ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی
حجۃ الوداع یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری حج اسلامی تاریخ کا ایک عظیم الشان اور بے مثال واقعہ ہے، جس کی معنویت ہر لحاظ سے بے پناہ اہمیت کی حامل ہے۔ اس موقع پر نبی کریمؐ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا، وہ صرف ایک مذہبی نصیحت یا وعظ نہ تھا بلکہ ایک ہمہ گیر منشورِ حیات تھا، جو انسانی حقوق، سماجی انصاف، معاشرتی برابری، عورتوں کے حقوق، نسل پرستی کے خاتمے اور عالمی امن جیسے بنیادی اصولوں کا جامع اعلان تھا۔یہ خطبہ نہ صرف اس دور کے مظلوم و محروم انسانوں کے لیے ایک روشنی کی کرن تھا بلکہ آج بھی اقوامِ عالم کے لیے ایک کامل ضابطۂ حیات کی حیثیت رکھتا ہے اوراس کو بلا مبالغہ حقوق انسانی کا پہلا چارٹر کہا جا سکتا ہے۔’’ہجرت کے بعد حضورؐ نے یہ حج اول اور آخری حج تھا۔اس سے قبل حج کی فرضیت بھی نہیں ہوئی تھی یہ فرضیت آپ ؐکی وفات سے ایک سال قبل یعنی سن9 یا 10 ہجری میں ہوئی، یہ حج حضور ؐ کی ہدایات اور دینی ارشادات کےلحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ امت اسلامیہ کو تا قیامت ہدایات دینے کا یہ بہترین موقع تھا، جس میں مسلمانوں کا غیر معمولی اجتماع تھا، چنانچہ جب یہ موقع آیا جو الله تعالی کے آخری رسولؐ اور امت اسلامیہ کے ابدی رہبر حضرت محمدؐ کی حیات طیبہ کا آخری سال تھا اس میں آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو تا قیامت عمل کرنے کی واضح تاکید کی اور اسی کے ساتھ تبلیغ حق کی ذمہ داری بھی سپرد کی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ فرمان نازل ہوا۔’’جب اللہ کی مدد اور فتح آگئی اور آپ نے دیکھ لیا کہ لوگ اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہو رہے ہیں ،توآپ اپنے رب کی حمد کی تسبیح پڑھیں اور استغفار کریں یقیناً وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘نبی کریمؐ سمجھ گئے کہ وقت رحلت قریب آگیا ہے۔ اس لئے ضروری تھا کہ شریعت اور اخلاق کے تمام اساسی اصول مجمع عام میں پیش کر دئے جائیں۔ ہجرت کے بعد اب تک 9 برس گزر چکے تھے مگر آپؐ نے فریضہ حج ادا نہیں فرمایا تھا۔ چنانچہ ذی قعدہ 10ھ میں اعلان ہوا کہ امام الانبیاء ؐ حج کے ارادہ سے مکہ مکرمہ تشریف لے جا رہے ہیں۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر سو پھیل گئی اور شرف ہمرکابی کے لیے تمام عرب اُمڈ آیا۔
حج کے لئے روانگی: ہفتہ کے دن 26 ذی قعدہ کو حضور اکرمؐ نے غسل فرمایا اور احرام کی چادر اور تہمد باندھا۔ نماز ظہر کے بعد مدینہ منورہ سے روانگی ہوئی ۔ تمام ازواج مطہرات بھی ساتھ تھیں۔ مدینہ سے چھ میل کے فاصلہ پر ذوالحلیفہ جو مدینہ منورہ کی میقات ہے پہنچ کر شب بھر قیام فرمایا۔ دوسرے دن دوبارہ غسل فرمایا اور سیدہ عائشہ ؓنے آپؐ کے جسم پر عطر افشانی کی۔ بعد ازاں آپؐ نے ظہر کی نماز دو رکعت ادا فرمائی۔ احرام کی نیت فرمائی اور قصواء اونٹنی پر سوار ہوکر بلند آواز سے تلبیہ پکارا،’’ہم حاضر ہیں ، اے اللہ ! ہم تیرے سامنے حاضر ہیں اے اللہ! تیرا کوئی شریک نہیں ۔ ہم حاضر ہیں ۔ بیشک تمام تعریف اور نعمت اور سلطنت سب تیرے ہی لیے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں ۔‘‘
انسانوں کا ایک تلاطم خیز سمندر آپ ؐ کے آگے پیچھے دائیں بائیں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ کم و بیش لاکھ سوا لاکھ کا جم غفیر تھا۔ آپؐ نے مکہ مکرمہ کے قریب سرف (وادی فاطمہ) پہنچ کر غسل فرمایا دوسرے دن اتوار 4 ذوالحجہ کو صبح کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا یہ سفر 9 دن میں طے ہوا تھا۔ جب کعبہ شریف پر نظر پڑی تو فرمایا یا اللہ اس گھر کے عز و شرف کو دو بالا کر دے۔ پھر کعبہ کا طواف ادا فرمایا۔ پہلے تین چکر رمل ( کندھا ہلا کر اور اکڑا کر چلنا) کے ساتھ اور باقی چار چکر عام چال سے پورے فرمائے ۔ طواف سے فارغ ہو کر مقام ابراہیم پر تشریف لائے اور یہ آیت پڑھی: “وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى”( اور مقام ابراہیم کو سجدہ گاہ بناؤ )یہاں دو نفل ادا کیے۔ پہلی رکعت میں قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُون اور دوسری میں قُلْ هُوَ الله احد پڑھی ۔ پھر سعی کے لیے صفا و مروہ کی طرف تشریف لائے۔ سات چکر ادا کر لینے کے بعد اعلان فرمایا کہ جن کے پاس قربانی کے جانور ہیں وہ احرام نہ کھولیں باقی آدمی حجامت بنوا کر احرام کھول دیں۔
