بلال فرقانی
سرینگر// جموں و کشمیر اور لداخ کی ہائی کورٹ نے 1978 کے جموں و کشمیر جنرل رولز(سول) میں ایک نیا باب داخل کیا ہے، جس میں حاضر سروس فوجیوں کیلئے دیوانی مقدمات سے نمٹنے کے لیے واضح طریقہ کار فراہم کیا گیا ہے۔”فوجیوں کے ذریعہ یا ان کے خلاف مقدمے” کے عنوان سے یہ ترمیم مسلح افواج کے اہلکاروں پر سول عدالتوں کے دائرہ اختیار، گرفتاری اور تنخواہ کی اٹیچمنٹ سے متعلق چھوٹ، اور چھٹی پر فوجیوں کی ترجیحی سماعت کو یقینی بنانے کے اقدامات کا خاکہ پیش کرتی ہے۔یہ ترمیم آئین ہند کے آرٹیکل 227 اور سیول پروسیجر کوڈ 1908 کی دفعہ 122 کے تحت کی گئی ہے، اور سرکاری گزیٹ میں شائع ہوتے ہی نافذ العمل ہوگی۔ نئی شقوں کے تحت سول عدالتیں حاضر سروس فوجی اہلکاروں کے مقدمات کی سماعت کی مجاز ہوں گی، لیکن ان اہلکاروں کو بعض قانونی تحفظ حاصل ہوگا جن میں قرض کی بنیاد پر گرفتاری سے استثنیٰ، تنخواہ اور مراعات کا بچاؤ، اور چھٹی کے دوران مقدمات کی ترجیحی سماعت شامل ہے۔نئی ترامیم کے مطابق اگر کوئی سپاہی ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش نہیں ہوسکتا تو وہ ’مختار نامہ‘ کے ذریعے کسی نمائندے کو قانونی کارروائی کی اجازت دے سکتا ہے۔ مختار نامہ کے اس عمل کو اسٹمپ فیس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے تاکہ فوجی اہلکاروں کے لیے قانونی رسائی کو آسان بنایا جا سکے۔ ترمیم میں وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ ایک سرکاری میمورنڈم بھی شامل ہے جو فوجی قوانین مثلاً آرمی ایکٹ 1950 اور ایئر فورس ایکٹ 1950 کے تحت دستیاب قانونی تحفظات کی وضاحت کرتا ہے۔ اس میں ِ جنگ کے دوران گرفتاری سے استثنیٰ، اور افسران کی طرف سے جاری کردہ سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر مقدمات کی ترجیحی سماعت کا حق شامل ہے۔واضح رہے کہ یہ ترمیم بھارتی بحریہ (انڈین نیوی) کے اہلکاروں پر لاگو نہیں ہوگی، جن پر بدستور 1937ء کے تحت جاری کردہ پرانے اصول لاگو رہیں گے۔