کشتواڑ//نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے وادی میں حالات کی بہتری کو حریت کلینڈر کا مرہون منت قرار دیتے ہوئے کہا کہ روز مرہ کی سرگرمیاں احتجاجی کلینڈر کے تابع ہیں اور اس سے حالات کی بہتری سے تعبیرنہیں کیا جانا چاہئے ۔ کشتواڑ کی آئی ٹی آئی گرائونڈ میں ایک پر ہجوم ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہا نے کہا کہ ریاستی حکومت مکمل طور مفلوج ہوچکی ہے اور اسکی رٹ روزانہ بنیادوںپر ان حلقوں کی جانب سے چیلنج کی جارہی ہے جنہیں پہلے اس نے خوش کرنے کی کوشش کی تھی اور اب انہیں دبا رہی ہے۔ڈاکٹر عبداللہ کا کہناتھا’’وادی میں حکومت کی رٹ کا یہ عالم ہے کہ تمام تجارتی ادارے ،ٹرانسپورٹ ،سکول اور زندگی کا ہر شعبہ ہفتہ وار احتجاجی کلینڈر کے مطابق چلتا ہے ۔محبوبہ مفتی کو نارملسی کے علامات کو غلط انداز میں پیش نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ تمام سرگرمیاں حریت لیڈروں کی جانب سے اجرا کردی ہفتہ وار احتجاجی کلینڈر کے تابع رہتی ہیں‘‘۔ان کا مزید کہناتھا’’محبوبہ مفتی کو نوشتہ دیوار پڑھ لینی چاہئے اور یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اجتماعی بیزاری صرف کشمیر مسئلہ کو حکومت کی جانب سے تسلیم کرنے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ پی ڈی پی کی جانب سے ووٹروں کو دھوکہ دینا بھی بڑی وجہ ہے‘‘۔انہوں نے مذاکرات کی اہمیت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں نئی دہلی کو تمام فریقین اور خارجی سطح پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنا پڑے دیر سویر کرنا پڑے گی اور خطہ میںپائیدار امن کیلئے انہیں اسلام آباد کو انگیج کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ کشمیر حل پائیدار مذاکراتی عمل نہ کہ فوجی طاقت یا حد متارکہ پر جارحیت میں پنہاں ہے ۔انہوں نے کہا کہ وادی میں اختلاف اور بیزاری کو سرحد پرلاشوں اور وادی میں پیلٹ گن سے نہیں دبایا جاسکتا بلکہ نئی دہلی کو کشمیریوں کے دل ودماغ کو جیتنا ہوگا۔ نوٹوں کی منسوخی کے فیصلہ کو غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے صدر نیشنل کانفرنس ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ اس سے پورے ملک میں افراتفر ی مچ گئی ہے ، یہاں تک کہ وزیر اعظم مودی کی 90سالہ والدہ کو بھی بنک کی قطار میں لگنا پڑا۔ انہوںنے کہا کہ اس سے کالا دھن پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے لیکن ملک کی غریب عوام کے لئے بے پناہ مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔پارٹی کے کارگزار صدر عمر عبداللہ، جنرل سیکرٹری علی محمد ساگر، مصطفی کمال، صوبائی صدر دیویندر سنگھ رانا اور سجاد احمد کچلو بھی ان کے ہمراہ تھے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتو ں پرملک میں منافرت پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بی جے پی اور آر ایس ایس کی زبان بول رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جہاں آرایس ایس کے ہندو توا ایجنڈا کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔فاروق عبداللہ نے یا دلایا کہ جنگ آزادی میں ہندو مسلمان سبھی برابر کے شریک تھے اور وہ آج بھی سیکولر ہندوستان میں مل جل کر رہنا چاہتے ہیں نہ کہ موہن بھاگوت کے ہندو راشٹرا کا حصہ بننا چاہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر جنگلات لال سنگھ پہاڑوں سے گوجروںکو بے دخل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن وہ اس بات کو فراموش کر گئے ہیں کہ گوجر طبقہ ہی جنگلات کا سب سے بڑا محافظ ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ نیشنل کانفرنس نے پہاڑی اور قبائلی لوگوں کو ہمیشہ ترجیح دی ہے ۔ اپنے خطاب میں پارٹی کے کار گذار صدر عمر عبداللہ نے موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو عوام کش قرار دیتے ہوئے کہا کہ مخلوط سرکار نے امن اور بھائی چارے کے ماحول کو تباہ کر دیا ہے ، محبوبہ مفتی لوگوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں تو مرکز بھی کشمیر میں چار ماہ سے جاری بے چینی کا سد باب کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے ایک وفد لے کر مرکزی قیادت کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ امن کا کوئی متبادل نہیں ہے لیکن حکومت مذاکرات کے بجائے معصوم اور بے گناہ نوجوانوں کے خلاف پیلٹ اور بلٹ کا بے تحاشہ استعمال کرتی رہی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اسمبلی انتخابات کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے کشتواڑ دورہ کے دوران ریاست کے آبی وسائل کے استعمال کے لئے لمبے چوڑے وعدے کئے تھے ، بہت بڑی سرنگ بنانے کا خواب دکھایا تھا لیکن دو بر س سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے ،اس سرنگ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے ۔عمر نے کہا کہ اپنے دور حکومت میں انہوں نے بیروزگاری کو کم کرنے کے لئے کشتواڑ ضلع میں متعدد پروجیکٹ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ، ریٹلی پروجیکٹ کا کام شروع کر دیا گیا تھا لیکن موجودہ مخلوط حکومت نے نہ صرف ریٹلی پروجیکٹ کی تعمیر بند کروادی بلکہ دیگر مجوزہ پروجیکٹوں کو بھی ٹھنڈے بستہ میں ڈال دیا ہے ۔عمر عبداللہ نے بھی نئی دہلی اور کشمیر میں مرکز کے ساتھ بات چیت کے خواہشمند تمام فریقین کے ساتھ فوری مذاکرات پر زور دیاتاکہ سیاسی غیر یقینیت کا خاتمہ کرکے پائیدار امن قائم کیاجاسکے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور پائیدار و باعمل سیاسی حل سے ہی حل کیاجاسکتا ہے اور وہ حل تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب سبھی فریقین کو بامعنی مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے۔انہوں نے نئی دہلی پرزور دیا کہ وہ وادی میں ناراضگی اور بیزاری کو قبول کرے اور یہ قبول کرے کہ وہاں بداعتمادی اور ناراضگی کا ایک سمندر موجود ہے جو ایسی ایجی ٹیشنوںپر منتج ہوتا رہا ہے ۔اس ضمن میں انہوں نے2008،2010اور2016کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وادی میں پائیدار امن کا قیام اس وقت تک ناممکن ہے جب تک نہ سیاسی مسئلہ کو عوامی خواہشات کے مطابق حل کیاجائے۔