غلاف کعبہ سے متصل رُکن یمانی او رملتزم کے درمیان ایک باوردی پہرے دار ہمہ وقت چوکس کھڑا رہتا ہے جس کی واحد ذمہ داری حجر اسود کی حفاظت اور زائرین کی حجر اسود کو چومنے کے عمل کی نگرانی کرنا اور انہیں اس عمل کی ادائیگی میں معاونت فراہم کرنا ہے۔ حجر اسود کی حفاظت پر چوبیس گھنٹوں میں 24 سیکورٹی اہل کار مامور ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک اہل کار ایک گھنٹہ تک اپنی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔حجر اسود کے ان محافظین کی ذمہ داریوں میں زائرین کی جانب سے مقدس پتھر کو بوسہ دینے کے عمل کی نگرانی کرنا، کمزور، ناتواں، عمر رسیدہ اور معذور معتمرین کی مدد کرنا ہے۔حرم مکی کے سیکورٹی بندوبست کے مطابق ہر گھنٹے بعد حجر اسود کے محافظ کی ذمہ داری تبدیل ہوتی ہے اور اس کی جگہ دوسرا چاق و چوبند محافظ ذمہ داری سنبھالتا ہے۔ چونکہ محافظوں کو ہر طرح کے سخت گرم اور سرد موسم اور زائرین کے ہجوم کے ماحول میں مشقت بھری ذمہ داری ادا کرنا ہوتی ہے، اس لیے حجر اسود کے پہرے دار مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ حجر اسود کی حفاظت پر ایسے اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے جو امن وامان کی صورت حال کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے بھی ممتاز مقام رکھتے ہیں۔مسجد حرام اور مسجد نبویؐ کی جنرل پریذیڈنسی ہر نماز سے قبل تطہیر کعبہ کے ساتھ حجر اسود پر خوشبو چھڑکتی ہے۔ مسجد حرام کے فرش اور قالینوں پر بھی چوبیس گھنٹوں کی بنیاد پر خوشبو کا باقاعدگی کے ساتھ چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔
حجراسودکو بیت اللہ کا اہم ترین حصہ مانا جاتا ہے۔ حجر اسود کی تاریخ کے بارے میں کئی آراء پائی جاتی ہیں۔ سعودی عرب کی حکومت حجر اسود کو محفوظ رکھنے کے لیے ہرممکن حفاظتی انتظامات کرتی ہے تاکہ زائرین کی جانب سے اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچ پائے۔مسجد حرم میں بیش قیمت خوشبوؤں کے چھڑکاؤ یونٹ کے سربراہ محمد عقالہ الندوی کے مطابق حجر اسود دراصل 8 چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا مجموعہ ہے، جب کہ کل چھوٹے ٹکڑوں کی تعداد 15 بیان کی جاتی ہے۔ ان میں سے سات ٹکڑے مٹی کی تہوں کے نیچے ہیں۔ ان میں بڑا ٹکڑا 2 اور چھوٹا ٹکڑا ایک سینٹی میٹر ہے۔ ان تمام ٹکڑوں کو درختوں سے حاصل ہونے والے للبان العربی الشجری یا الحوجری بروزہ مادے خوشبو داری دھونی کے سے جوڑا گیا ہے۔ اس کے سب سے چھوٹے ٹکڑے کا سائز ایک جب کہ بڑے ٹکڑوں کا سائز دوسینٹی میٹر ہے۔ حجر اسود کو بچانے کے لیے اس پر سونے اور چاندی کی قلعی بھی کی جاتی ہے۔حجراسود کی حفاظت کے لیے اس کی مسلسل دیکھ بحال کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلسل چھونے، موسمی اور دیگر عوامل کی وجہ سے حجر اسود متاثر ہوتا ہے۔ سعودی حکام ایک جانب تو حجر اسود کو محفوظ بنانے کے لیے ہرممکن اقدامات کر رہے ہیں ،دوسری طرف حجاج و معتمرین کو اس کی حفاظت کے لیے آگاہی بھی دی جاتی رہتی ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ حجر اسود کا کوئی ٹکڑا توڑنے سے گریز کیا جائے۔ ماضی میں غلاف کعبہ کی طرح حجر اسود کے ٹکڑے بھی توڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔حجر اسود کو محفوظ بنانے کے لیے دو سال میں ایک بار ایک یا دو گھنٹے کے لیے حفاظتی مراحل سے گذارا جاتا ہے۔ جہاں کہیں اس کے اندر کسی جگہ کی مرمت کی ضرور ہوتی ہے ،اس کی مرمت کی جاتا ہے۔ تاہم اس کی دیکھ بال معمول کے مطابق آٹھوں پہر اور ہرموسم میںجاری رہتی ہے۔تاریخی کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ سب سے طویل حجر اسود چوتھی صدی ہجری میں محمد بن نافع الخزاعی نے دیکھا۔ اس کا ایک حصہ سیاہ اور باقی سفید تھا۔ اسی طرح سلطان مراد العثمانی ابن علان المکی نصف زراع، ایک تہائی زراع، سفید پتھر اور اس کا سیاہ دھانا دیکھا۔حجر اسود کے گرد چاندہ کا حلقہ سب سے پہلے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے لگایا، اس کے بعد مختلف ادوار میں خلفاء اور بادشاہ اس کے گرد سونے اور چاندے کے حلقے بناتے رہے۔ آل سعود حکومت کے قیام سے قبل آخری بار سلطان محمد رشاد خان نے 1331ھ میں حجر اسود کے سنہری حلقے کا ہدیہ کیا۔ یہ خالص سونے سے تیار کیا گیا تھا۔
بعد ازاں سنہ 1366ھ میں شاہ عبدالعزیز نے اس کے ایک حصے کی مرمت کرائی جبکہ 1375ھ کو الرشادی حلقہ ہٹا کر اس کی جگہ نیا حلقہ لگایا گیا۔حجر اسود کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ طواف کے ہرچکرکا آغاز اور اختتام اسی سے ہوتا ہے۔ خانہ کعبہ اور حجر اسود کے درمیان ملتزم ہے جس کی لمبائی دو میٹر ہے ،جب کہ جنوب مغرب میں رکن کعبہ، رُکن یمانی، جنوب مشرق میں رکن الموازی واقع ہے جہاں سے طواف کا آغاز ہوتا ہے، اسے رکن الیمانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ چونکہ دائیں جانب واقع ہے اس لیے اسے رکن یمانی کہا جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پر دائیں دست مبارک سے استلام فرمایا۔