سیدنا علی المرتضیؓ جنہیں یمن سے نبی کریمؐکے لئے قربانی کے اونٹ لانے کو بھیجا گیا تھا وہ ایک سو اونٹ اور یمن کے حجاج کا قافلہ لے کر آ پہنچے۔ جمعرات کے روز آٹھ ذو الحجہ کو صبح سورج طلوع ہونے کے بعد آپؐ منیٰ پر تشریف لے گئے جہاں ظہر عصر مغرب عشاء اور نویں تاریخ کی نماز صبح ادا فرمائیں۔ جمعہ کے دن نویں تاریخ کو منی سے عرفات روانہ ہوئے۔ نمرہ میں کمبل کا ایک خیمہ نصب کیا گیا تھا، وہاں قیام فرمایا۔ زوال کے بعد ناقہ پر سوار ہو کر میدان عرفات میں تشریف لائے اور ناقہ ہی پر خطبہ ارشاد فرمایا۔ وہ لا زوال خطبہ یہ ہے( لوگو! میری بات سن لو! کیونکہ میں نہیں جانتا، شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں تم سے کبھی نہ مل سکوں۔’’ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی، رواں مہینے کی اور موجودہ شہر کی حرمت ہے۔ سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کر دیے گئے اور ہمارے خون میں سے پہلا خون جسے ختم کر رہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا ہے، یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ انہی ایام میں قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کر دیا — اور جاہلیت کا سود ختم کر دیا گیا اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کر رہا ہوں وہ عباسؓ بن عبدالمطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارا کا سارا سود ختم ہے۔ ہاں! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیوں کہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جو تمہیں گوارا نہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن سخت مار نہ مارنا اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاؤ اور پہناؤ اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو گے اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔
لوگو! یاد رکھو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ،لہٰذا اپنے رب کی عبادت کرنا، پانچ وقت کی نماز پڑھنا، رمضان کے روزے رکھنا، خوشی خوشی اپنے مال کی زکوۃ دینا، اپنے پروردگار کے گھر کا حج کرنا اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا۔ ایسا کرو گے تو اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہو گے اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے، تو تم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہ ؓنے کہا، ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کر دی، پیغام پہنچا دیا اور خیر خواہی کا حق ادا فرما دیا۔ یہ سن کر آپؐ نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: ’’اے اللہ گواہ رہنا۔‘‘ آپؐ کے ارشادات کو ربیعہؓ بن امیہ بن خلف اپنی بلند آواز سے لوگوں تک پہنچا رہے تھے۔ جب آپؐ خطبہ سے فارغ ہو چکے تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی، ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا۔‘‘حضرت عمرؓ نے یہ آیت سنی تو رونے لگے۔ دریافت کیا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا، اس لیے کہ کمال کے بعد زوال ہی تو ہے۔ خطبہ سے فارغ ہو کر حضرت بلال کو اذان کا حکم دیا۔ ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ ادا فرمائیں۔ پھر موقف میں تشریف لائے دیر تک قبلہ رو کھڑے ہو کر دعا میں مصروف رہے، آفتاب ڈوبنے لگا تو چلنے کی تیاری فرمائی۔ اسامہ بن زیدؓ کو ان پر پیچھے بٹھالیا ،مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دوا قامتوں کے ساتھ ادا فرمائیں۔ رات آرام فرمانے کے بعد صبح نماز پڑھ کر سورج طلوع ہونے سے پہلے منی واپس تشریف لے گئے ۔ اس وقت فضل بن عباس ؓ اونٹنی پر پیچھے بیٹھے تھے ،ابن عباسؓ کو حکم دیا کہ مجھے کنکریاں چن دیں جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو کر میدان منیٰ میں تشریف لائے، سیدنا بلالؓ ناقہ کی مہار تھامے ہوئے تھے، منیٰ میں آپ ؐنے ایک سو اونٹ کی قربانی ادا فرمائی ۔ 63 اونٹ آپؐ نے خود اپنے دست ِاطہر سے ذبح کیے اور37 کی سیدنا علی المرتضیٰؓ نے قربانی کی ۔قربانی سے فارغ ہو کر سر مبارک معمر بن عبداللہ سے منڈوایا۔ فرط محبت سے ابوطلحہ ؓ اور ان کی بیوی ام سلیم ؓ کو اپنے دست مبارک سے کچھ بال عنایت فرمائے اور باقی ماندہ بال ابوطلحہ ؓ نے اپنے ہاتھ سے تمام مسلمانوں میں ایک ایک دو دو کر کے تقسیم کر دئیے۔ بعد ازاں طواف زیارت کیا۔ پھر چاہ زمزم پر تشریف لائے۔سیدنا عباسؓ نے ڈول میں پانی نکال کر پیش کیا۔ آپؐ نے قبلہ رو کھڑے ہوکر نوش فرمایا اور منیٰ واپس تشریف لے جاکر نماز ظہر ادا فرمائی۔ 13 ذی الحجہ سہ شنبہ تک منیٰ میں قیام فرمایا۔ زوال کے بعد منیٰ سے چل کر وادی محصب (معابدہ) میں قیام کیا ،رات وہاں بسر فرمائی اور سحری کے وقت مکہ مکرمہ تشریف لائے ،کعبہ شریف کا الوداعی طواف ادا فرمایا اور نماز صبح کے بعد مدینہ منورہ کو روانگی فرمائی(صحیح مسلم،باب حجۃ النبی، ابو داود باب حجۃ النبی،الاشھر الحرم وغیرہ)( بحوالہ اطلس القرآن! ص 461)
بلاشبہ حجۃ الوداع حضرت محمد مصطفیٰ ؐکا وہ عظیم الشان اور تاریخ ساز سفر ہے، جو رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ یہ ایک ایسا عالمی اجتماع تھا جس میں نبی کریم ؐ نے اپنے آخری پیغام کے ذریعے دنیا کو عدل، مساوات، رواداری اور انسانی عظمت کا وہ ابدی منشور عطا فرمایا جس کی نظیر تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔ عرفات کے میدان میں دیا گیا وہ خطبہ محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ وہ الہامی حکمتوں کا خزینہ ہے جس نے انسانی سماج کو نئی جہتیں عطا کیں۔آپ ؐ نے واضح فرمایا کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں، اور کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے۔ آپؐ نے خواتین کے حقوق، جان و مال کی حرمت، سود کے خاتمے اور باہمی بھائی چارے جیسے اہم امور پر ایسے زریں اصول وضع فرمائے جو بعد کے تمام ادوار کے لیے عدل و انصاف کا معیار بن گئے۔ حجۃ الوداع کا خطبہ انسانی حقوق کا پہلا جامع منشور ہے، جس میں انسانی حرمت و عظمت کی ضمانت دی گئی اور دنیا کو بتایا گیا کہ انسانیت کا اصل حسن رنگ، نسل، زبان یا قومیت میں نہیںبلکہ خالقِ کائنات کی اطاعت، تقویٰ اور اخلاص میں پوشیدہ ہے۔ رسولِ اکرمؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو وصیتیں فرمائیں، وہ پوری امت مسلمہ کے لیے قیامت تک ایک روشن چراغ اور ضابطۂ حیات ہیں۔ آپ ؐ نے پوری امت کو مخاطب کرکے فرمایا،’’ تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم انہیں تھامے رکھو گے، گمراہ نہ ہو گے، اللہ کی کتاب اور میری سنت۔‘‘ امت مسلمہ کے لئے یہ ایک ابدی پیغام ہے جس میں نصیحت فرمائی گئی ہے کہ قرآن و سنت ہی روشنی کا معیار ہیں اور اس سے دوری ضلالت و گمراہی ہے لہٰذا امت کو تلقین کی گئی ہے کہ تم قرآن کو اپنی زندگی کا رہنما اور سنت کو اپنے عمل کا معیار بناؤ۔ اگر تم ان دو سرچشموں سے جڑ جاؤ گے تو نہ کوئی قوم تمہیں مغلوب کر سکے گی، نہ تم گمراہی کا شکار ہو گے کیونکہ کتاب اللہ اور سنتِ رسولؐ یہ دونوں ایسا نور ہیں جن کے سائے میں انسان نہ صرف دنیاوی ضلالت سے محفوظ رہتا ہے، بلکہ آخرت کی ابدی کامیابی بھی اس کا مقدر بنتی ہے۔
[email protected]