حج اسلام کا پانچواں اہم رُکن ہے عبادت

نعمان اشرف ڈار
حج اسلام کا پانچواں اہم رن ہے اور ماہ ذی الحجہ اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے ، جو ماہ رمضان کے بعد عظمت وفضیلت میں اپنی نمایاں شان اور منفردشناخت رکھتا ہے، اس مہینے کا چاند نظر آتے ہی ہرمسلمان کے دل میں اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ،جوجلیل القدرپیغمبرحضرت ابراہیمؑ ان کے خانوادے نے پیش کی ، جس کی مثال پیش کرنے سے تاریخ عاجزوقاصرہے۔ذی الحجہ کا یہ مہینہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، جس کو اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی پیدائش کے وقت سے ہی محترم بنایاہے، جس کا ذکرقرآن مجید میں ہے۔
ماہ ذی الحجہ میں دنیا بھر کے مسلمان ایک ہی طرح کا لباس پہن کرمکہ معظمہ میںِ حج کی ادائیگی کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ کیونکہ حج اسلام کے بنیادی پانچ ارکانوں میں ایک اہم رکن ہے جو بنیادی دینی تعلیمات میں سے ہے جو اجتماعیت کا آئینہ دار ہے ،اسی لئے حج ہر اس شخص پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو صاحب استطاعت ہو۔ قرآن پاک میں حج کی فرضیت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ:’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔‘‘(آلِ عمران)
حج نو ہجری میں فرض ہوا، اسی سال جناب فخر دوعالم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو امیر حج بناکر تین سو مسلمانوں کا حج قافلہ روانہ کیا اور اپنی طرف سے بیس اونٹ قربانی کے لئے اُن کے ساتھ دیئے جبکہ پانچ اونٹ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنی طرف سے لئے۔ حضرت ابوبکر صد یق ؓ کی روانگی کے بعد سورة برأت کی چالیس آیتیں نازل ہوئیںتورسول اللہؐ نے حضرت علی ؓ کو یہ آیتیں دے کر اپنی اونٹنی پر سوار کرکے ر روانہ کیا اورحکم دیا کہ بعد حج یوم النحرکھڑے ہوکر سب کوسُنادینا۔حضرت علی ؓ منزل ذوالحلیفہ میں حضرت ابوبکرصدیقؓ کے قافلے سے جاملے ،حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ان سے دریافت کیا کہ تم امیر ہوکر آئے ہو یا مامور ہوکر؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ میں مامور ہوکر آیا ہوں، امیر آپؓ ہی رہیں گے۔حضرت ابو بکر صدیق ؓنے لوگوں کو حج کروایا اور حضرت علیؓ نے سورہ برأت کی آیتوں کو پڑھ کرسُنایا،اور اعلان کروا دیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ کے اندر داخل نہ ہونے پائے گا اور نہ کوئی شخص برہنہ ہوکر خانہ کعبہ کا طواف کرسکے گا۔ آج کے بعد یہاں کوئی غیر مسلم نہیں آئے گا۔ یہ بیت اللہ ابراہیمی ہے اور ابراہیم ؑ کی ملت کے لیے مخصوص ہے۔
 حضرت محمد رسول اللہؐ نے ہجرت کے بعد ایک ہی حج کیا تواس پر محدثین فرماتے ہیں کہ ر سول اللہؐ مکہ میں رہتے ،تو ظاہر ہے کہ ہر سال حج میں شریک ہو تے رہتے۔ دنیا کے مختلف حصوں سے لوگ حج کے لیے آتے تھے اور اس موقعہ پر منیٰ اور عرفات میں اجتماع ہوتے تھے تو پیغمبر اسلامؐ تبلیغ دین کے لئے اس اجتماع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان لوگوں سے ملتے تھے جو حج کےلئے آتے تھے اور انہیں دعوت دین دیتے تھے۔ مدینہ کے دونوں گروہوں اوس اور خزرج کے ساتھ رسول اللہ ؐ کا جو رابطہ ہوا، وہ حج ہی کے موقع پر ہوا تھا ،ان دونوں قبائل کے لوگ حج کے لیے آئے تھے، آپ ؐ نے ان کے خیموں میں جا کر دعوت دی تو انہوں نے آپؐ کی بات توجہ سے سنی اور قبو ل کی۔
