار کیوں نہ ہوں سماجی کیفیت اُن پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔ ماضی کی طرف دیکھا جائے تو افضل گورو کیس میں جج صاحباں کے فیصلے میں یہ ذکر ہوا کہ فیصلہ لیتے وقت قوم کی مجموعی ذہنی کیفیت کو مد نظر رکھا گیا جبکہ اِس مجموعی ذہنیت پہ یہ نعرہ بھی اثر انداز رہا کہ ’دیش ابھی شرمندہ ہے افضل گورو زندہ ہے‘!
میڈیا ٹرئیل صرف اُن ہی افراد تک محدود نہیں جن کے خلاف ایف آئے آر (FIR)فائل ہوا ہے اور جن کے خلاف عدالت سے ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے بلکہ میڈیا ٹرئیل اُن کے خلاف بھی جاری ہے جن کے خلاف نہ ہی کوئی ایف آئے آر (FIR)نہ ہی تحقیقات کیلئے کوئی ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے ۔ ٹیلی ویژن چنلوں پہ حریت رہبراں کی جائدادوں کی وسیع تشہیر بھی ہوتی ہے اور اُن میں اتفاقاََ اُن جائدادوں کا ذکر بھی ہوتا ہے جو اُنکے باپ داد کے زمانے چلی آ رہی ہیںاور اِن اثاثوں کی قیمت اِس حد تک قرار دی جاتی ہے جو بازار میں اُن کی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہے ۔کردار کشی کی کھلی چھوٹ کسی بھی معاشرے کو زیب نہیں دیتی بھلے ہی جن کی کردار کشی ہو رہی ہو اُنہیں ذہنی تخمینے میں دشمن شمار کیا جائے۔آج کے بھارت میں ثقافتی نیشنلزم کے نام پہ کسی کو بھی کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی کہا جا سکتا ہے اور ثقافتی نیشنلزم کے نام پہ کسی بھی الزام تراشی کی کھلی چھوٹ ہے بھلے ہی وہ اخلاقیات پہ بھاری پڑے ۔ یہاں حدف کسی کا بیجا دفاع نہیںبلکہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے اور اخلاقی قدروں کا دفاع ہے۔
ماضی پہ نگاہ ڈالی جائے تو یہ عیاں ہوتا ہے کشمیر کی مزاحمتی تحریک کو پہلے بھی قانونی دائرے میں لایا گیا ہے ۔ 1953ء میںجب شیخ محمد عبداللہ کی سرکار کا تختہ دہلی سرکار کی ایماء پہ الٹا گیا تو اُسے حق بجانب قرار دینے کی سعی میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا جو کشمیر کی تاریخ میںـ’کشمیر سازش کیس‘ کے عنواں سے ثبت ہوا ہے۔مقدمے کی نوعیت یہ رہی کہ شیخ محمد عبداللہ نے امریکہ کی ڈیموکرٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار اڑلیہ سٹیونسن (Adlai Stevenson) کے ساتھ ملاقات میں کشمیر کی آزادی کی بات سامنے رکھی۔الزامات کی فہرست میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ بھی ساز باز کا الزام بھی شامل رہا اور بارہا سرحد پار سے فنڈنگ کے الزامات بھی لگے۔ 1958ء میں شیخ محمد عبداللہ کچھ دیر کیلئے رہا کئے گئے اور اِس دوران حضرت بل کے گردو نواح میں تشدد کے واقعات پیش آئے اور انہیں بنیاد بنا کیایک اور مقدمہ بعنواں ’حضرت بل قتل کیس‘ شیخ محمد عبداللہ کے چند قریبی ساتھیوں پہ عائد کیا گیا ۔ یہ مقدمات ایک خصوصی عدالت میں سالہا سال تک چلتے رہے۔انجام کار 1964ء میں دہلی کی سیاسی روش میں تغیر آیاجس کے نتیجے میں شیخ محمد عبداللہ کو ساتھیوں سمیت نہ صرف رہا کیا گیا بلکہ مقدمات کو بھی رول بیک کیا گیا چناچہ نہ ہی بھانس رہا نہ ہی بانسری بجی نہ ہی مقدمات رہے نہ ہی کوئی فیصلہ صادر ہوابلکہ شیخ محمد عبداللہ کو دہلی بلایا گیا جہاں پہ اُن کا نہ صرف پرتپاک استقبال کیا گیا بلکہ اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اُنہیں نمائشی مذاکرات کیلئے پاکستان بھیجا جہاں پاکستانی صدر ایوب کے ساتھ اُن کی بات چیت ہوئی۔دہلی کی ایماء پہ شیخ محمد عبداللہ کی یہ سفارتی مہم اُس وقت اختتام پہ پہنچی جب اچانک دارلحکومت دلی میں پنڈت نہرو پر لوک سدھارے۔بہر حال نتیجہ جو بھی رہا ہو یہ حقیقت عیاں رہی کہ مقدمات کی نوعیت سیاسی تھی اور سیاسی فیصلے پہ ہی یہ منتج ہوئے۔بنابریں ماضی کو نظر میں رکھتے ہوئے کشمیر کے لوگ موجودہ گرفتاریوں،ریمانڈوں، الزامات کی لمبی فہرست ترتیب دینے کی کاروائیوں کو بھی ایک سیاسی پینترے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے بھلے ہی عصر حاضر میں دہلی کی پالیسی اور سیاسی لیڈرشپ کی روش مختلف نوعیت کی ہو؟
شیخ محمد عبداللہ اور اُن کے قریبی ساتھی جب مقدمات کے دائرے میں تھے تب دہلی بلکہ بھارت کے طول و عرض میںکچھ رہبر شیخ محمد عبداللہ کو روٹھا ہوا ساتھی مانتے تھے اور اِن رہبراں میں جے پرکاش نارائن اور راج گوپال آچاریہ جیسے برگذیدہ لیڈر شامل تھے ۔یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1953ء میں شیخ محمد عبداللہ کے پابند سلال ہونے کے فوری بعد دہلی دربار کے ایما پہ کئی اہم رابطہ کار شیخ محمد عبداللہ سے ملتے رہے جن میں خواجہ احمد عباس جیسے افراد شامل تھے ۔اِس رابطہ کاری سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شیخ محمد عبداللہ اور اُن کے ساتھیوں کو پابند سلال کرنے اور اُن پہ مقدمات دائر کرنے کا حدف یہی رہا کہ اُنہیں بھارتی قومی دائرے میں لایا جائے جسے عرف عام میں مین اسٹریم کہا جاتا ہے۔یہ کوششیں ہو سکتا ہے کہ 1964ء میں ہی رنگ لاتیں لیکن پنڈت نہرو کے پرلوک سدھارنے سے یہ کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوئیں ۔انجام کار 1975ء پنڈت نہرو کی سپتری اندرا گاندھی نے اپنے پتا کا مشن شیخ محمد عبداللہ کو مین اسٹریم میں لا کر پورا کیا۔جموں و کشمیر کے عوام اِن سیاسی پینتروں کو اپنے ذہنوں کے گوشوں پہ ثبت کئے ہوئے ہیںلہذا اُنکا موجودہ ہنگامے کے بارے میں مشکوک نظریہ اپنانا طبعی ہے۔
