حج عبادت ہے دکھاوا نہیں فکرو ادراک

قیصر محموود عراقی

ہر عبادت انسانی زندگی میں ایک تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے، جس عبادت کو بھی اس کی اصل روح کے ساتھ ادا کیا جائے گا، عابد کے سامنے وہ اپنا یہ مطالبہ رکھے گی۔ نماز کا سب سے پہلا مطالبہ نمازی سے ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کو یاد رکھے، ہر قدم پر اس کے حکموں پر نگاہ رکھے اور ہر حکم پر نماز کے رکوع وسجود کی مشق کا اعادہ کرتاچلا جائے تو نماز اس سے اپنا مطالبہ پورا کرلیتی ہے ۔ روزہ، روزہ دار میں صبر وتقویٰ کو پیدا کرنا چاہتا ہے ، اگر پورے رمضان کے روزے اس کے مطالبہ اور گہرے دھیان کے ساتھ اور رسول اکرمؐ کی ہدایات کے مطابق ادا کئے جائیں تو روزہ دار ان اعلیٰ صفات کا حامل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح حج جو کہ ایک بڑے درجے کی عبادت ہے اور نماز روزے کے مقابلے میںمشکل اور مہنگی عبادت ہے، حاجی کی زندگی میں ایک بڑے تغیر کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر اس کے اعمال وار کان کو بھی اسکی اصلی روح ، محبت کی والہانہ کیفیات اور اس کے تقاضوں اور مطالبات پورے شعور کے ساتھ ادا کیا جائے تو حج کے بعد حاجی کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو جانا لازمی ہے۔ لیکن جس طرح ہماری دوسرے عبادات کا حال ہے ،اُسی طرح عام طور پر حج کا حال بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ حج سےمشرف ہونے کے بعد بھی ہمارے حجاج کی زندگی میں کوئی خاص تغیراور انقلاب رونما نہیں ہوتا۔

حج کے ایک ایک عمل کو دیکھیں اور ان اعمال کی ساری فہرست پر نظر ڈالیں، پوری فہرست عاشقانہ اور مجنونانہ ادائوں کا مجموعہ نظر آئے گی۔ کفن جیسا لباس ، لبیک لبیک کا مجنونانہ شور، کعبہ کے اردگرد والہانہ طواف، حجر اسود کو بڑھ بڑھ کےچومنا، چومنے کا موقع نہ ملے تو محبت کی نظر اور ہاتھ کے اشارے سے اپنی حسرت کا اظہار کردینا، صفا ومروہ کے درمیان سعی، عرفہ کا وقوف ، بال بکھرے ہوئے، جسم غبار راہ سے اَٹا ہوا اور رہ رہ کے وہی ایک لبیک لبیک کی رٹ۔ گو یا یہ عبادت عبد ومعبود کے درمیان عشق کا مظہر اتم ہے، ورنہ یہ ادائیں عشق کے سوا اور کس مذہب میں جائزہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ جس نے حج کا فریضہ انجام نہیں دیا وہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ حج کی عبادت دراصل کس وارفتگی کا نام ہے، جو ان کیفیات سے نہیں گزرا بھلا وہ کیسے جان سکتا ہے کہ اپنے آپ کو فنا کردینا کیا ہوتا ہے؟ دیوانگی کیا ہے اور فرزانگی کسے کہتے ہیں؟ یہ معلوم کرنا ہو تو ایام حج میں جذب وجنون کی کیفیت کو جانو اور جس کے دل نے عشق کی گواہی دی ہو اور جس نے رحمتوں کو اپنے اندر بھر لیا ہو، اس سے پوچھوکہ حج کس شوق والہانہ کا نام ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ امت مسلمہ محض اللہ کی خوشنودی اور ادائے فرض وتعمیل ارشاد کی نیت سے حج کریں۔ نام ونمود یا سیر وتفریح یا تبدیلی آب وہوا اور حاجی صاحب کہلوانے کے لئے ہر گزحج کا سفر نہ کریں۔

آج کے دور میں حج کے نام پر طرح طرح کی بدعات وخرافات جنم لے رہی ہیں۔ روانگی سے پہلے اپنے عزیزوں ، دوستوں اور حلقہ یاران کو باقاعدہ دعوت نامہ بھیجے جاتے ہیں، طرح طرح کی تیاریاں کی جاتی ہیں، شامیانے اور کھانے پینے کا پر تکلف اہتمام ہوتا ہے، مستورات بھی بے پردہ گھومتی نظر آتی ہیں ، فوٹو گرافی ہوتی ہے، پھولوں کا ہار پہنا یا جاتا ہےاور حج پر جانے والے کی نیت یہ ہوتی ہے کہ حج سے واپس آنے کے بعد لوگ انہیں حاجی صاحب کہہ کر پکاریں۔ حج کوئی سند اور ڈگری نہیں ہے کہ اس کو کرنے سے آدمی سند یافتہ ہوجائے گا بلکہ حج اسلام کا ایک اہم رکن ہے ، ایک فرض ہے، جس فرض کی ادائیگی بلندی درجات کے باعث اور مسٹولیت سے بچنے کا ذریعہ ہے۔

لہٰذا حج کرنے والے حاجی بہتر ہے کہ احتساب کریں کہ آپ کا حج کس قسم کا ہے۔ حقیقی معنوں میں حج کرنا ہے یا سیر وتفریح کے طور پر۔ علماءجماعت کو بھی احتساب کرنا چاہئے کہ انہوں نے اس مبارک موقع پر اپنی عزت وشہرت کے لئے کیا کیاہے اور اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے لئے کیا کیا ہے۔الغرض حج پر جانے والے حج پر جانے سے پہلے یہ بات بخوبی جان لیں کہ حج ایک عبادت ہے دکھاوا نہیں، حج سر تسلیم خم کردینے کا نام ہے سر اُٹھا کر چلنے اور حاجی صاحب سن کر اترانے کا نام نہیں، حج محبت وعقیدت کا سفر ہے، اپنا رُخ سب سے پھیر کر اللہ کی طرف کرنے کا نام ہے۔
رابطہ۔:6291697668