میم دانش،سرینگر
حج، اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے بے حد روحانی اہمیت رکھتا ہے۔ ہر سال ہزاروں کشمیری مسلمان اس مقدس سفر کو مکہ مکرمہ میں ادا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کشمیر میں روایتی طور پر حج کے خواہشمندوں کی ایک بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی تھی۔تاہم گزشتہ چند برسوں سے جموں و کشمیر میں حج درخواستوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی رہی ہے۔ سرسری جائزے کے مطابق۲۰۱۷ء میں تقریباً ۳۵۰۰۰؍ درخواستیں موصول ہوئی تھیںجبکہ۲۰۲۵ء تک یہ تعداد کم ہو کر صرف ۳۶۰۲؍ رہ گئی ہے۔یہ شدید گراوٹ سماجی، معاشی اور جغرافیائی تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہے جو کشمیری مسلم آبادی کو متاثر کر رہی ہیں۔اس تشویش ناک صورتحال کے پیچھے آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو اس قدر شدید گراوٹ کا سبب بنتے جارہے ہیں۔
حج درخواستوں میں کمی کی ایک بڑی وجہ اس سفر کے بڑھتے ہوئے اخراجات ہو سکتے ہیں۔۲۰۲۳ء میںیہاں کے عازمین حج کو چار لاکھ سولہ ہزار روپے جمع کرانے پڑتے تھے جو۲۰۲۴ء میں بڑھ کرچار لاکھ چوبیس ہزار روپے ہو گئی اور۲۰۲۵ء میں یہ اس سے بھی تجاوزکر سکتی ہے۔ اخراجات میں یہ اضافہ حج کو بہت سے لوگوں، خاص طور پر متوسط اور کم آمدنی والے گھرانوں کے لئے پریشان کن مسئلہ ہے۔
سعودی ریال کی قدر میں اضافے نے یہاں قیام اور دیگر اخراجات کو بھارتی عازمین کے لئے مزید مہنگا بنا دیا ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے VAT کے نفاذ نے حج کے مجموعی اخراجات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔اس گرتی شرح کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بھارتیہ مرکزی حکومت نے عازمین حج کو دی جانے والی ۲۱۰۰؍سعودی ریال کی امداد ۲۰۲۳ء سے ختم کر دی ہے جس سے حج پر جانے کے خواہشمند افراد پر مالی دباؤ مزید بڑھ گیا ہے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ صرف بھارتی ایئرلائنز کو سرینگر سے حج پروازوں کے ٹھیکوں میں حصہ لینے کی اجازت ہے جس کی وجہ سے مسابقت محدود ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں ہوائی کرایوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
عازمین حج کی ترجیحات میں ایک نمایاں تبدیلی یہ بھی دیکھی جا رہی ہے کہ وہ حج کے بجائے عمرہ کو ترجیح دے رہے ہیں۔ عمرہ کسی بھی وقت ادا کیا جا سکتا ہے اور اس کے اخراجات بھی نسبتاً کم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ایک زیادہ قابل برداشت آپشن بن گیا ہے۔ماضی کے عازمین حج کی رائے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حج کے دوران فراہم کی جانے والی خدمات سے مطمئن نہیں ہیں۔ سہولیات کی کمی اور مناسب مدد نہ ملنے جیسے مسائل کی وجہ سے بہت سے لوگ حج کے لئے درخواست دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ نجی ٹور آپریٹرز کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ خدمات مطلوبہ معیار کی نہیں ہیںاس لئے بعض عازمین زیادہ لاگت کے باوجود نجی انتظامات کو ترجیح دے رہے ہیں۔
بہت سے افراد جو حج کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، مالی اور لاجسٹک رکاوٹوں کی وجہ سے یہ مقدس فریضہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ حج صرف ایک مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ایک ثقافتی اور سماجی اجتماع بھی ہے۔درخواست گزاروں کی کم ہوتی ہوئی تعداد کمیونٹی میں گہرے معاشی بحران کی علامت ہو سکتی ہے۔کشمیر سے حج درخواستوں میں کمی ایک تشویشناک رجحان ہے، اگر حقیقت میں اس کی وجہ بڑھتی ہوئی لاگت، ترجیحات میں تبدیلی، اقتصادی مسائل اور خدمات کے ناقص معیار ہے تو یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر اُبھر سکتا ہے ۔ ان مسائل کا حل تلاش کرنا وقت کی اہم ضروری ہے تاکہ حج کا سفر ان تمام لوگوں کے لئے قابل رسائی رہے جو اس مقدس فریضے کو ادا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔مالی مدد، بہتر انتظام اور سستی سفری سہولیات جیسے اقدامات کشمیری عازمین کے لئے حج کو زیادہ آسان بنا سکتے ہیں۔اس کے برعکس اگر دینی نظریئے سے دیکھا جائے تو کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہوگا جو حج کی طلب نہ رکھتا ہو اور اس فریضہ کو انجام دینے کے لئے عمر بھر دوڑ دھوپ میں نہ لگا ہوا ہو۔اس مذہبی ارکان کو ادا کرنے کے لئے اس کے سفر کو آسان کرنے کی ضرورت ہے جس میں حکومت ایک اہم رول ادا کر سکتی ہے ۔
[email protected]