گریٹر کشمیر کے معروف کالم نگار جی ایم زاہد حریت کے خلاف دہلی کے موجودہ طرز عمل کے تجزیے میں اپنے سوموار 7آگست کے کالم میں رقمطراز ہیں کہ جب 1989ء میں جنگجو تحریک شروع ہوئی تو اُس کا سیاسی چہرہ نہیں تھا۔1993ء تک جنگجو تحریک نے اِس حد تک شدت اختیار کی کہ امریکائی 1962 ء کی ہند چین جنگ کے بعد پہلی دفعہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کی بات کرنے لگے۔ اِسی اثنا میں دہلی میں رابن رافیل کے بیانات پہ خدشات کا اظہار کیا گیا۔امریکی صدر بل کلنٹن نے کشمیر میں حقوق بشر کی خلاف ورزیوں پر ناراضگی جتائی۔ جنگجو تحریک میں شدت آنے کے رد عمل میں دہلی کے رویے میں سختی بھی دیکھنے میں آئی اور نرمی بھی اورایجنسیوں کے افسراں کے علاوہ کچھ صحافی بھی رابطہ کار بنے جن میں او پی شاہ،کلدیپ نیئر اور پروفیسراے ایم خسرو شامل رہے جنہوں نے بار بار سرینگر کے چکر  لگانے شروع کئے لیکن ٹنل کے اختتام پہ اُنہیں کوئی روشنی نظر نہیں آئی۔اِسی دوراں سرگوشیوں میں یہ بھی سننے کو ملا کہ کچھ لیڈر بھوٹان سٹیٹس کی بات کہہ رہے ہیں۔ اِسی دوراں وزیر اعظم نرسہما راؤ کا معروف بیان ’’سکائی از دی لمٹ‘‘ (sky is the limit)منظر عام پہ آیا ۔جو کچھ سرگوشیوں میں کہا جارہا تھااُس کی تصدیق ہوئی اور جب 1993ء میں حریت کا جنم ہوا تو اُسے دہلی میں ایک مثبت روپ میں دیکھا گیا اور اُسے مثبت روپ میں جانچنا دہلی تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ عالمی سطح پر بھی اُسے اِسی روپ میں دیکھا گیا۔
آگے جی ایم زاہد ر قم طراز ہیں کہ حریت نے محاز رائے شماری کی مانند جموں و کشمیر کے حل کیلئے صرف رائے شماری کی پیش نہاد نہیں کی بلکہ ایک متبادل حل کی تلاش میں تینوں فریقوں کے مابین ڈائیلاگ کی بات بھی منظر عام پہ آئی ۔1994ء کے اوائل میں حریت کی مجلس عاملہ کے چہار ممبر ایک امریکائی گروپ سے ملے جو بھارتیوں سے بھی رابطے میں تھے ۔جی ایم زاہد کا کہنا ہے کہ اِس کے بعد حریت کو سب سے اہم سیاسی گروہ مانا گیا اور رابطہ کاروں کے وسیلے اُن سے ٹریک ٹو پہ گفتگو کا آغاز ہوا ۔اِن واقعات کے بعد حریت کا سیاسی گراف رو بہ افزائش رہا اور 1995 ء میں جب دہلی میں حریت کے دفتر کھولا گیا تو اِس تقریب میں اے کے گجرال جیسے بھارتی رہبر بھی شامل تھے (قارئین ذہن میں رکھیں کہ اے کے گجرال ایام بعدی میں بھارت کے وزیر اعظم بھی بنے )جی ایم زاہد اپنے کالم میںمزید رقمطراز ہیں کہ اے کے گجرال، اتل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ بھارت کے وزرائے اعظم اسبق مختلف اوقات میں حریت سے رابطے میں رہے اور اِن سب کی انگلی بین الاقوامی سیاسی نبض پہ تھی ۔اُن کی صوابدید میں لیڈرشپ کو ساتھ رکھے بغیر ہند و پاک کے مابین مسائل کا حل تلاش کرنا اور خطے میں خطر ناک صورت حال سے نپٹنا مشکل تھا۔ جی ایم زاہد کا ماننا ہے کہ حریت جیسی مزاحمتی تحریک کو دیوار سے لگانا مسلے کا حل نہیں ہے بلکہ اِس سے کشمیر کے پیچیدہ حالات پیچیدہ تر ہو جائیں گے۔
جی ایم زاہد کا تجزیہ صحیح سمت میں ہے۔کشمیر کی قوم مسئلہ کشمیر کی پیچیدگیوں کے بیچوں بیچ پسے جا رہی ہے ۔ٹی وی چنلوں میں جو جنگی سین دیکھنے کو مل رہے ہیں اُس کے منفی اثرات عوام پر مر تب ہونا طے ہے ۔کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی شبیہ کو کشمیر میں جس قدر نقصان ٹی وی چنلوںکی جنگی چال ڈھال سے ہو رہا ہو شاید ہی کسی اور چیز سے ہوا ہو۔ الزامات کی چھان بین عدالتوں میں ہوتی ہیں نہ کہ ٹی وی چنلوں پہ اور مقدمات کے فیصلے بھی عدالتوں میں سنائے جاتے ہیں۔ٹی وی چنلوںکی خصومت آمیز روش مسئلہ کشمیر کا حل فراہم نہیں کر سکتی نہ ہی کچھ سیاسی کارکنوں پہ مقدمات قائم کرنے سے مسلٔہ کشمیر دب سکتا ہے بھلے ہی اُن پہ الزامات کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور یہ نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں میں عیاں ہے بلکہ شملہ معاہدہ و لاہور ڈکلریشن بھی مسلے کی سنگین نوعیت کی شہادت فراہم کرتے ہیں۔مسلے ٔکا پُر امن و منصفانہ حل ہی بر صغیر ہند و پاک کو سکوں کی سانس فراہم کر سکتا ہے اور جموں و کشمیر کی فرحت و آسائش بھی اُسی میں مضمر ہے۔
Feedback on: [email protected] 

