ڈاکٹرسُمیہ باغبان
شیراز کی سرزمین، جو گلابوں اور بلبلوں کی وادی کے نام سے مشہور ہے، نے دنیا کو کئی عظیم ہستیاں دی ہیں۔ ان میں سے ایک نام خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی کا بھی ہے، جنہیں لوگ حافظ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔یہ وہ شاعر ہیں جن کی غزلیں آج بھی نہ صرف ایرانیوں بلکہ دنیا میں قدر کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہے، ان کے دیوان سے آج بھی فال نکالنے کی روایت جاری ہے۔ حافظ کی شاعری کو لوگ انہیں روزمرہ کی گفتگو میں بطور محاورہ استعمال کرتے ہیں۔ حافظ نہ صرف ایک شاعر تھے بلکہ ایک فلسفی اور ایک حقیقی عارف کی حیثیت سے بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی شاعری میں محبت کی چاشنی، زندگی کی حقیقت اور روح کی جستجو سب کچھ موجود ہے۔حافظ کی پیدائش 1315 یا 1317 کے آس پاس شیراز میں ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب ایران منگول حملوں کی تباہی سے نکل رہا تھا۔ شیراز ایک ثقافتی مرکز تھا، جہاں ادب، فن اور مذہب کی بحثیں عام تھیں۔ حافظ کا خاندان متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کے والد کا انتقال جلد ہو گیا، جس کی وجہ سے انہیں کم عمری میں ہی تلاش معاش میں سرگرداں ہونا پڑا۔ روایات کے مطابق، وہ ایک نان بائی کی دکان پر کام کرتے تھے اور امیر محلے میں روٹی پہنچاتے تھے۔ وہاں ان کی نظر ایک خوبصورت عورت پر پڑی، جسے وہ شاخ نبات کہتے تھے۔ یہ محبت ان کی شاعری کا ایک اہم حصہ بنی۔حافظ نے کم عمری میں ہی قرآن حفظ کر لیاتھا، جس کی وجہ سے انہیں ’’حافظ‘‘ کا لقب ملا۔ یہ لقب انھوں نے اپنی شاعری میں بھی بطور تخلص استعمال کیا۔ انھوں نے عربی، فارسی ادب اور مذہبی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ وہ رومی، سعدی، عطار اور نظامی جیسے شاعروں کی تحریروں سے نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ ان اساتذہ شعرا کے کلام کو بھی انھوں نے حفظ کرلیا تھا۔ ان کی زندگی میں کئی حکمران آئے اور گئے۔ شاہ ابو اسحاق، شاہ شجاع اور تیمور جیسے بادشاہوں کے دربار میں ان کی رسائی تھی۔ ایک مشہور روایت ہے کہ تیمور نے ان کی ایک غزل پر ناراض ہو کر انہیں طلب کیا، لیکن حافظ کی حاضر جوابی سے متاثر ہو کر انعام دینے پر مجبورہوگئے۔حافظ ؔ کا وہ شعر یہ تھا:
اگر آن ترک شیرازی بہ دست آرددل مارا
بہ خال ہند و یش بخشم سمر قند و بخارا
ایعنی اگر محبوبہ اس کے دل کو جیت لے تو اس کے بدلہ وہ سمرقند و بخارا کی سلطنت اس کے قدموں میں ڈال دے گا۔ تیمور نے پوچھا کہ تم نے میری سلطنت کو ایک خال(تل) کے بدلے بیچ دیا؟ حافظ نے برجستگی سے کہا کہ اسی فضول خرچی کی وجہ سے تو میں غریب ہوںاور پھٹے حال میں دربار می حاضری ہوئی ہے۔ یہ جواب سن کر تیمور ہنس پڑا۔حافظ کی زندگی سادگی سے گزری۔ وہ دربار میں جاتے، لیکن اپنی آزادی کو برقرار رکھتے۔ انھوں نے شادی کی اور اولاد بھی ہوئی، لیکن ان کی شاعری سے لگتا ہے کہ وہ دنیاوی بندھنوں سے آزاد رہنے کے قائل تھے۔ 1390 میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی قبر شیراز میں ہے، جسے حافظیہ کہتے ہیں۔ یہ جگہ آج بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے، جہاں لوگ ان کی شاعری پڑھتے ہیں اور فال نکالتے ہیں۔ ایرانی ثقافت میں حافظ کا دیوان گھر گھر میں موجودہوتا ہے، اور نوروز یا یلدا کی راتوں میں حافظ کے دیوان سے فال نکالنے کی روایت صدیوں سے جاری ہے۔
ان کی شاعری کا مجموعہ ’’دیوان حافظ‘‘ ہے، جو تقریباً 500 غزلوں پر مشتمل ہے۔ یہ غزلیں فارسی میں ہیں، لیکن ان کی خوبصورتی اور گہرائی کی وجہ سے دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ ہوئیں۔ حافظ کی شاعری کا انداز سادہ لیکن پر اثر ہے۔ وہ الفاظ کو ایسے استعمال کرتے ہیں کہ ایک ہی بیت میں کئی معنی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہ ’’ایہام‘‘ کہلاتا ہے، یعنی ایک لفظ کے دو یا دوسے زیادہ مطلب۔ حافظ کی غزلوں میں محبت کا موضوع مرکزی ہے۔ یہ محبت صرف انسانی نہیں بلکہ الٰہی بھی ہے۔ وہ محبوب کو ایسے بیان کرتے ہیں کہ وہ خدا کا عکس لگتا ہے۔
