جموںوکشمیر میں گڈس اینڈ سروس ٹیکس، جو عرف عام میں جی ایس ٹی سے معنون ہے، کے نفاذ کے حوالے سے قضیہ ابھی جاری ہی ہے کہ اس کے منفی اثرات عام لوگوں نے محسوس کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ چند دنوں کے اندر حج بیت اللہ کے سفر محمود کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے کہ عین اسی وقت پر متعدد ایسے عازمین حج ، جو حج و عمرہ خدمات کا انتظام کرنے والی پرائیوٹ ٹورو ٹریول ایجنسیوں کے ذریعہ یہ فریضہ انجام دینے کی تیاریاں کر رہے ہیں، نہایت ہی شدیدمخمصے کا شکار ہوگئے ہیں ، کیونکہ نئے ٹیکس قوانین کے تحت اُن پر پانچ فیصد سروس ٹیکس لاگو کیا جار ہا ہے، نتیجتاً انکے کلہم اخراجات میں ایک غیر ضروری اضافہ ہوگا، جو سراسر ایک زیادتی ہے۔ اگر جی ایس ٹی کونسل کی جانب سے مذہبی اسفاراور یاترائوں کو خدمت ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے تو پرائیوٹ طور حج اور عمرہ کرنے والوں پہ ٹیکس کیوں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو عام انسان کو پریشان کرنے کےلئے کافی ہے۔خاص کر ایسے حالات میں جب سرکار کی طرف سے تسلیم شدہ اداروں جیسے ریاستی و مرکزی حج کمیٹیوں کے توسط سے ان اسفار کے اہتمام پر کوئی سروس ٹیکس لاگو نہیں کیا گیا ہے۔ اس معاملے کے فریقین، جن میں خاص طور پر حج و عمرہ کا انتظام کرانے والی ٹور اور ٹریول ایجنسیاں شامل ہیں، یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ملک بھر میں سینکڑوں مذہبی سفر مختلف یاترائوں کے نام سے جاری ہیں لیکن ان پر کوئی سروس ٹیکس لاگو نہیں ہے۔ ہماری ریاست جموںوکشمیر میں بھی فی الوقت امرناتھ یاتر ا اور جموں خطے میں کئی یاترائوں کا اہتمام ہو رہا ہے، اور لاکھوںکی تعداد میں یاتری ان میں حصہ لیکر اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی سے سرفراز ہو رہے ہیں، لیکن اُن پر کوئی سروس ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے۔ حالانکہ ان یاتریوں میں ایک اچھی خاصی تعداد ایسوںکی ہوتی ہے جن کے اس مذہبی سفر کا اہتمام ملک کی مختلف ریاستوں میں ٹوراور ٹریول آپریٹر کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں نجی طور سفر محمود پہ جانے والوں پر سروس ٹیکس کے نفاذ کو کیا امتیازی پالیسی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ خاص کر ایسی صورت میں، جب کہ ان تسلیم شدہ ایجنسیوں کو وزارت خارجہ کی طرف سے مخصوص تعداد میں عازمین حج کا کوٹا الاٹ کیا جاتا ہے ، لہٰذا اسے عام طور پر سیاحت یا مذہبی سیاحت کے دائرے میں نہیں لایا جاسکتا۔ جی ایس ٹی کے نفاذ سے قبل کسی بھی قسم کے سروس ٹیکس کے نفاذ کا اختیار ریاستی حکومتی کو حاصل تھا اور حکومت نے اپنے اختیارات کا استعمال کرکے حج او رعمرہ سروس کو اس ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا تھا۔ اب نئی صورتحال میں اگر چہ ریاستی حکومت کا یہ دعویٰ ہے، اُسے مخصوص معاملات میں جی ایس ٹی کونسل سے فیصلوں پہ نظر ثانی کروانے کا حق حاصل ہے، لہٰذا حکومت کو اس معاملے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرکے اس غیر ضروری اور امتیازی ٹیکس کو ختم کروانے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔ کیونکہ بد یہی طو ر پر یہ اقدام اُن عازمین کے ساتھ امتیاز اور زیادتی ہے، جو پرائیوٹ طور اس سفر پہ جا رہے ہوں۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کے فیصلے سے اُٹھنے والی گردا بھی بیٹھی بھی نہیں ہےکہ اس نوعیت کاحیران کن فیصلہ سامنے آیا ہے ، جس کی اگر مخالفت ہو تو شاید غلط نہیں ہوگا۔اپوزیشن سیاسی جماعتیں اس قانون کو ریاستی حکومت کے مالی اختیارات کا خاتمہ قرار دیکر ریاست کی داخلی خود مختاری پر ایک کاری ضرب قرار دے رہے ہیں، جبکہ ریاست کے اندر تاجر طبقہ اور صنعت کار بھی بُری طرح متاثر ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں صنعتی پیدوار کے ساتھ ساتھ روزگار کے وسائل بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہے ہیں۔ظاہر بات ہے کہ ایسے اقدامات سےقانون کے تئیں شکوک و شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے، جنہیں ترجیحی بنیادوں پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس موضوع پر صرف سیاست کرنے کی بجاے مثبت نتائج کے حصول کی خاطر ایسے ٹھوس اقدامات کرنے کی سعی کرنی چاہئے جو امکانات سے بھر پور ہو ںاور جنہیں حکومت کو بھی قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہ ہو۔