 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

کواڑ پاور پروجیکٹ میں غرقاب مزدور کی نعش بازیاب
خطہ چناب
ہمیں جموں و کشمیر کی روایات کو آگے بڑھاکر یاترا کو کامیاب بنانا چاہئے لیفٹیننٹ گورنر کا جموں میںبھگوتی نگر یاتری نواس کا دورہ ، انتظامات کا جائزہ لیا
جموں
آئی ٹی آئی جدت کاری کیلئے ‘ہب اینڈ سپوک ماڈل پر تبادلہ خیال
جموں
عارضی صفائی ملازمین کی کام چھوڑ ہڑتال تیسرے روز بھی جاری قصبہ میں ہرسو گندگی کے ڈھیر جمع، بیماریاں پھیلنے کا خطرہ لاحق
خطہ چناب

Related

کالممضامین

آن لائن فریب کاری کے بڑھتے واقعات آگہی

July 2, 2025
کالممضامین

! وہ فصل جس نے زمین کی ملکیت بدل دی ایک اندراج جو جموں و کشمیر میں زمین کی ملکیت طے کرتا ہے

July 2, 2025
کالممضامین

بروکولی اور لال گوبھی کی کاشت! شاخ گوبھی ’وٹامن کے‘سے بھرپور سبزی ہے

July 2, 2025
کالممضامین

! جنگ کے شور میں امن کی چاہت دنیا کس خاموش جنگل میں جی رہی ہے؟

July 1, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?