حافظ کی غزلیں موسیقی کی طرح ہیں۔ ایرانی موسیقی میں ان کی غزلیں مترنم گائی جاتی ہیں۔ وہ غزل کی صنف کو کمال تک پہنچانے والے شاعر ہیں۔ ان سے پہلے سعدی اور رومی تھے، لیکن حافظ نے غزل کو مزید لچکدار اور گہرا بنایا۔ ان کی شاعری میں طنز اور ہلکا پھلکا مزاح بھی ہے، جو قاری کو ہنساتا ہے اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔حافظ کی شاعری کا ایک اور پہلو زندگی کی ناپائیداری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا فانی ہے، اس لیے اسے لطف اندوز ہو کر گزاریں۔ان کی شاعری روزمرہ کی زبان میں ہے، اس لیے عام لوگ بھی اسے سمجھتے ہیں۔ ایرانی لوگ ان کی غزلوں کو ضرب المثل کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً جب کوئی خوشی کی بات ہو تو کہتے ہیں: ’’دل شاد باش کہ روزگار خوش است‘‘۔ حافظ نے غزل کو ایسا بنا دیا کہ یہ نہ صرف ادبی ہے بلکہ عملی زندگی کا حصہ بھی۔
حافظ کی شاعری فلسفے سے بھری پڑی ہے۔ وہ زندگی، موت، خدا اور انسان کے رشتے پر پُر اثر باتیں کرتے ہیں۔ ان کا فلسفہ صوفیانہ ہے، لیکن وہ اسے سادہ الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔حافظ کا فلسفہ اتحاد وجود پر مبنی ہے، یعنی سب کچھ خدا کا عکس ہے۔ وہ تقسیم کو ناپسند کرتے ہیں۔ مذہب، فرقے اور سماجی طبقات کی تقسیم پر طنز کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے، اور سب اسی کا اظہار ہیں۔ حافظ مذہبی منافقت پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ وہ زاہدوں کو دیکھتے تھے جو ظاہری عبادت کرتے لیکن دل سے خالی ہوتے۔ان کا فلسفہ زندگی کی خوشیوں پر زور دیتا ہے۔ حافظ کا فلسفہ سماجی بھی ہے۔ وہ حکمرانوں کی ظالمانہ حکمرانی پر تنقید کرتے۔ ان کے دور میں مظفرید اور تیموری حکمران تھے، جو سخت گیر تھے۔ حافظ نے ان کی منافقت کو بے نقاب کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ طاقت فانی ہے، صرف محبت باقی رہتی ہے۔ ان کا فلسفہ امید پر مبنی ہے۔ وہ تاریک دور میں بھی روشنی کی بات کرتے۔ حافظ کا فلسفہ موجودہ عہد میںبھی اہم ہے، کیونکہ وہ انسانی جذبات کو عالمی سطح پر بیان کرتے ہیں۔
عرفان یعنی خدا کی پہچان۔ حافظ ایک حقیقی صوفی تھے۔ ان کی شاعری میں عرفانی عناصر بکھرے پڑے ہیں۔ حافظ نے چلہ کشی کی، یعنی 40 دن کی ریاضت۔ روایت ہے کہ 60 سال کی عمر میں انہوں نے ایک دائرہ کھینچا اور 40 دن بیٹھے رہے۔ چالیسویں دن انہیں شراب کا پیالہ ملا، جو الٰہی معرفت کا استعارہ ہے۔تصوف میں حافظ کی شاعری کی اہمیت کی بنا پرہی مولانا جامی نے کہا ہے ’’حقیقی صوفی کے لیے دیوان حافظ ہی کافی ہے‘‘ حافظ کا عرفان محبت پر مبنی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا تک پہنچنے کا راستہ محبت ہے۔ انسانی محبت الٰہی محبت کا ذریعہ ہے۔ حافظ کے نزدیک عارف وہ ہے جو ظاہری مذہب سے آگے جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسجد اور خانقاہ سے زیادہ دل اہم ہے۔ وہ میخانے کو عرفانی جگہ بناتے ہیں، جہاں ساقی مرشد ہے۔ ان کا عرفان فنا فی اللہ پر ہے، یعنی خود کو خدا میں فنا کر دو۔حافظ نے عرفان کو شاعری میں ایسے گھولا کہ الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی غزلیں پڑھ کر قاری کو روحانی سکون ملتا ہے۔ وہ فطرت کو خدا کا اظہار کہتے ہیں۔
بہر حال کہا جا سکتا ہے کہ حافظ شیرازی ایک ایسے ہیرے ہیں جو شاعری، فلسفے اور عرفان کی روشنی سے چمکتے ہیں۔ ان کی شاعری نہ صرف دل جوئی اور تفریح کا سامان ہے، بلکہ عملی زندگی میں بھی حافظ کی شاعری قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جہاں انسان آج کے دور میں تناؤ اور بکھراؤ کا شکار ہیں حقیقی معرفت کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں وہیں حافظ کی شاعری ایسے لوگوں کی رہنمائی کرتی نظر آتی ہے۔
رابطہ۔9767387202