 ہجرت کے دس برس بعد جب رسول اللہؐ نے حج کا ارادہ فرمایا اور تمام اطراف میں اطلاع بھیج دی گئی تو بہت بڑی تعداد میں لوگ مدینے آکر جمع ہونے لگے۔ہر ایک کی آرزو تھی کہ اس مبارک سفر میں آپؐ کے ہمراہ جائے اور وہی کچھ کرے جو آپؐ کو کرتے دیکھیں۔ اس طرح 26 ذیقعد کے دن رسول اکرمؐ نے نماز ظہر مدنیہ کی مسجد میں ادا کی۔نماز سے پہلے خطبہ پڑھا اور لوگوں کو ارکان حج کی تعلیم فرما کر ظہر اورعصر کے درمیان پورے قافلے نے نبی اکرمؐ کی قیادت میں سفرشرع کیا۔مدینے سے روانہ ہوکر ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے کراُسی مقام پر قیام کیا۔
دوسرے روز رسول اللہؐ نے ذوالحلیفہ میں نماز ادا فرماکر تمام اصحاب سمیت مکہ شریف کی جانب سفر شروع کیا اورقریب کے بلند میدان بیداءپر پہنچ کرجب آپؐ کی نظر کعبہ شریف پرپڑی تو آپؐنے تکبیر اور دعاپڑھی۔ ترجمہ:’’اے اللہ !تو سلامتی کا مالک ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہوئی ہے اور سلامتی تیری ہی طرف لوٹتی ہے۔اے ہمارے اللہ ! اب ہمیں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھ اور ہمیں سلامتی کے گھر میں داخل فرمادے۔اے ہمارے ربّ ! تو بڑا برکت والاہے اور بڑی بلندی کا مالک ہے۔ اے اللہ ! اپنے اس گھرکی عظمت وشرافت کو اور زیادہ بڑھا۔‘‘اس کے بعدرسول اللہؐ جب میدان عرفات کے بلند میدان بیداءپر پہنچے تو’نمرہ‘ کے مقام پر خیمہ نصب کرنے کا حکم فرمایااور پھر اسی خیمے میں قیام فرمایا تھا۔ جب سورج ڈھلنے لگا، تو آپ ؐ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور ’’وادی‘‘، عرفہ کے نشیب میں پہونچےتو وہاں اونٹنی پر سوار ہوکر لوگوں سے خطاب کیا۔ ’’رسول اللہؐ کے خطبہ حج الوداع کی اہمیت و انفرادیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کی 23 سالہ جدوجہداسلامی معاشرہ کے قیام اور بین الاقوامی سطح پر مصطفوی انقلاب کی بنیادیں استوار کر دینے کی راہ دکھائی۔ آخری حج کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ عالم انسانیت کے لئے انسانی حقوق کا پہلا باقاعدہ چارٹراور اقوامِ عالم کے لیے نیا عالمی نظام وضع کرتا ہے۔اس خطبہ میں پیغمبرانقلابؐنے فرمایا۔ لوگو! ناحق کسی کا خون بہانا اور ناروا طریقے پر کسی کا مال لینا تمہارے لئے حرام ہے، بالکل اسی طرح حرام ہے جس طرح آج کے دن اس مہینے اور اس شہر میں تمہارے لئے حرام ہے (اور تم حرام سمجھتے ہو) خوب سمجھ لو کہ دورِ جاہلیت کی ساری چیزیں میرے دونوں قدموں کے نیچے روند دی گئی ہیںاور زمانہ جاہلیت کا خون معاف ہے اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا خون یعنی ربیعہ بن الحارث بن عبد المطلب کے فرزند کا خون معاف کرنے کا اعلان کرتا ہوں جو بنی سعد کے قبیلے میں دودھ پینے کیلئے رہا کرتے تھے۔ ان کو قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے قتل کر ڈالا تھا اور دورِ جاہلیت کے سارے سودی مطالبے اب منسوخ ہوگئے۔ اور اس سلسلے میں بھی سب سے پہلے اپنے چچا عباس ؓبن عبد المطلب کے سودی مطالبات کے ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔میں تمہارے درمیان وہ سر چشمہ ہدایت چھوڑ کر جارہا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑے رکھوگے اور اس کی رہنمائی میں چلتے ر ہو گے تم کبھی راہِ حق سے نہیں بھٹکوگے۔ یہ سرِ چشمہ ہدایت ’’ اللہ کی کتاب‘‘ ہے، جس میں نور اور ہدایت ہے اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تم سے میرے بارے میں دریافت فرمائے گا (کہ میں نے خدا کا پیغام تم لوگوں تک پہونچا دیا یا نہیں؟) بتاؤ تم وہاں میرے بارے میں خدا کو کیا جواب دو گے؟حاضرین نے یک زبان ہوکر کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے تبلیغ کا حق ادا کردیا، آپ نے سب کچھ پہونچا دیا، اور آپ نے نصیحت و خیر خواہی میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا۔‘‘ اس پر آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی پھر لوگوں کی طرف اس سے اشارہ کرتے اور جھکاتے ہوئے تین بار کہا:’’اے اللہ ! تو بھی گواہ رہ، اے اللہ! تو بھی گواہ رہ، اے اللہ! تو بھی گواہ رہ، میں نے تیرا پیام اور تیرے احکام تیرے بندوں تک پہونچا دیئے، اور تیرے یہ بندے گواہ ہیں کہ میں نےتبلیغ کا حق ادا کردیا۔‘‘ اس خطبے کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت اور اعجاز کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ پھر جب آپ ؐرمی سے فارغ ہوئے تو قربان گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں آپ ؐنے 63۔اونٹ اپنے دست مبارک سے قربان کئے اور باقی اونٹ حضرت علی ؓ کے حوالے کئے، جن کی قربانی حضرت علیؓ نے کی اور انہیں حکم دیاکہ قربانی کے ہر اونٹ میں سے ایک ایک ٹکڑا لیا جائے،باقی گوشت کو مسکینوںمیں تقسیم کردو۔قربانی سے فارغ ہوئے تو حجام کو بلا کر سرمبارک منڈوایا۔معمر بن عبداللہ فضلہؓ نے آپ کی حجامت کی۔پہلے داہنی طرف سے مونڈدیاتو ان کو حاضرین میں تقسیم کیا گیا ۔پھر بائیں طرف سے منڈوایا انہیں حضرت ابوطلحہ ؓ کو دیا۔جب حجامت سے فارغ ہوئے تو اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور طواف کےلئے بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے۔
یہ پیغمبر آخرالزمان حضرت محمدؐ کا الوداعی اور آخری حج ہے۔ امت کیلئے اسوۂ حسنہ بھی ہے اور قیامت تک اہل ایمان اس نمونے پر اپنا فریضہ حج ادا کرتے رہیں ۔ رسول رحمتؐ نے دنیا کو اخوت اورمحبت کا ایسا معاشرہ قائم کرکے دیا جو چشم فلک نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔کیونکہ دنیا میں نسل انسان موجود تھا، لیکن اپنے اجتماعی وجود کا شعور نہیں تھا، پیغمبراسلام ؐنے انسان کو انسانیت کی تعلیم دی جس کی مثال تاریخ عالم میں کہیں نہیں ملتی ہے۔
جب اس رہبر اعظمؐ نے اس دنیا سے پردہ فرما کر دنیا کے لوگوں کے ہاتھ میں ایک مکمل ہدایت اور جامع و مفصل دستور العمل قرآن کریم کی صورت میںعطا کیا۔ آپ ان سب کی مشق سالہا سال تک اپنے سامنے کرا کر گئے اور اپنے پیچھے اپنے شاگردوں کی ایک کثیر جماعت صالحین چھوڑی اور دس لاکھ مربع میل پر آپ ؐنے اپنی عادلانہ حکومت کا نقش قائم کر دیا۔ آپ نے چودہ سو سال پہلے جو کچھ فرمایا آج ہم وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو رسول رحمتؐ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
( رابطہ۔  9419913776)