سرینگر//پرنسپل گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کی جانب سے 25مئی کو لل دید ہسپتال میں پیش آئے لاپرواہی کے واقعے کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی کمیٹی نے اگرچہ چند دن قبل تحقیقاتی رپوٹ پرنسپل میڈیکل کالج کو سونپ دی ہے مگررپوٹ ابھی منظر عام پر نہیں آئی اور نہ ہی رپوٹ کی کاپی متاثر مریضہ کے لواحقین کو دی گئی ہے۔ ڈاکٹروں کی تربیت کیلئے بطور نمونہ استعمال کی جاننے والی خاتون کے لواحقین نے بتایا کہ پرنسپل گورنمنٹ میڈیکل کالج کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی کمیٹی کو2 دنوں کے اندر اپنی تحقیقاتی رپوٹ جمع کرنے کی ہدایت دی گئی تھی مگر 16دن گزرجانے کے بائوجود بھی رپوٹ کی کاپی ہمیں نہیں دی گئی۔تفصیلات بتاتے ہوئے متاثرہ خاتون کے شوہر روف احمد بٹ نے بتایا ’’25مئی کو ہماری غیر حاضری میں عاصیفہ کو بطور نمونہ اسپتال کرنے کیلئے گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر منتقل کیا گیا اور واپسی عاصفہ کو ایمبولنس گاڑی کے ڈرائیور کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ۔ ‘‘ روف احمد نے بتایا کہ عاصیفہ کے ساتھ اسکی ماں موجود تھی جس کو جھانسہ دیکر عاصیفہ کو بطور نمونہ استعمال کرنے کیلئے گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کے شعبہ Anesthesia منتقل کیا گیا جہاں کئی گھنٹوں تک اسے بطور نمونہ استعمال کیا گیا ۔‘‘ روف احمد نے بتایا کہ عاصیفہ کو واپسی پر ایمبولنس گاڑی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جس سے نے گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر اور لل دید کے فاصلے کو طے کرنے کیلئے گاڑی کافی تیزی سے چلائی تاہم اس دوران حاملہ عاصیفہ کے پیٹ میں موجود بچے کی موت واقع ہوگئی۔ ‘‘ روف احمد نے بتایا کہ پرنسپل میڈیکل کالج سرینگر نے اسی رو ز واقعے کی تحقیقات کیلئے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کو دو دنوں کے اندر تحقیقاتی رپوٹ جمع کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ روف احمد نے بتایا کہ میڈیکل کالج کی انتظامیہ کی جانب سے تحقیقات کے حکم نامہ جاری کرنے کے ساتھ ہی آنا کانی کا سلسلہ شروع ہوا ۔ روف احمد بٹ نے بتایا ’’ پہلے تو ناسازگار حالات کا بہانا بنایا گیا اور اب رپوٹ پرنسپل گورنمنٹ میڈیکل کالج کے پاس ہونے کا بہانانہ بنایا جارہا ہے۔روف احمد نے کہا کہ میں نے سوموار سے لیکر سنیچر تک گورنمنٹ میڈیکل کالج کے کئی چکر لگائی مگر رپوٹ کی کاپی مجھے نہیں دی گئی ہے۔روف احمد نے بتایا کہ پولیس میں کیس دائر کرنے سے قبل پولیس کو اسپتال انتظامیہ کی جانب سے کی گئی تحقیقاتی رپوٹ چاہئے۔‘‘ روف احمد نے بتایا کہ گورنمنٹ میدیکل کالج میں جس طریقے سے رپورٹ دینے میں آناکانی کی جارہی ہے ، اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ وہ کسی کو بچانا چاہتے ہیں۔کشمیر اعظمیٰ نے جب پرنسپل گورنمنٹ میڈیکل کالج ڈاکٹر ثامیہ رشید سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ ‘‘